نظامِ خلافت کا قیام اور اثرات/غزالی فاروق

چند لوگوں کا خیال یہ ہے، خصوصاً وہ جو حکمران اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں، کہ اگر پاکستان میں اسلام کا نظام خلافت قائم ہوتا ہے تو پوری دنیا پاکستان پر دھاوا بول دے گی اور یوں پاکستان میں نظام خلافت کے قیام سے ایک اور جنگِ عظیم چھِڑ جائے گی۔ اس تصور کے پسِ منظر میں بڑی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ موجودہ ورلڈ آرڈر، جس کی سربراہی امریکہ کرتا ہے، اپنے خلاف کوئی آواز بھی اٹھائے جانے کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔

اس نئی صدی کے آغاز سے ہی ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ نے عراق کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ امریکہ نے ایران، شمالی کوریا اور یہاں تک کہ روس کے خلاف یوکرائن کے ساتھ تنازع کی وجہ سے سخت ترین پابندیاں لگائیں۔ حالانکہ یہ وہ ریاستیں ہیں جو کہ نظریاتی طور پر موجودہ ورلڈ آرڈر کو چیلنج نہیں کر رہیں، بلکہ وہ عالمی سیاست کے میدان میں اپنے حجم کے مطابق کسی حد تک ایک قابل احترام مقام رکھنا چاہتی ہیں لیکن پھر بھی امریکہ کو یہ بات پسند نہیں، وہ بس اپنا تسلط چاہتا ہے اور اسی لئے وہ کسی اور کو اس رستے پر چلنے کی اجازت نہیں دیتا جس سے وہ بالآخر اپنا ہدف حاصل کر سکیں۔

لہٰذا ہم یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کتنی شدت اور سختی کے ساتھ امریکہ اور باقی تمام مغربی دنیا اپنا ردِعمل ظاہر کرے گی جب ریاستِ خلافت کا اعلان ہوگا جو کہ موجودہ ورلڈ آرڈر کو نہ صرف ایک بارُعب اور باوقار مقام حاصل کرنے کے لئے چیلنج کرے گی بلکہ خلافت موجودہ مغربی ورلڈ آرڈر کو تبدیل کرکے اس کی جگہ ایک نیا ورلڈ آرڈر قائم کرے گی جوکہ اسلام کا ورلڈ آرڈر ہوگا۔

اس بات میں قطعی کوئی شک نہیں کہ امریکہ اور باقی تمام مغربی دنیا ریاستِ خلافت کے قیام کی بھرپور مخالفت کریں گے، کیونکہ 1924ء میں خلافت کے انہدام سے لے کر انہوں نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ خلافت کبھی بھی واپس نہ آ سکے۔ وہ ہر سطح پر یہ کوشش کرتے رہے ہیں کہ مسلم دنیا میں خلافت کی بحالی کا کام کرنے کے لئے سیاست کے میدان میں کسی کو بھی کوئی موقع نہ مل پائے۔ لیکن مسلمانوں کی گردنوں پر سوار بدترین جابرانہ حکومتیں مسلط کرنے کے باوجود بھی خلافت کے قیام کی پُکار نہ صرف مسلم دنیا کے ہر کونے میں مضبوطی سے اپنے قدم جمانے کے قابل ہو چکی ہے بلکہ اب یہ پوری اُمت کا مطالبہ بھی بن چکی ہے۔

لہٰذا ایک بات تو بالکل واضح ہے کہ خلافت کی پُکار کو دبانے، ختم کرنے اور اسے مٹا دینے کے لئے ہر طرح کا نسخہ آزما لینے کے باوجود بھی، استعمار اور ان کی کٹھ پُتلی حکومتیں اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی ہیں اور یہ اس لئے کہ یہ پُکار اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے دین کی طرف پُکار ہے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے رسول محمد ﷺ کے ذریعے ہم سے وعدہ کیا ہے کہ خلافت دوبارہ عین نبوت کے نقشِ قدم پر ضرور قائم ہوگی۔

اس کے علاوہ ہم پچھلی دو دہائیوں میں یہ بھی مشاہدہ کرتے ہیں کہ امریکہ نے افغانستان کے مسلمانوں پر عالمی جنگ برپا کئے رکھی۔ ہم اسے عالمی جنگ کیوں کہہ رہے ہیں؟ اس لئے کہ ایک طرف تو اس جنگ میں امریکہ کے ساتھ نیٹو تھا اور مسلمانوں کے کٹھ پُتلی حکمرانوں کی فوج اور انٹیلی جنس پر مبنی معاونت شامل تھی جبکہ دوسری طرف افغانستان کے نہتے مسلمان تھے۔

افغانستان کے پاس کوئی باقاعدہ فوج نہیں تھی لیکن اس کے باوجود بھی ان ہلکے معمولی ہتھیاروں سے لیس مسلمانوں نے پوری دنیا کے لئے یہ ناممکن بنا دیا کہ وہ ان پر غلبہ پا سکیں بلکہ آخر میں وہ بُری طرح شکست کھانے کے بعد ذلیل و رُسوا ہو کر افغانستان سے نکلے۔ یہی ایک مثال ہی اس بات کی دلیل کے لئے کافی ہے کہ خلافت کے قیام کے بعد، اگر پوری دنیا مل کر بھی اس کے خلاف عالمی جنگ چھیڑ دے وہ اسے شکست دینے کے قابل ہونا تو دَرکنار، وہ پاکستان میں قائم ہونے والی خلافت کے خلاف مقابلہ کرنے کی ہمت بھی نہ کر پائیں گے۔

خلافت کے قیام کے بعد، کفار ہرگز ریاستِ خلافت کے خلاف عالمی جنگ کرنے کے قابل نہ ہو سکیں گے۔ فروری 2012ء میں امریکہ کے سیکرٹری دفاع رابرٹ گیٹس نے ویسٹ پوائنٹ کیڈٹس کے سامنے تقریر کرتے ہوئے کہا، کہ امریکہ کے لئے یہ انتہائی غیر دانشمندانہ بات ہوگی کہ وہ کبھی دوبارہ، عراق یا افغانستان جیسی ایک اور جنگ میں سر کھپائے، اور یہ کہ اس انداز میں دوبارہ حکومت تبدیل کر دینے کے امکانات بہت کم ہیں۔

رابرٹ گیٹس نے کہا: “میری رائے میں، مستقبل میں آئندہ اگر کوئی سیکرٹری دفاع، صدر کو دوبارہ ایک بڑی امریکی بَرّی فوج کو ایشیا یا مشرقِ وسطیٰ یا افریقہ بھیجنے کا کہتا ہے تو اس سیکرٹری دفاع کو “اپنے دماغ کا علاج کرانا چاہیے” جیسا کہ جنرل میک آرتھر نے بھی کہا تھا”۔

“In my opinion، any future defense secretary who advises the president to again send a big American land army into Asia or into the Middle East or Africa should، have his head examined، as General MacArthur so delicately put it۔ ” (Robert Gates)

رابرٹ گیٹس نے فوجی کیڈٹس کے اجلاس کے دوران یہ کہا تھا۔ لہٰذا درج بالا بیان کی روشنی میں اگر امریکہ اپنی فوج کو کسی قلیل سے گروہ سے جنگ کرنے کے لئے بھی ایشیا، مشرقِ وسطیٰ یا افریقہ بھجوانے پر راضی نہیں ہے تو پھر آخر کیسے امریکہ اور باقی تمام دنیا پاکستان میں قائم ہونے والی خلافت پر حملہ کرنے کی جرأت بھی کر سکیں گے، جبکہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کے پاس پہلے سے دنیا کی چھٹے نمبر پر بڑی فوج موجود ہے جو کہ ثابت شدہ نیوکلئیر صلاحیت رکھنے کے ساتھ ساتھ بیلسٹک اور کروز میزائلوں کی صورت میں مؤثر ہتھیاروں سے لیس ہے؟ یاد رہے کہ اس زبردست فوجی طاقت کے علاوہ، ریاستِ خلافت کے پاس لاکھوں کی تعداد میں رضاکار مجاہدین بھی موجود ہوں گے۔

ہم دیکھ سکتے ہیں کہ امریکہ، روس کے ساتھ یوکرائن میں براہِ راست نہیں اُلجھ رہا بلکہ وہ روس کے خلاف پراکسی وار لڑ رہا ہے۔ اگرچہ روس اس مقام پر نہیں ہے کہ عالمی تجارت میں مداخلت کر سکے، لیکن پھر بھی سپلائی چین اس بُری طرح متأثر ہو رہی ہیں کہ تیل اور دیگر ضروریاتِ زندگی کی قیمتیں انتہائی حد تک بڑھنے کی وجہ سے یورپ کے لوگوں نے یوکرائن میں جنگ بندی کا مطالبہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ روس سے موازنہ کریں تو پاکستان خلیج فارس کے متصل واقع ہے اور مغرب سے مشرق کے اطراف تجارتی جہاز بحیرۂ عرب میں عین پاکستان کے سامنے سے گزرتے ہیں۔ لہٰذا دنیا کسی قیمت پر پوری عالمی تجارت کو نقصان پہنچانے کا اتنا بڑا خطرہ مول نہیں لے سکتی۔

لیکن بہرحال ان تمام مشکلات کے باوجود، پھر بھی اگر مغرب پاکستان پر حملہ آور ہونے کی ہمت کر بھی لے تو وہ ہرگز ایسا کرنے کے قابل نہ ہو سکے گا۔ افغانستان پر ہونے والے حملہ کو یاد کریں تو امریکہ کبھی بھی ہمسایہ ممالک، جیسے پاکستان کی مدد کے بغیر افغانستان پر حملہ نہ کر سکتا تھا۔ چونکہ افغانستان کے پاس سٹریٹجک اور جدید ہتھیار موجود نہ تھے اس لئے امریکہ نے آسانی سے اپنی فوج افغانستان میں منتقل کر دی اور آس پاس کے ہمسائیوں سے بغیر کسی دِقّت و خطرہ کے سپلائی روٹ قائم کر لئے۔

لیکن پاکستان کے معاملہ میں، امریکہ کو وہی سہولت دوبارہ فراہم نہ ہو سکے گی جیسی افغانستان پر حملہ کے وقت میسر تھی۔ اور اگر امریکہ خطہ میں کسی ہمسایہ ملک کی حمایت لے بھی لے تو پاکستان اپنے جدید نیوکلئیر ہتھیاروں کی وجہ سے کسی بھی امریکی جارحیت کا آسانی سے مقابلہ کرنے کے قابل ہے۔ پس جس طرح آج امریکہ روس کے نیوکلئیر ہتھیاروں کے خوف سے یوکرائن کے تنازعہ میں براہِ راست کُود پڑنے سے ہچکچا رہا ہے بالکل اسی طرح امریکہ، نیوکلئیر ہتھیاروں سے لیس پاکستان میں قائم خلافت پر حملہ کرنے کے بارے میں سوچنے کی بھی جرأت نہ کر سکے گا۔

آج پاکستان کی قیادت، ایک شکست خوردہ قیادت ہے جو ہر حالت میں امریکہ اور اس کے عالمی آرڈر کی چاپلوسی اور غُلامی کرنا چاہتی ہے۔ یہی رویہ امریکہ کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ پاکستان کے پاس دنیا کی چھٹے نمبر پر بڑی اور نویں نمبر پر مضبوط ترین فوج موجود ہونےکے باوجود پاکستان پر حکم چلائے اور جب ضرورت سمجھے تو اس پر حملہ آور بھی ہو جائے کیونکہ اسے یہ یقین ہے کہ امریکہ کو پاکستان سے کبھی بھی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

امریکہ صرف اُسی ملک پر حملہ کرتا ہے جہاں اسے یہ یقین ہوتا ہے کہ وہ ملک عالمی نظام کا غلام ہے اور ایک آسان شکار ہے۔ اور جہاں کہیں امریکہ کو یہ یقین ہو کہ مخالف ملک جوابی کاروائی کے ساتھ اقدامی حملہ بھی کر سکتا ہے تو امریکہ ایسے ملک پر حملہ کرنے کے بارے میں کبھی جرات بھی نہیں کر سکتا۔ یاد رہے کہ 1949 میں عوامی جمہوریہ چین نے کونسا نظام نافذ کر دیا تھا۔ اُس وقت امریکہ اور روس (USSR) میں شدید مخالفت آرائی جاری تھی اور یہ امریکہ کے مفاد کے لئے شدید نقصان دہ تھا کہ وہ ایک اور کمیونسٹ ملک کے قیام کو قبول کرلے۔

لیکن آخر ایسی کیا بات تھی کہ امریکہ، چین پر حملہ کرنے کی ہمت بھی نہ کر سکا حالانکہ چین اپنے ملک کے داخلی معاملات، اندرونی پھُوٹ اور بیرونی قبضوں کی وجہ سے خاصا کمزور تھا؟ یہ اس لئے کہ امریکہ کو یہ معلوم تھا کہ چین کے پاس اب ایک ایسی قیادت ہے جو ایک خاص نظریہ رکھتی ہے اور وہ نظریہ چین کی ریاست کو امریکی جارحیت کا بھرپُور جواب دینے کے قابل بنا دے گا۔ اسی طرح اگر پاکستان خلافت کو قائم کر لیتا ہے جو کہ اسلام کی بنیاد پر قائم ریاست ہوگی تو امریکہ کسی بھی قسم کی جارحیت کی ہرگز ہمت نہ کر سکے گا۔

لہٰذا یہ محض ایک خام خیالی ہے کہ اگر خلافت کادوبارہ قیام پاکستان سے ہوتا ہے تو پوری دنیا ہم پر حملہ آور ہو جائے گی اور ایک عالمی جنگ چھڑ جائے گی۔ کفار ہمارے دلوں میں خوف کا بیج بونا چاہتے ہیں تاکہ ہم پاکستان میں خلافت کے دوبارہ قیام کے لئے جدوجہد نہ کریں، اور دنیا کے ساتھ ساتھ ہمارے علاقوں میں بھی امریکی اجارہ داری یونہی جاری و ساری رہے۔ عراق و افغانستان میں ناکام مہم جوئیوں کے بعد یہ قطعی ممکن نہیں کہ امریکہ کبھی ایک نیوکلئیر ہتھیاروں سے مسلح ملک یعنی پاکستان پر حملہ کے بارے میں سوچ بھی سکے گا۔ لہٰذا ہمیں ہر حالت میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ پر بھروسہ رکھنا چاہئے اور نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت کو قائم کر دینا چاہیئے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿اِنۡ يَّنۡصُرۡكُمُ اللہُ فَلَا غَالِبَ لَـكُمۡۚ وَاِنۡ يَّخۡذُلۡكُمۡ فَمَنۡ ذَا الَّذِىۡ يَنۡصُرُكُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِهٖؕوَعَلَى اللہِ فَلۡيَتَوَكَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ﴾

Advertisements
julia rana solicitors london

“اگر اللہ تمہاری مدد کرے گا تو کوئی تم پر غالب نہ ہوگا اور اگر وہ (اللہ) تم کو چھوڑ دے گا تو پھر کون ہے کہ اس کے بعد تمہاری مدد کرے۔ اور مسلمانوں کو اللہ پرہی بھروسہ کرنا چاہئے۔ ” (آل عمران؛ 3: 160)

Facebook Comments

غزالی فاروق
غزالی فاروق ایک انجنئیر اور بلاگر ہیں۔ ملکی اور بین الاقوامی سیاسی حالات پر نظر رکھتے ہوں۔ کسی سیاسی تعصب سے بالاتر ہو کر آزادانہ طور پر لکھتے ہیں۔ بلاگ: https://ghazalifarooq.blogspot.com

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply