اپنا کام شروع کرنا اتنا بھی مشکل نہیں /ڈاکٹر نوید خالد تارڑ

وہ سب نوجوان جو بیکار بیٹھے ہیں اور جنھیں کرنے کو کوئی کام نہیں مل رہا۔ اگر ان کی عزت نفس مجروح نہ ہو تو کام کرنے کا ایک آسان سا مشورہ دیتا ہوں۔

“آپ گھروں سے کوڑا اُٹھانا شروع کر دیں”

ہو گئی عزتِ نفس مجروح ؟
اگر نہیں ہوئی تو آگے پڑھیں۔

آپ کی گلی میں کتنے گھر ہوں گے ؟ بیس تیس ؟
آپ کے محلے میں کتنے گھر ہوں گے سو، ڈیڑھ سو ؟
اگر آپ روزانہ ان گھروں سے کوڑا اٹھا کر کوڑے کے لیے اپنے علاقے میں مخصوص جگہ پہ وہ کوڑا پھینک دیا کریں اور ہر گھر سے روزانہ کوڑا اٹھانے کے بدلے میں ماہانہ پانچ سو روپے لینا شروع کر دیں تو ڈیڑھ سو گھروں سے کوڑا اٹھانے کے بدلے آپ ماہانہ پچھتر ہزار روپے کما سکتے ہیں۔
اور ان ڈیڑھ سو گھروں سے کوڑا اٹھانے کے لیے آپ کو سارا دن نہیں ، فقط کچھ گھنٹے لگیں گے۔ جائیں دروازے پہ دستک دیں ، کوڑا لے کر اپنی ریڑھی پہ رکھیں اور اگلے گھر دستک دے لیں۔

اگر آپ تھوڑی سی مزید محنت کر سکتے ہوں تو گھروں کی تعداد پانچ سو یا ہزار تک بھی بڑھا سکتے ہیں۔ اگر آپ ہزار گھروں سے روزانہ کوڑا اٹھانا شروع کر دیں تو ماہانہ پانچ لاکھ روپے تک کما سکتے ہیں۔

اور یہ صرف کوڑا اٹھا کر کوڑے دان میں پھینکنے تک کا کام ہے۔ اگر آپ مزید بہتری لانا چاہتے ہوں تو ایک لڑکا رکھ لیں جو کوڑے میں سے کام کی چیزیں الگ کرتا جائے۔ ان کام کی چیزوں کو روزانہ کباڑ میں بیچ کر آپ لڑکے کی تنخواہ نکالنے کے علاوہ اپنی کمائی میں مزید اضافہ بھی کر سکتے ہیں۔

اور ایسے علاقے جہاں کوڑا اٹھانے کا مناسب انتظام نہیں، وہاں ہر گلی کی نکڑ پہ کوڑا پھینکنے سے جو گند مچا رہتا ہے۔ اسے ختم کر کے آپ علاقے کے لیے بھی بہت مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔

اور اگر آپ کو لگ رہا ہے کہ یہ کام باعثِ شرمندگی ہے تو اسے کرتے ہوئے نقاب کا استعمال کر لیا کریں۔ کوڑا اٹھاتے ہوئے باقاعدہ اچھے دستانے پہن لیں، تاکہ آپ کے ہاتھ گندے ہونے سے بچے رہیں۔ پھر بھی مشکل ہے تو اپنا علاقہ چھوڑیں، کسی پرائے علاقے میں جا کر یہ کام شروع کر دیں جہاں آپ کو کوئی جانتا نہ ہو۔

پھر بھی لگے کہ یہ کام انتہائی گھٹیا اور آپ کی شان کے خلاف ہے تو اپنی کوڑا اٹھانے والی ٹیم بنا لیں۔ اس میں ایسے لڑکے رکھیں جو گھروں سے کوڑا اٹھانے پہ تیار ہوں۔ ان کی تنخواہ مقرر کریں۔ انھیں بتائیں کہ تنخواہ کے علاوہ کوڑے سے کباڑ اکٹھا کر کے اس کباڑ کی کمائی بھی وہی رکھیں گے۔ (اس طرح وہ لڑکے زیادہ جانفشانی اور خلوص سے کام کریں گے)
پھر علاقے کے سب گھروں میں جا کر ان سے بات کریں کہ ہم روزانہ آپ کے گھر سے کوڑا اٹھا لیا کریں گے۔ بدلے میں آپ ہمیں ماہانہ پانچ سو روپے دے دیا کریں۔ اس طرح آپ کا گھر بھی صاف رہے گا اور آپ کا علاقہ بھی۔ انھیں صفائی کی فضیلت پہ کچھ باتیں کر کے راضی کر لیں۔ پھر روزانہ وہاں سے کوڑا اٹھوانا شروع کر دیں۔ کوڑا اٹھانے والے لڑکوں کی نگرانی کرتے رہیں۔ ماہانہ گھروں سے مقرر کردہ اجرت لے لیا کریں۔ جتنے زیادہ گھر مل جائیں، اتنے لڑکے رکھ کر کام مینیج کر لیں۔

ہمارے یہاں کتنے ہی افغانی یہ کام کر رہے ہیں اور انھیں یہ کام کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتا۔ اور وہ اکیلے اس سے اتنا کمائی کر لیتے ہیں کہ ہمارے گھروں میں کمانے والے ہانچ پانچ فرد بھی مل کر اتنی کمائی نہیں کر پا رہے ہوتے۔

کام کریں اچھے انداز میں ، اچھے ڈھنگ سے۔ اور اگر اچھے انداز میں کریں تو کسی بھی کام کو کرنے میں کوئی شرم نہیں۔ شرم ہو بھی تو اپنے بیوی بچوں کو بھوکا مارنے یا خودکشی کرنے سے تو بہتر ہی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تصویر بشکریہ ڈان

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply