نہ پوچھ نسخہء مرہم جراحتِ دل کا ۔۔ محمد خان داؤد

جب وہ اپنے بیمار دل کو لیےہسپتال  پہنچا تھا، جب اتنی جراحی ضروری ہو ئی تھی کہ وہ بیمار جس کے ساتھ مسکراتے لبوں واپس آیا تھا۔ وہ زندہ تھا۔اور زندہ جسم میں زندہ دل دھڑک رہا تھا۔اسے موت نے نہیں مارا۔اسے دل کے عارضے نے بھی نہیں مارا۔اس ان باتوں نے بھی نہیں مارا جو لوگ اس کے جا تے ہی بکواس کرنے لگتے تھے اور وہ ہنس کر سہہ جاتا تھا۔اسے ان رویوں نے بھی نہیں مارا جو زہریلے انسان اپنے سینوں میں اس کے لیے پالتے تھے اور جب بھی موقع ملتا تھا اسے ڈستے تھے۔

وہ فقیر تھا، جوگی تھا، ملنگ تھا، درویش تھا، وہ ان  زہریلے  رویوں کاتریاق اپنے پاس رکھتا تھا۔وہ تریاق اچھی کتابیں،اچھے شعر اور رقص ہوا کرتا تھا۔ وہ جب جب غلیظ رویوں کا شکار رہا، تب تب اس نے کوئی کتاب پڑھی،کوئی اچھا شعر لبوں پر لایا ،طبلہ بجایا اور بات اگر اس سے بھی آگے جا تی  تو وہ اپنا بلوچستان یونیو رسٹی کے ہاسٹل کا کمرہ ادھ کھلا چھوڑ کر، ہلکی بتی جلا کر، پیروں میں گھنگرو باندھ کر رقص کرنے لگتا ۔
اور وہاں کھو جا تا  جہاں بس رقص کی دنیا ہے جہاں کوئی یہ غلیظ بات نہیں کرتا کہ
”دیکھو وہ آ رہا ہے“
اور کوئی جاتے میں کہتا
”دیکھو وہ جا رہا ہے “
رقص کی وہ دنیا ہے جہاں انسان اپنے آپ میں نہیں رہتا،یا وہ رقص ہو جاتا ہے یا الفاظ!
وہ الفاظ اور رقص کا تقدس جانتا تھا۔
اس لیے وہ رویے۔۔جن کا اسے سامنا رہتا ،لیا ری سے لیکر شال کی گلیوں میں ان رویوں کو وہ پیروں میں باندھے گھنگروؤں کی نظر کرتا اور جب گھنگرو کتھک میں ڈھلتے تو کون کہتا کہ یہ وہی انسان ہے جو شائستہ بولی میں بات کرتا ہے۔ اپنے گلے میں بڑے دانوں والی تسبیح  ڈالے پھرتا ہے۔سخت دیش بھگت ہے اور دیس کے بچوں کو صبح میں اسلام اور شام کو ہانی کی بولی کے اسرار و رموز سکھاتا ہے۔
بھلے باقی انسانوں کا اپنی بولی پر ناز ہو۔پر وہ ایسا زباں کا عاشق تھا کہ زباں کو اس پر ناز تھا۔
اب جب وہ نہیں تو زبانیں بھی گُنگ ہیں
بہت کچھ لکھا،پڑھا جا رہا ہے،پر پھر بھی مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ زباں کے آخری الفاظ تھے جب وہ نہیں تو انسانی منہ میں موجود ہی کیا ،پر دیس کے منہ میں زباں بھی گُنگ ہو گئی ہے۔اگر ایسا نہیں ہے
تو دیس کچھ کہتا کیوں نہیں؟
دیس کچھ بولتا کیوں نہیں؟
زباں کی باز گشت سنائی کیوں نہیں دیتی؟
کچھ لوگ سب کچھ ہو تے ہیں
اور جب وہ نہیں ہو تے
تو کچھ بھی نہیں ہوتا
وہ سب کچھ تھا اور اب جب وہ نہیں تو کچھ بھی نہیں
کتوں نے بھونکنا چھوڑا
غلیظ انسانوں کے غلیظ رویوں نے خود کشی کی
گندے انسانوں کے منہ میں گالیاں عرصہ سے رُکی ہوئی ہیں
وہ کسے دیں؟ملنگ تو جا چکا
اب اس پر کوئی تہمت نہیں لگاتا
اب اس پر باتیں نہیں کسی جا تیں
راہ چلتے اس پر جملے نہیں کسے جا تے
اب بے ہو دگیاں،گالیاں۔جملے،باتیں کیا
پر اب تو وہ وہاں پہنچ چکا جہاں یادوں کی اونچی پرواز کے پرندے بھی نہیں پہنچ سکتے!

اب سنتے ہیں کہ کئی لوگ اس کے وارث بن چکے ہیں۔اور کئی لوگ اس غم میں ہیں کہ وہ اس کا پُرسہ لیں۔

پر ہم جانتے ہیں کہ اس کے جانے سے دیس کی بولی یتیم ہوئی ہے۔طبلہ مارا گیا ہے۔شائستگی یتیم ہوئی ہے۔محبت اکیلی ہوئی ہے۔شفقت کے سر سے چادر سِرکی ہے۔شاعری بیوہ ہوئی ہے۔کتابوں نے خود کشی کی ہے۔الفاظ پہاڑوں پر چڑھ کر بین کر رہے ہیں۔اَدھ لکھی نظمیں کہاں جا رہی ہیں؟کوئی نہیں جانتا اور رقص مارا گیا ہے۔وہ لب وہ لہجہ قتل جو اس کے منہ سے نکلتا تھا۔
وہ مہرِ ماہ قتل ہوئی
وہ شب میلاپ قتل ہوا
وہ اجلا دن قتل ہوا
وہ چمکتا سویرہ قتل ہوا
رقص کے سینے میں گولی گھسی
طبلہ بے یارو مدد گار آج بھی اس ہاسٹل کے کمرے میں ان ہاتھوں کے لمس کو ترس رہا ہے
جو یار کے تھے
جو طبلے میں ایسے اُلجھ جا تے تھے جیسے عاشق کے ہاتھ محبوبہ کی زلفوں میں اُلجھ جا تے ہیں
اور نہ چاہتے ہوئے بھی ان ہاتھوں کو  محبوبہ کی زلفوں سے نکالنا پڑتا ہے
آہستہ آہستہ دھیمے دھیمے
بلوچ دھرتی کو اس بیس سالہ جنگی جنون نے اتنا نقصان نہیں پہنچایا
جتنا اس روحانی تکلیف کی گھٹیا جنگ نے پہنچایا ہے!
جس جنگ میں سرمچار نہیں مارے جا تے
پر جس جنگ میں ملنگ مارے جا تے ہیں۔جو گی مارے جا تے ہیں۔دیش بھگت مارے جا تے ہیں خوشبو اور رقص کے امین مارے جا تے ہیں۔
وہ بھی تو لطیف کا آخری جو گی تھا جو اس گھٹیا جنگ کی  نذر  ہوا!
وہ بھی جب قتل ہوا جس کے لیے گارشیا مارکیز نے لکھا تھا کہ
”جب کسی انسان کو مرنا چاہیے۔اس وقت وہ نہیں مرتا
لیکن جب نہیں   مرنا چاہیے،تب وہ  مر جاتا ہے!“

جب اس پر بولی واری جا رہی تھی۔محبت اس پر بارش کی مانند برس رہی تھی۔اس کے جسم پر ہوائیں طواف کیا کرتی تھیں۔پھول اسے اشاروں سے بلا تے تھے،خوشبو اسے دیکھ کر شرما جا تی تھی۔وہ جب مر گیا
پر اسے رویوں نے نہیں مارا۔وہ سب رویوں کو شکستِ فاش دے چکا تھا
اسے جو کچھ کرنا تھا۔وہ کر چکا۔اس کے ہاتھوں میں دیس کے سنگ نہیں تھے
اس کے ہاتھوں میں دیس کا پرچم تھا
اور منہ میں وہ بولی جس بولی کے دکھ کو دیکھ کر وہ کہتا
”یہاں آؤ اب ہم دونوں اکیلے ہیں!“
وہ بولی سے جُڑا اور بولی اس سے
اب اس میں اور بولی میں کیا فرق؟!

وہ جانتا تھا کہ محبت ایک طرف فتح اور دوسری طرف شکست بھی دیتی ہے
پر اس کی محبت اتنی عظیم ہے کہ اسے کسی بھی طرف سے شکست نہیں ہوئی
وہ محبت میں جیتا ہوا انسان ہے

Advertisements
julia rana solicitors

جب وہ اسپتال سے بیمار دل لایا تو کسی حد تک جراحی اور نسخہء دل ممکن تھا
جب اس کے سینے کو بھونکتی بندوق سے گھائل کیا گیا تو کیسا نسخہء کیسی جراحت؟!
”نہ پوچھ نسخہء مرہم جراحت ِدل کا!“

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply