آزاد کشمیر کی لوٹا منڈی/حیدر جاوید سیّد

سیاست کا بازار تو خیر پاکستان بھر میں”گرم” ہے۔ لالہ سراج الحق کی عمران خان سے ملاقات کے بعد اخبار نویس پی ٹی آئی اور حکومتی اتحاد میں مذاکرات کے لئے زمان پارک کی پیش کردہ جن شرائط کا ذکر کررہے ہیں ان پر پھپھولے پھوڑتے ہوئے فقیر راحموں کا کہنا ہے “سوہنا ہن این آر او منگدا”۔

ایک دلچسپ اعتراف وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کیا فرمایا “سپریم کورٹ میں دو جونیئر ججز کے معاملے پر چیف جسٹس کے حق میں ووٹ کرنے کا معاملہ قیادت اور اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوی باجوہ کے درمیان طے پایا تھا۔ میں نے قیادت کے حکم پر ووٹ دیا”۔

کون سی قیادت پی ڈی ایم و اتحادیوں کی یا قبلہ کامریڈ میاں نوازشریف قائد سول سپرمیسی؟

کچھ خبریں زمان پارک کے باہر لگے تمبو کو خیمہ امام حسینؑ قرار دیئے جانے پر پیدا ہونے والے تنازع کی بھی ہیں اور ایک خبر یہ بھی کہ سندھ کے سابق گورنر عمران اسماعیل کسی وقت بھی “چُکے” جاسکتے ہیں۔ ان کے خلاف چند لوگوں نے الزام لگایا ہے کہ انہوں نے 2007ء سے 2010ء کے درمیان انہیں ایک چپ بورڈ فیکٹری کی اپنے اپنے اضلاع میں ایجنسی دلوانے کے نام پر بھاری رقم وصول کی تھی درخواست گزاروں نے رقم بارہ لاکھ سے 50 لاکھ تک لکھی ہے۔ جھوٹ سچ درخواست گزار جانیں اور عمران اسماعیل ویسے زرتاج گل اور اس کے شوہر نامدار بھی ریڈار پر ہیں۔

ان ساری باتوں کو چھوڑیئے ہم آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد چلتے ہیں۔ جہاں لوٹوں کی منڈی لگی ہوئی ہے۔ فی الوقت منڈی کا سب سے بڑا بیوپاری آزاد حکومت ریاست جموں کشمیر کا صدر بیرسٹر سلطان محمود ہے۔ بیرسٹر سلطان محمود کو اگر آپ سادہ سے تعارف کے ذریعے جاننا چاہتے ہیں تو وہ ایک ہی وقت میں مصطفی کھر اور کوثر نیازی ہیں۔

ایک عدد اطلاع یہ ہے کہ مظفر آباد میں لوٹا گردی سے جو نئی حکومت (یہ حکومت تین سے چھ ماہ کے لئے ہوگی) بنانے کی کوشش ہورہی ہے اس میں کرہ ارض کی عظیم اینٹی اسٹیبلشمنٹ پارٹی، پیپلزپارٹی بھی شریک ہے۔ دوسری اطلاع یہ ہے کہ بیرسٹر سلطان محمود (صدر آزاد کشمیر) کے اپنی ہی جماعت تحریک انصاف میں بنوائے گئے فارورڈ بلاک کے پی پی پی اور (ن) لیگ سے معاملات طے پاگئے ہیں۔

وزیراعظم فارورڈ بلاک کا ہوگا سپیکر شپ اور 2 وزارتیں مسلم لیگ (ن) کی ہوں گی۔ بیرسٹر سلطان محمود تین سے چھ ماہ کے اندر صدر کے عہدے سے مستعفی ہوکر ریاستی اسمبلی کا الیکشن لڑیں گے پھر ان کے وزیراعظم بننے کی صورت میں صدر کا عہدہ پیپلزپارٹی کو دیا جائے گا جبکہ ریاستی کابینہ میں بھی پی پی پی کا حصہ معقول ہوگا۔ سوشل میڈیا پر البتہ پیپلز پارٹی آزادکشمیر اور نون لیگ تردید پر تردید کررہے ہیں۔

اپوزیشن اتحادیوں میں شامل جے کے پی پی والے حسن ابراہیم نے خلاف توقع حکومت سازی کے لئے بننے والے نئے پارلیمانی اتحاد کا ساتھ دینے سے انکار کردیا ہے۔

اسی طرح سردار عبدالقیوم خان مرحوم کے فرزند اور مسلم کانفرنس کے سربراہ سردار عتیق بھی اپنی جماعت کی مشاورت کے بعد نئے اتحاد کا ساتھ دینے پر آمادہ نہیں ان کا خیال ہے کہ اگر پی ٹی آئی کو حکومت سازی کے لئے صرف ایک ووٹ درکار ہوا تو مسلم کانفرنس (سردار عتیق) اسے ووٹ دیں گے بصورت دیگر غیرجانبدار رہا جائے گا۔

آزاد کشمیر قانون سازی اسمبلی کی سب سے بڑی پارلیمانی جماعت تحریک انصاف فارورڈ بلاک بن جانے کی وجہ سے عددی اکثریت سے محروم ہوگئی ہے۔ اطلاع یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے فارورڈ بلاک میں فی الوقت 9 ارکان ہیں 8 مرد اور ایک خاتون رکن بیگم امتیاز نسیم۔ پی ٹی آئی نے علماء و مشائخ کی نشست پر جے یو آئی سے تعلق رکھنے والے پیرزادہ مظہر سعید المعروف مظہر الحق کو رکن بنوایا تھا پیرزادہ بھی فارورڈ بلاک کو پیارا ہوا۔ راولپنڈی سے مہاجرین کی نشست پر پی ٹی آئی اور لال حویلی کا مشترکہ رکن اسمبلی جاوید بٹ بھی باغیوں یا فارورڈ بلاک میں ہے۔

جاوید بٹ کی گزشتہ روز تحریک انصاف کے جذباتی کارکنوں نے “اچھی طرح افطاری کروائی”۔ زخمی حالت میں ایک ہسپتال کی کرسی پر بیٹھے رکن اسمبلی کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔ ریاستی اسمبلی میں اس وقت پی پی پی کے 12، (ن) لیگ کے 7ارکان ہیں حسن ابراہیم کو ملاکر یہ 20ارکان تھے لیکن حسن ابراہیم اس اتحاد سے الگ ہوچکے۔

بیرسٹر سلطان محمود کے بنوائے فارورڈ بلاک میں 8 سے 9 ارکان ہیں ویسے دعویٰ 10 ارکان کا ہے۔ حکومت سازی کے لئے 27ارکان کی ضرورت ہے۔ پی پی پی اور (ن) لیگ کے 19 ارکان اور فارورڈ بلاک کے 8 ارکان ہیں تو یہ تعداد 27 بنتی ہے 9 ہیں تو 28 دونوں صورتوں میں یہ نیا اتحاد حکومت بنانے میں تو کامیاب ہوجائے گا لیکن کیا لوٹا گردی سے بنی اس حکومت کی کوئی اخلاقی حیثیت ہوگی؟

فقیر راحموں نے ان لمحوں سرگوشی کرتے ہوئے کہا ہے کہ پہلے بڑے سیاسی اخلاقیات کی معراج پر کھڑے ہیں یہ سیاسی لوگ۔ آزاد کشمیر کے مختلف الخیال سیاسی کارکن دعویٰ کررہے ہیں کہ پچھلے چند دنوں کے دوران مظفر آباد میں جو اتھل پتھل ہورہی ہے یہ پاکستان کی دو بڑی ایجنسیوں کی محنتوں کا ثمر ہے۔

ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ نااہل قرار پانے والے سردار تنویر الیاس کے خلاف آیا عدالتی فیصلہ بھی کوہالہ کے دوسری طرف سے لکھا ہوا آیا تھا۔

بہرطور یہ سیاسی کارکنوں کی رائے ہے۔ دلچسپ رائے سے ہمارے کینیڈا میں مقیم نوجوان ترقی پسند کارکن اظہر مشتاق نے آگاہ کیا وہ کہتے ہیں کہ بھارتی کشمیر سے ایک سوشل میڈیا صارف نے لکھا “خود کو آزادی کے بیس کیمپ کا وارث قرار دینے والوں کی اخلاقی حالت دیکھ کر رونا آتا ہے۔ پھر ہم آنسو پونچھ کر شکر ادا کرتے ہیں کہ کم از کم ہم ان ابن الوقتوں کی سیاست اور دوسرے معاملات کا حصہ نہیں۔ آگے چل کر وہ صارف لکھتے ہیں، یہ منہ اور مسور کی دال۔ یہ لوگ ہمیں بھارت سے آزادی دلوائیں گے جو خود آزادی کے ساتھ اپنی حکومت نہیں بناسکتے”۔

مقبوضہ کشمیر کے سوشل میڈیا صارف کا ردعمل آزاد کشمیر کے سیاستدانوں کے منہ پر زور دار تھپڑ ہے لیکن تھپڑوں کی پروا کون کرتا ہے جب وزارتیں سپیکریاں اور صدارتیں مل رہی ہوں۔ مظفر آباد میں دوسرا مورچہ عدالتوں میں لگا ہے۔ تحریک انصاف کی رجسٹریشن کے خلاف دائر درخواست کی مزید سماعت اب 8مئی کو ہوگی۔

مسلم کانفرنس سے تعلق رکھنے والے ہمارے دوست سید احسن کاظمی کی رائے یہ ہے کہ اگر پی ٹی آئی کی رجسٹریشن منسوخ ہوئی تو اس کی زد میں دوسری غیرریاستی (یعنی پاکستانی سیاسی جماعتوں کی کشمیری شاخیں) سیاسی جماعتوں کا بوریا بستر بھی گول ہوسکتا ہے۔ قانونی ماہرین کی اکثریت کی بھی رجسٹریشن والے معاملے میں تقریباً یہی رائے ہے۔

آزاد کشمیر میں سب سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی پیپلزپارٹی کی شاخ قائم کی تھی۔ پھر جماعت اسلامی بنی۔ بریگیڈیئر حیات خان آزاد کشمیر کے صدر تھے تو اس نے مسلم لیگ بنائی۔ دوسری چھوٹی موٹی جماعتوں کا ذکر کیا۔

آزاد کشمیر کی تینوں بڑی جماعتوں کو قیادت مسلم کانفرنس سے ہی ملی۔ ممتاز راٹھور مرحوم پی پی پی، عبدالباری خان مرحوم جماعت اسلامی، دونوں پہلے مسلم کانفرنس میں تھے۔ (ن) لیگ کے غلام قادر شاہ اور فاروق حیدر وغیرہ بھی کانفرنسی ہوا کرتے تھے۔ پی ٹی آئی آزاد کشمیر کے زیادہ تر لوگ مسلم کانفرنس کی کھرچن ہی ہیں۔

اب اگر پی ٹی آئی کی ریاستی شاخ کی رجسٹریشن منسوخ ہوتی ہے تو پھر پی پی پی، جماعت اسلامی اور مسلم لیگ (ن) وغیرہ بھی اس قانون کی زد میں آئیں گی۔

بیرسٹر سلطان محمود کے والد چودھری نور حسین کی اپنی ذاتی جماعت آزاد مسلم کانفرنس ہوا کرتی تھی انہوں نے اس جماعت کو پیپلزپارٹی میں ضم کیا تھا۔ کچھ وقت کے لئے مرحوم کے ایچ خورشید کی لبریشن لیگ بھی پیپلزپارٹی میں ضم ہوئی تھی لیکن پھر انہوں نے اپنی جماعت بحال کرلی۔ اب خیر ان کا نام ڈھونڈے سے نہیں ملتا۔

بیرسٹر سلطان محمود جو ایک ہی وقت میں کوثر نیازی، مصطفی کھر اور مرادسعید کا “منورنجن” ہیں”دلچسپ” سیاسی تاریخ رکھتے ہیں۔ کشمیری دوست کہتے ہیں کہ وہ آزاد کشمیر کا وزیراعظم بننے کے لئے بھارتی کانگریس اور بی جے پی سے بھی سیاسی اتحاد کرسکتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

مظفر آباد میں جاری لوٹا گردی کا “انجام” عین ممکن ہے ان سطور کی اشاعت تک واضح ہوچکا ہو لیکن اس انجام کی بدولت جو کالک پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے چہروں پر لگے گی وہ شاید دریائے نیلم اور جہلم کے سنگم کے میلاپ والے مقام “دومیل” کے مشترکہ پانی سے بھی نہ دھل پائے لیکن سیاست اسی کو کہتے ہیں جب دائو لگے لگالو۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply