خون انسانی جسم کا ایک لازمی جزو ہے جو دل ،شریانوں اور نس کے ذریعے جسم کے دوسرے اعضاء تک پہنچاتا ہے۔ ہر بالغ انسان کے جسم میں تقریبا 1.2 گیلن سے لیکر 1.5 گیلن تک جبکہ 4.5 لیٹر سے 5.5 لیٹر تک خون پایا جاتا ہے۔کسی بھی وجہ سےخون کی زیادہ کمی کو ڈاکٹر حضرات خون کی منتقلی ( Blood Transfusion) کی مدد سے دور کرتے ہیں۔ خون کی محفوظ منتقلی کیلئے سب سے پہلے اس کا گروپ معلوم کرنا ضروری ہوتا ہے جو (ABO Blood Group System) کے تحت معلوم کیا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر خون کے گروپس کو چار اقسام یعنی A , B , O , اور AB میں تقسیم کیا گیا ہے جس میں ہر ایک قسم کی Positive اور Negative میں مزید تقسیم کی گئی ہے۔ گروپ O خون کو تمام گروپس کے مریضوں کو منتقل کیا جاسکتا ہے جبکہ گروپ A خون کو A اور AB ، گروپ B خون کو B اور AB اور گروپ AB خون کو صرف AB گروپ کے مریضوں کو منتقل کیا جا سکتا ہے۔دنیا بھر میں ہر سال 14 جون کو بلڈ ڈونر ڈے (Blood Donor Day) یعنی خون عطیہ کرنے والوں کا دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد خون کی محفوظ منتقلی کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ تمام ان افراد کی حوصلہ افزائی کرنا ہے جو بغیر کسی ذاتی لالچ کے اپنا خون دوسروں کی زندگیاں بچانے کیلئے عطیہ کرتے ہیں۔
کسی بھی ضرورت مند مریض کو خون عطیہ کرنا صدقہ جاریہ میں شمار ہوتا ہے۔ جبکہ کسی دوسرے مسلمان کی مدد سے الله تعالیٰ آپ کو ہر قسم کی آفات اور محرومیوں سے بچاتا ہے۔ قرآن پاک کی سورت المائدہ کی آیت 32 میں اللہ تعالیٰ نے ایک انسان کی جان بچانے کو پوری انسانیت کی جان بچانے کے مترادف قرار دیاہے۔خون عطیہ کرنے سے کسی ضرورت مند کی مدد اور ڈونرز کو روحانی سکون اور راحت اپنی جگہ ، لیکن آج ہماری کوشش ہوگی کہ خون دینے کے عمل کو ایسے انداز میں پیش کیا جائے جس سے بہت سے لوگوں کے شکوک وشبہات ختم کرکے ان کو اس عظیم عمل کی راغب کیا جا سکے۔
اکثر لوگوں کا یہ خیال ہے کہ خون عطیہ کرنے سے انسان کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں جبکہ یہ بات بالکل درست نہیں۔ خون عطیہ کرنے میں جتنا خون لیا جاتا ہےوہ انسانی جسم 21 دن میں دوبارہ بناتا ہے جبکہ نئے خون کے خلیات پرانے خون سے زیادہ صحتمند اور طاقتور ہوتے ہیں جو انسان کو کئی امراض سے بچاتے ہیں۔ فن لینڈ میں کئے گئے جرنل آف دی امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کی ایک ریسرچ کے مطابق جو لوگ وقتاً فوقتاً خون کا عطیہ دیتے ہیں ان میں دل کا دورہ پڑنے اور کینسر لاحق ہونے کے چانسز ٪95 فیصد تک کم ہو جاتے ہیں۔ عطیہ شدہ خون کی 7 طرح کی ٹیسٹنگ کی جاتی ہے جس کی وجہ سے ڈونر اپنی کسی بھی پوشیدہ بیماری سے لاعلاج ہونے سے پہلے آگاه ہو جاتا ہے۔
جسم میں آئرن کی زیادہ مقدار اور اس کے کم اخراج کی وجہ سے آئرن انسان کے دل ، جگر اور لبلبہ کو متاثر کرتا ہے۔ جبکہ ریسرچ سے ثابت ہوا ہے کہ جسم میں آئرن کی مقدار کو بیلنس رکھنے کیلئےخون عطیہ کرنا ایک نہایت مفید عمل ہے۔ اس عمل سے رگوں میں خون کے انجماد کو روکنے اور جسم میں خون کے بہتر بہاؤ میں مدد ملتی ہے۔ اکثر ریسرچرز کا ماننا ہے کہ باقاعدگی سے خون دینے والے ڈونرز موٹاپے کا شکار نہیں ہوتے کیونکہ خون دینے کا عمل جسم کی چربی کو کم اور وزن کنٹرول کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ خون عطیہ کرنے کے بعد نئے خون کے بننے سے چہرے میں نکھار پیدا ہوتا ہے اور یہ چہرے پر بڑھاپے کے اثرات کو زائل کرتا ہے۔
الغرض خون دینا نہ صرف خون لینے والے ضرورت مند مریض کے کام آتا ہے بلکہ اس عمل سے خون عطیہ کرنے والوں کے جسم پر بھی بہت مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ہمیں ہمیشہ افواہوں اور قیاس آرائیوں پر یقین رکھنے کے بجائے حقائق کی تلاش کرنی چاہیے تاکہ معاشرے میں مثبت سوچ کو فروغ ملے اور اپنی مدد آپ کے تحت انسان ایک دوسرے کا ہمدرد ، مددگار اور مسیحا بنے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں