پاکستان کی کہانی شاعروں کی زبانی۔۔زین سہیل وارثی

جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشانہیں ہے

یہ شعر شاعر خواجہ عزیز الحسن مجذوب نے ہمارے علماء و ذاکرین کے لئے لکھا ہے، جنھوں نے عوام الناس کو ڈرانے کا ذمہ اٹھا رکھا ہے، تاکہ وہ اس دنیا کی بہتری کیلئے کوئی کام نہ  کریں۔

ملے خاک میں اہلِ شاں کیسے کیسے
مکیں ہو گئے  لا مکاں کیسے کیسے
ہوئے  ناموَر بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے

اس بند میں مجذوب صاحب کے مخاطب وہ تمام جمہوری و آمر حکمران ہیں، جن کی خام خیالی ہے کہ وہ امر ہیں، اور رہیں گے، حالیہ مثالوں میں، مشرف صاحب سے شروع ہو جائیں یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف سے ہوتے ہوئے عمران خان تک آ جائیں۔

ہمیں ہماری انائیں تباہ کر دیں گی
مکالمے کا اگر سلسلہ نہیں کرتے

اس شعر میں شاعر امجد اسلام امجد اسٹیبلشمنٹ، حکومت اور حزب اختلاف سے مخاطب ہیں، اور کہہ رہے ہیں، تمام عوامی و آئینی مسائل کا حل مکالمہ ہے، مباحثہ نہیں۔

منیرؔ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

یہاں منیر نیازی مرحوم فرما رہے ہیں کہ ہم پر اور ہمارے ملک پر آسیب کا سایہ ہے، اسی لئے پاکستان میں ہر دیوار پر عامل بابا بنگالی کا اشتہار دیا ہوا ہے، دوسرا نقطۂ اعتراض جو منیر نیازی مرحوم نے اٹھایا ہے وہ ترقی معکوس کا وہ سفر ہے، جسے ہم نے 74 سال میں طے کیا ہے۔

اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

اس شعر میں شاعر کی مراد وہ نامصائب حالات و واقعات ہیں جن سے ہم قیام پاکستان کے وقت سے نمبرد آزما ہیں۔ جن میں روس یا امریکہ کی حمایت، آئین کی تشکیل، جمہوری اقدار کی پرورش، زمینداری اصلاحات، سیٹو سینٹو، روس کی افغانستان میں پیش قدمی، بوسنیا اور سربیا کی لڑائی، افغانستان میں امریکی آمد، اور اب چائنہ کی دنیا پر بحیثیت سپر پاور حکومت قابل ذکر ہیں۔

نہ ڈرتے ہیں نہ نادِم ہیں
ہاں کہنے کو وہ خادِم ہیں
یہاں اُلٹی گنگا بہتی ہے
اس دیس میں اندھے حاکِم ہیں

یہاں حبیب جالب ان سے مخاطب ہیں جو انتخابات سے پہلے 6 مہینہ میں بجلی پوری کرنے کا کہتے ہیں، عدل و انصاف میں اصلاحات کی باتیں کرتے ہیں، جو 1 کروڑ نوکریاں اور 50 لاکھ گھروں کے وعدہ کرتے ہیں، ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ رکھتے ہیں۔ مگر جب حکومت میں آ جائیں تو بھول جاتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں سب اچّھا ہے
اور فوج کا راج ہی سچّا ہے
کھوتا گاڑی والا کیوں مانے
جب بھُوکا اس کا بچّہ ہے

یہاں محترم جالب عوام سے مخاطب ہیں اور فرما رہے ہیں، کہ راج انکا ہی سچا ہے، جو طاقت کا سرچشمہ ہیں، کیونکہ وہ مقدس ہیں۔ ساتھ ہی تنبیہ ہے کہ جب روٹی نا ملے تو غریب کی زبان چلتی ہے، جیسے آج کل جگہ جگہ چل کر انکا ذکر کر رہی ہے، کسی زمانے میں ان کا ذکر بند کمروں میں ہوتا تھا۔

خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو
گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں
کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو
خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن
اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو
ہر ایک خود ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال
کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو
خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو

Advertisements
julia rana solicitors

یہاں شاعر احمد ندیم قاسمی مرحوم اس خواب کا ذکر کر رہے ہیں، جسے دیکھ کر اس مملکت خداداد پاکستان اور اسکی ریاست کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ مگر نا وہ ملک رہا نا وہ بنیاد رہی۔ ملک 1971 میں دولخت ہو گیا اور ریاست بنتے ہی عسکریت پسندوں کے ہاتھوں یرغمال ہو گئی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply