2017بھی بیت گیا۔ گزرتے وقت کو روکا تو نہیں جا سکتا لیکن اس کے ان منٹ نقوش سے فائدہ ضرور اٹھایا جا سکتا ہے۔ یہ سال بھی گزشتہ ہزاروں سالوں کی طرح سب موسم لے کر آیا۔ کچھ خوشیاں کچھ غم دکھائے اور چلا گیا۔ دنیا کی سیاست میں اس سال بہت سے ایسے واقعات رونما ہوئے جن کا اثر آئندہ کئی سالوں تک نظر آتا رہے گا۔ اس سال کا آغاز دنیا کی سپر پاور سمجھی جانے والی ریاست میں سپر تبدیلی سے ہوا جب ڈونلڈ ٹرمپ نے 20 جنوری کو کرسی صدارت کو سنبھالا۔ اگلے چار سال کے لئے منتخب ہونے والے امریکی صدر نے صرف ایک سال میں ہی یہ ثابت کر دیا کہ وہ صرف گرجتے نہیں بلکہ برستے بھی ہیں۔ ان کی طرف سے بعض ’’خطرناک‘‘ اسلامی ممالک پر سفری پابندیاں عائد کی گئیں۔ پاکستان، ایران ، داعش وغیرہ کو دنیا کے لئے بڑا خطرہ قرار دے کر ان کے خلاف ایک طرح سے اعلان جنگ بھی ڈونلڈ ٹرمپ کر چکے ہیں۔ سب سے زیادہ گونج تو یروشلم کو اسرائیل کا دارالخلافہ قرار دیے جانے کے متنازعہ فیصلہ پر سنائی دی۔ بےشک اس فیصلہ کے خلاف اقوام متحدہ میں قرار داد منظور ہوئی لیکن امریکہ کی ویٹو پاور نے اسے بے فائدہ بنا دیا۔ اور ٹرمپ حکومت اس فیصلے کو واپس لینے میں کسی طرح راضی نظر نہیں آتی۔ اسلامی ممالک نے سوائے گالیاں دینے اور اس قرارداد کی مذمت کرنے کے کوئی خاص رد عمل نہ دیکھایا۔
شمالی کوریا کی طرف سےاس سال جاپان کے سمندر میں مزائل کا تجربہ بھی کیا گیا۔ اسی طرح وقتاً فوقتاً شمالی کوریا کی طرف سے جنگ کی دھمکیاں بھی آتی رہیں۔ امریکہ اور یورپ کے بعض ممالک میں عوامی مقامات پر بعض دہشتگردی کے واقعات بھی رونما ہوئے جن کی شدید مذمت بھی کی گئی اور ان کی روک تھام کے لئے اسلام اور اسلامی ممالک کے خلاف آوازیں بھی بلند کی گئیں۔
اس سال کا ایک اہم واقعہ سعودی عرب میں ہونے والی اسلامی ممالک کی کانفرنس بھی تھی جس میں ٹرمپ کو مہمان خصوصی کے طور پر بلایا گیا۔ اور بقول اقبال کے اسلامی ممالک کو ’’پاسبان مل گئے صنم خانے سے‘‘۔ اب اس اتحاد کو کس طرح مسلمانوں کے ہی خلاف استعمال کیا جائے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ لیکن اس کے خدوخال کچھ کچھ واضح ہونے شروع ہو گئے ہیں۔ اسلامی دنیا میں اس سال باقی سالوں کی طرح شور شرابا ہوتا رہا۔ کبھی روہنگیا میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی کہانی سامنے آتی رہی۔ کبھی حوثی باغیوں ، داعش اور ایران کے خلاف اپنے اور غیر آوازیں بلند کرتے رہے۔ فلسطین اور کشمیر کے مسلمانوں کے لئے اقوام متحدہ میں بھی آوازیں بلند کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ لیکن عملاً وہ صرف آوازیں ہی رہیں۔ مسلمان ممالک آپس میں ہی اتحاد قائم نہ کر سکے تو غیروں سے شکوہ کیسا؟ یہود و نصاریٰ کے خلاف فتوؤں کی آوازیں بھی آتی رہیں۔ ان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے دعوے بھی ہوتے رہے۔ اور بس اس شور شرابے کے بعد لمبا سکوت۔ بلکہ انہیں آقاؤں سے مدد کی اپیل جاری رہی۔ اسلامی ممالک میں سے سعوی عرب میں اس سال جہاں اسلامی ممالک کی کانفرنس منعقد ہوئی، وہیں بعض شہزادوں کو برطرف کرنے اور ہوٹل میں قید کرنے کے فیصلے نے بھی خبروں میں خوب جگہ بنائی رکھی۔
پاکستان کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ سال پاکستان کی سیاست میں بھی کافی تبدیلیاں لے کر آیا۔ پانامہ سے شروع ہونے والا سال ختم نبوت کے نعروں سے گونجتا رہا۔ 98 فی صد مسلمانوں کے اسلامی ملک میں ختم نبوت کے مسئلہ کو حل کرنے کے لئے جلسے بھی ہوئے، جلوس بھی ہوئے۔ پارلیمنٹ کے ایوانوں میں گرما گرم ’’روحانی‘‘ تقریریں بھی ہوئیں۔ دھرنے میں ’’ایمان افروز ‘‘ خطابات بھی ہوئے۔ ایک تبدیلی جس کو واپس بھی لے لیا گیا۔ غلطی کا اعتراف کر کے استعفی بھی دے دیا گیا لیکن پھر بھی دھرنے اور سیاست ختم نہ ہو سکی۔
پاکستان میں اس سال ہونے والا ایک اہم واقعہ تیسری بار منتخب وزیر اعظم کی عدالت عظمی کے ہاتھوں نا اہلی تھی۔ اس واقعے نے بھی پاکستان کی سیاست میں کافی ہلچل مچائے رکھی۔ سال کے تقریباً چھ ماہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کی آواز سنائی دیتی رہے۔
اس سال کو پاکستان میں اگر عدلیہ کی حکمرانی کا سال قرار دیا جائے تو وہ بھی غلط نہ ہوگا۔ ایک منتخب وزیر اعظم کو اعلیٰ عدلیہ نے نا اہل قرار دیا۔ اسی طرح بینظیر قتل کیس کی رپورٹ 10 سال بعد منظر عام پر آئی۔دس سال کے باوجود سامنے آنے والی رپورٹ میں یہ تعین ہی نہیں کیا گیا کہ اصل قاتل کون تھا۔ بلکہ بعض حراست میں لئے گئے افراد کو بھی رہا کر دیا گیا۔ 2014 میں ہونے والے لاہور میں واقعہ کی رپورٹ بھی شائع کر دی گئی۔
پاکستان میں اس سال 19 سال بعد ہونے والی مردم شماری ، پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی اور چیمپئین ٹرافی میں کامیابی کو بھی اس سال کے اہم واقعات میں شمار کیا جا سکتا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں