انجام وہی ہوگا جو بھٹو کا ہوا تھا /گل بخشالوی

کل کیا ہوگا خدا جانتا ہے ،آج کیا ہورہا ہے ہر کوئی دیکھ اور سُن رہا ہے وہ بھی پریشان ہے جس کا سیاست سے تعلق ہے اور وہ بھی جو صرف پاکستانی ہے، اس لئے کہ ہر ادارہ بے لگام ہے ، آئین اور پارلیمنٹ کی آڑ میں وہ کچھ ہو رہا  ہے جو دنیا میں نہ کسی نے دیکھا اور نہ سنا ، قوم پر مسلط کیا گیا ٹولہ ، حکمرانی کے نقاب میں ان کے اشاروں پر رقصا ں ہے جن کی خواہش پر رات بارہ بجے عدالت لگی تھی  ،جنہیں قوم نے اعتماد کا  ووٹ دیا ، انہیں اتار دیا اور انہیں تخت ِ اسلا م آباد پر بٹھا دیا گیا ، جنہیں عوام نے مسترد کر دیا تھا ، آج وہ ہی سپریم کورٹ ان کے ہاتھوں بے لباس ہے جنہیں حکمرانی کی شیر وانی پہنائی تھی ، آج ان کی پارلیمنٹ سپریم اور سپریم کورٹ بے توقیر ہے رجیم چینج کے سردا ر خاموش ہیں اور سپریم کورٹ کے جج اپنی بے لباسی پر پریشان لیکن قلم میں طاقت رہی نہ لہو میں قومی جذبہ ، خان نے ایک جج کو مخاطب کیا تھا خان قصور وار ، اور جو سر ِ عام ججوں کی توہین کر رہے ہیں، اس سے وہ جج لطف اندوز ہورہے ہیں جو تخت اسلام آباد کے درباری ہیں ، اور وہ جو عظمت ِ پاکستان کو سوچ رہے ہیں ، وہ بے زبان ہیں، اس لئے کہ بادشاہت ان کی ہے جن کے سر پر سلیمانی کیپ ہے ، ہر کوئی جانتا ہے ، بے خبر وہ بھی نہیں جو ذہنی غلام ہیں، ہر کوئی خوف زدہ ہے آنے والے کل سے ، وہ جانتے ہیں کہ حکمرانی کی ڈور اگر ان کے ہاتھ سے نکل گئی تو انجام کیا ہوگا ۔

سابق وزیر اعظم عمران خان صرف سیاست دان نہیں، نظریاتی قائد ہیں، عمران خان صرف ایک شخصیت نہیں ایک نظر یہ ہے خان نے تبدیلی کے نعرے سے قومی شعور کو جگایا ، وہ کہتا ہے میں جانتا ہوں یہ لوگ مجھے قتل کر دیں گے لیکن میری زندگی اور موت کے فیصلے کا مالک وہ ہے جو ہم سب کا خدا ہے ، خان کہتے ہیں ، میں کسی سے زندگی کی خیرات نہیں مانگوں گا اور نہ ہی دیس چھوڑ کر جاؤں گا ، میری زندگی پاکستان کے لئے اور بعد از وفات میرے اثاثے شوکت خانم ہسپتال کے لئے وقف ہیں۔

قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کے بعد کپتان وہ دوسرا قائد ہے جو صرف عظمت پاکستان کا علم بردار ہے، عمران خان پاکستان کی وہ عظیم شخصیت ہیں جس نے دنیا کی نامی گرامی بریڈ فورڈ یونیور سٹی کے چانسلر کا عہدہ قبول کرنے کے لئے شرط رکھی ، اس نے کہا مجھے تنخواہ اور مراعات کی ضرورت نہیں، میں اپنے دیس پاکستان میں بریڈ فورڈ یونیورسٹی کا کیمپس چاہتا ہوں ، برطانیہ کی عالمی شہرت یافتہ بریڈ یونیورسٹی کو عمران خان کا مطا لبہ تسلیم کرنا پڑا اس لئے کہ وہ عمران خان جیسے وطن دوست سکالر کو نظر انداز نہیں کر سکتے تھے ، وہ جان گئے کہ اس شخص میں کچھ کرنے کی صلاحیت ہے اس سکالر کو ا پنی ذات سے زیادہ اپنا دیس عزیز ، آج پاکستان میں نمل یونیورسٹی کی وہ ڈگری جو برطانیہ کے بریڈ فورڈ یونیورسٹی سے ملتی ہے پاکستان میں مل رہی ہے ۔

تحریک ِ انصاف کی حکمرانی میں پاکستان کو او آئی سی کی صدارت ملی ۔ تو وزیر اعظم پاکستان نے اقوام ِ متحدہ میں عالمی دنیا سے خطاب کرتے ہوئے مسلمانوں کے لئے مستقل نشست کا مطالبہ کر دیا ، اس وقت مسلمان دشمن قوتوں کے کان کھڑے ہوگئے ، وہ جان گئے کہ اس شخص میں مسلمانوں کا عالمی لیڈر بننے کی صلاحیت ہے ، یہ شخص آنے والے کل کو مغرب کے لئے خطرہ بن سکتا ہے ، اور ان کا خوف رجیم چینج میں دنیا بھر نے دیکھ لیا عمران خان مسلم دنیا کا وہ قائد ہے جس نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں توہین رسالت کے حوالے سے کہا ، جب ہمارے نبی کی شان میں کوئی گستاخی کرتا ہے تو ہمار ے سینوں میں درد ہوتا ہے ۔

پاکستانیوں کو یاد ہو گا،قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے اس جنرل کی غلامی کے خلاف جس کے حرام خوروں نے مادر ِ ملت فاطمہ جناح کو قومی غدار کہاتھا ، اس قائد نے روٹی ، کپڑا اور مکان کا نعر ہ لگا کر قومی شعور کو جگایا تھا بھٹو شہید نے کہا تھا ، میں پاکستان کی عظمت اور عوام کی حکمرانی اور سرزمین پاکستان کی شادابی کے لئے اپنے خاندان کو قربان کر دوں گا ، میں سوائے خدا کے کسی سے زندگی کی بھیک نہیں مانگوں گا ، میں پاکستانی ہوں پاکستان میں رہوں گا اور پاکستان ہی میں دفن ہو ں گا ، ذوالفقار علی بھٹو نے قوم اور خدا سے جو وعدہ کیا تھا وہ پورا کر دیکھایا۔ پاکستان میں د فن ہوا اور خاندان اسلامی جمہوریہ پاکستان پر قربان ہوگیا ، اس لئے آج بھی بھٹو زندہ ہے کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو کسی شخصیت کا نہیں ایک نظریے کا نام ہے اور نظر یات دفن نہیں ہوا کرتے  ، 46 برس قبل 28 اپریل 1977 کو پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انتہائی جوشیلے اور جذباتی انداز میں پاکستان کے اندرونی معاملات میں امریکی مداخلت کا الزام لگاتے ہوئے کہا تھا”امریکہ پاکستانی حکومت کے خلاف مداخلت کر رہا ہے اور اپوزیشن کے ذریعے مجھے ہٹانا چاہتا ہے۔”

ذوالفقار بھٹو نے پارلیمنٹ میں خطاب سے قبل صدر بازار راولپنڈی میں امریکی وزیرِ خارجہ ’ہنری کسنجر کا خط عوامی اجتماع میں لہرایا تھا۔ ذوالفقار بھٹو کا کہنا تھا میرے خلاف عالمی سازش ترتیب دے دی گئی ہے، امریکہ نے مالی مدد بھی فراہم کی میرے سیاسی مخالفین کو سازش میں مہرہ بنایا گیا ہے۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے بھٹو نے کہا کہ ’ویتنام میں امریکہ کی حمایت نہ کرنے اور اسرائیل کے مقابلے میں عربوں کا ساتھ  دینے کے جرم میں امریکہ مجھے معاف نہیں کرے گا۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو اقتدار کے آخری دنوں یہ بتانے کی کوشش کر رہے تھے کہ ان کے خلاف امریکہ سازش کر رہا ہے اور حزبِ اختلاف کی جماعتیں اور پاکستان کے مقامی صنعتکار جن کی صنعتیں قومی تحویل میں لی گئی تھیں اس سازش میں شامل ہیں‘ بھٹو نے سچ کہا تھا امریکہ کی سازش کامیاب ہوئی اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد پی این اے کی تحریک سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جنرل ضیاالحق نے پانچ جولائی 1977 کو ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔

پی ٹی آئی کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے 27 مارچ 2022 کو ایک بڑے جلسہ عام میں ایک خط جیب سے نکال کر لہراتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ میری حکومت گرانے کی سازش ہو رہی ہے اور انھیں ’لکھ کر دھمکی دی گئی ہے۔‘ اپنے خطاب میں عمران خان نے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا بھی حوالہ دیا جنھوں نے بھی 46 برس قبل الزام لگایا تھا کہ ان کی حکومت کے خلاف اپوزیشن کی تحریک کے پیچھے امریکہ ہے جو انھیں اقتدار سے نکالنا چاہتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پی این اے کی قیادت کی اولاد آج کی پی ڈی ایم ہے پیپلز پارٹی بھی اپنے شہیدوں کے قاتلوں کے ساتھ کھڑی ہے ، اس لئے کہ یہ لوگ اقتدار پرست ہیں انہیں پاکستان اور پاکستانی عوام سے کوئی غرض نہیں ، یہ لوگ کسی بھی طور اپنے پیروں پر کلہاڑی نہیں ماریں گے آج وہ ہی صورت ِ حال ہے جو 1970 میں تھی ، مار شل لاء کے لئے راستہ ہموار کر دیا گیا ہے یہ لوگ ذاتی مفادات اور خواہشات پر جمہوریت کو قربان کرنے کے انتظار میں ہیں یہ لوگ جال بچھائے ہوئے ہیں بوٹوں والے تیار بیٹھے ہیں ، جیسے ہی عمران خان سڑکوں پر آئیگا ، لاشوں پر سیاست کرنے والے اپنے پالتوں غنڈوں کے ہاتھوں لاشیں گرائیں گے ، سڑکوں پر خون بہے گا ، اور بوٹوں والے تخت ِ اسلام آباد پر قابض ہوں گے ،، عمران خان کے خلاف قتل کے مقد مات د رج ہوں گے ، عمران گرفتار ہوں گے،اور انجام وہ ہی ہوگا جو ذوالفقار علی بھٹو کا ہوا تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply