• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • تبدیلی سرکار کی کرپشن اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل۔۔ارشد غزالی

تبدیلی سرکار کی کرپشن اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل۔۔ارشد غزالی

پاکستان میں اگر کوئی غیر مقبول اور غیر معروف صحافی بھی ٹویٹر یا فیس بک پول کروا دے تو ووٹ ہزاروں میں چلے جاتے ہیں ایسے میں 22 کروڑ آبادی کے ملک میں گلگت بلتستان اور کشمیر چھوڑ کر چار صوبوں میں سے صرف 1600 لوگوں سے رائے لے کر کرپشن انڈیکس میں تنزلی ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کا تازہ ترین کارنامہ ایک غیر سنجیدہ مذاق کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اگرچہ 22 کروڑ کی آبادی میں صرف 1600 ڈیٹا سیمپلز بذات خود اس ادارے کی ٹرانسپیرنسی پر سوالیہ نشان ہیں، مگر اس میں بھی یہ بات اہم ہے کہ ہر صوبے کے چار شہروں سے لئے گئے ڈیٹا سیمپل اگر ان علاقوں کے ہوں گے جہاں نون لیگ یا پیپلز پارٹی کی اکثریت ہوگی تو ان کا رزلٹ مختلف ہوگا اور اگر یہی رزلٹس میانوالی یا حکومتی اکثریتی حمایتی علاقے سے لئے جائیں تو رزلٹ قطعی مختلف ہوں گے۔

حکومت مخالف میڈیا اور سیاست دانوں نے مگر اس رپورٹ کو بنیاد بنا کر پاکستان میں آفت مچا دی ہے، جس کی وجہ سے تبدیلی سرکار اس وقت شدید طوفان کی زد میں ہے نیز چونکہ خان صاحب خود ماضی میں اسی ادارے کی رپورٹوں کے حوالے دیتے رہے ہیں ،اس لئے خان صاحب کے ان بیانات کو بھی اچھالا جارہا ہے اور تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، اس شور شرابے کا بظاہر مقصد حکومت پر دباؤ بڑھانے کی کوشش نظر  آرہی ہے اور دوسرا پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کی سازش، جس سے بدظن ہوکر سرمایہ کاری میں مشکلات اور دیگر رکاوٹیں کھڑی کی جا سکیں ،جب کہ پاکستان پہلے سے ہی فیٹف کی گرے لسٹ میں موجود ہے جس سے نکلنے کے لئے حکومت اپنا تمام تر زور لگا چکی ہے مگر امریکہ بہادر کی ایماء کے بغیر یہ ممکن نظر نہیں آتا۔ فیٹف کی گرے لسٹ اور  آئی ایم ایف کی سخت شرائط سمیت دیگر عالمی معاملات کو ہمارے ہینڈسم وزیراعظم کے ایبسلوٹلی ناٹ کا شاخسانہ قرار دیا جاتا ہے جو بہرحال غلط نہیں ہے۔

پچھلے ساڑھے تین سال میڈیا کے تجربہ کار, جہاندیدہ اور مایہ ناز صحافی ہر چند دن بعد حکومت کے جانے کی ڈیڈ لائنیں دے کر اور اس کے بعد ڈیل اور ڈھیل کا پروپیگنڈہ کر کے ناکام ہونے کے بعد اب بظاہر دوسرے ہتھکنڈوں پر اُترتے نظر آرہے ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے کرتا دھرتا عادل گیلانی ہیں جنھیں کسی “بہترین کارکردگی” پر میاں نواز شریف نے سربیا کا سفیر مقرر کیا تھا نیز چند سال قبل پاکستان کے مستند اخبارات و جرائد میں ان کی اس دور کے حوالے سے بھی کرپشن پر ایف آئی اے کی انکوائری کی سٹوریز آئیں  تھیں جس دور میں وہ کے ڈی اے اور پھر کے پی ٹی وغیرہ میں رہے ۔یہ سوال اہمیت کا حامل ہے کہ کیا واقعی پاکستان میں کرپشن نہیں ہے؟

کوئی بھی باشعور شخص اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ کرپشن کئی دہائیوں سے ہمارے ملک کی جڑوں تک میں سرائیت کر چکی ہے مگر اس تنزلی کو اگر درست بھی فرض کر لیا جائے تو اس کی وجہ ان 1600 لوگوں کا موجودہ نظام اور خاص کر نظام عدل پر عدم اطمینان کا اظہار ہے، نا کہ صرف حکومت کی کارکردگی پر اور اس کی وجہ یہ ہے کہ عدالتوں کی مہربانیوں اور اداروں اور بیوروکریسی کی ملی بھگت سے کوئی ایک ہائی پروفائل کیس بھی اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکا ،ایسے میں اگر ان چند سو کے بجائے لاکھوں لوگوں سے بھی رائے لے لی جاتی تو بھی شاید نتیجہ اس سے کچھ خاص مختلف نہیں نکلتا۔

Advertisements
julia rana solicitors

پاکستان جیسے ملک میں جہاں دودھ والے سے لے کر پرچون فروش تک اور ٹیکس چوری سے بجلی چوری تک میں ہر دوسرا شخص ملوث ہو اور کسی کو قانون کا کوئی ڈر خوف نہ  ہو, چیف جسٹس أف پاکستان شراب کو شہد میں تبدیل ہونے سے نہ  روک سکیں ،جہاں عثمان اور شاہ رخ جیسے بیسیوں نچلی سطح کے مجرمان تک کو شواہد ہونے کے باوجود قرار واقعی سزائیں ملنے کا تصور نہ  ہو، جہاں غریب اور امیر کے لئے دوہرا قانون اور دوہرا معیار ہو ،وہاں ہائی پروفائل کیسز کا منطقی انجام تک پہنچنا اور ان میں کسی کا سزا پانا بظاہر دیوانے کا خواب ہی نظر آتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس گلے سڑے, بدبودار اور تعفن زدہ نظام کو تبدیل کیا جائے اور اصطلاحات لائی جائیں۔ نیز ان پر سختی سے عمل درآ مد بھی کروایا جائے، تاکہ عام عوام بھی سکھ کا سانس لے سکے اور ملک حقیقی ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔

Facebook Comments

ارشد غزالی
Columinst @ArshadGOfficial

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply