اختلاف اور منافرت

ادبِ اختلاف مسلمانوں کی علمی روایت کی ایک بہت اہم بحث رہی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ میں مختلف دینی اور دنیاوی امور کے فہم کے ضمن میں اختلاف رائے واقع ہوا۔ بعض حساس دینی وسیاسی معاملات پر اختلاف رائے نے آگے چل کر باقاعدہ مذہبی وسیاسی مکاتب فکر کی صورت اختیار کر لی اور بعض انتہا پسند فکری گروہوں نے اپنے طرز فکر اور طرز عمل سے مسلم فکر کو اس سوال کی طرف متوجہ کیا کہ اختلاف رائے کے آداب اور اخلاقی حدود کا تعین کیا جائے۔ اہم بات یہ ہے کہ اظہار اختلاف کے بعض نہایت سنگین پیرایے سامنے آنے کے باوجود مسلم فکر میں اختلاف پر قدغن لگانے یا آزادء رائے کو محدود کرنے کا رجحان پیدا نہیں ہوا۔ اس کے بجائے اختلاف رائے کی اہمیت اور ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے اظہار کے لیے مناسب علمی واخلاقی آداب کی تعیین پر توجہ مرکوز کی گئی۔ مسلمانوں کے علمی وفقہی ذخیرے میں اس حوالے سے نہایت عمدہ اور بلند پایہ بحثیں موجود ہیں۔

آٹھویں صدی ہجری میں غرناطہ (اندلس) سے تعلق رکھنے والے شہرۂ آفاق عالم، امام ابو اسحاق الشاطبی (وفات ۷۹۰ھ) نے اپنی کتاب ’’الموافقات‘‘ کی ایک فصل میں اختلاف اور منافرت کے باہمی تعلق کا تجزیہ کیا ہے اور ان اسباب کو واضح کیا ہے جو علمی اختلاف کو باہمی منافرت تک پہنچا دیتے ہیں۔ شاطبی کا کہنا ہے کہ جب لوگ اپنے نقطہ نظر کے ترجیحی دلائل بیان کرتے ہوئے مخالف نقطہ نظر اور اس کے حاملین پر طعن اور ان کی تنقیص کا انداز اختیار کرتے ہیں تو اس سے اختلاف اور علمی ترجیح اپنے حدود سے باہر چلے جاتے ہیں، کیونکہ ترجیح کا مطلب ہی یہ ہے کہ دونوں نقطہ نظر مشترک طور پر اپنے اندر امکان صحت رکھتے ہیں اور علمی طور پر قابل غور ہیں، البتہ ایک نقطہ نظر بعض پہلووں سے کسی فریق کو زیادہ وزنی محسوس ہوتا ہے۔ اب اگر دوسرے نقطہ نظر کی غلطی کو اس اسلوب میں اجاگر کیا جائے کہ اس کی کلی نفی کا تاثر پیدا ہونے لگے تو یہ طریقہ ’’ترجیح’’ سے آگے بڑھ کر ’’ابطال‘‘ کے دائرے میں داخل ہو جاتا ہے جو کہ اپنے بنیادی تصور کے لحاظ سے غلط ہے۔

شاطبی کے مطابق اس طرز تنقید کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جن کے نقطہ نظر پر تنقید کی جاتی ہے، وہ مخالف نقطہ نظر کی خوبیوں اور محاسن کی طرف متوجہ ہونے کے بجائے اپنے نقطہ نظر کے دفاع پر مجبو رہو جاتے ہیں اور جواب آں غزل کے طور پر مخالف نقطہ نظر کی کمزوریاں اور معائب تلاش کرنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔ یوں بحث کا جو عمل اپنے اپنے نقطہ نظر کے محاسن اور مثبت پہلو واضح کرنے کے لیے شروع کیا گیا تھا، وہ دوسرے نقطہ نظر کی خامیاں اور معائب تلاش کرنے میں بدل جاتا ہے اور انسانوں کے مابین افہام وتفہیم کی فضا پیدا ہونے کے بجائے منافرت اور بغض کو فروغ ملنے لگتا ہے۔ شاطبی نے ا س ضمن میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ نقل کیا ہے کہ انھوں نے ایک عرب شاعر زبرقان بن بدر کو اس کا پابند کیا تھا کہ وہ کسی قبیلے یا گروہ کی مدح کرتے ہوئے ایسا انداز اختیار نہ کرے جس سے کسی دوسرے قبیلے یا گروہ کی تحقیر کا تاثر ملتا ہو۔

شاطبی نے امام غزالی کے حوالے سے اس اسلوب تنقید کے ایک اور نقصان کی طرف بھی توجہ دلائی ہے اور وہ یہ کہ اس سے بسا اوقات بالکل صحیح بات کے لیے بھی دلوں میں جگہ پیدا نہیں ہو پاتی، بلکہ الٹا دل اس سے نفور ہو جاتے ہیں۔ امام غزالی لکھتے ہیں کہ عوام کے دلوں میں جہالت اور تعصب کے راسخ ہونے کی بہت بنیادی وجہ یہ ہے کہ اہل حق میں سے بعض ’’جہال‘‘ صحیح بات کو لوگوں کے سامنے چیلنج کے انداز میں پیش کرتے ہیں اور مد مقابل گروہوں کو تحقیر اور استخفاف کی نظر سے دیکھتے ہیں جس سے مخاطب کے دلوں میں عناد اور مخالفت کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں جو پھر اتنے پختہ ہو جاتے ہیں کہ نرم مزاج اور حکیم علمائے حق کے لیے ان کے اثرات کو مٹانا، ناممکن ہو جاتا ہے۔ شاطبی لکھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی پہلو سے صحابہ کو اس سے روک دیا تھا کہ وہ یہودیوں کے سامنے حضرت موسیٰ کے مقابلے میں آنحضرت کی فضیلت اس اسلوب میں بیان نہ کریں کہ اس سے حضرت موسیٰ کی کسر شان لازم آتی ہو، کیونکہ کسی بھی نبی سے عقیدت رکھنے والوں کی عقیدت کو مجروح کرنا اسلام کے مزاج کے خلاف ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

شاطبی نے ادب اختلاف کے حوالے سے جس نکتے کو واضح کیا ہے، اس کی زندہ مثالیں اور شواہد ہم روز مرہ اپنے ماحول میں دیکھتے ہیں۔ مذہبی، سیاسی، فکری اور سماجی اختلافات، سب کے سب اسی رویے کی عکاسی کرتے ہیں جس کی شاطبی نے نشان دہی کی ہے۔ حدودِ اختلاف اور آداب تنقید کے حوالے سے اسلامی تصورات کی یاد دہانی کی جتنی آج معاشرے کو ضرورت ہے، شاید کبھی نہیں تھی۔

Facebook Comments

عمار خان ناصر
مدیر ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply