جناح ہاؤس راحت بیکری سے ایک یا دو بلاک آگے ایک عظیم الشان بنگلہ ہے جسے اعلیٰ ترین سکیورٹی کے ساتھ ماڈرن قلعے میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ میو ہسپتال میں ہاؤس جاب کے دوران کینٹ رہائش تھی تو آتے جاتے اسے دیکھ کر ہیبت طاری ہوجاتی ہے۔ ابھی چند ماہ پہلے بھی جناح ہاؤس کے سامنے ڈاکٹر صداقت علی کے گھر جانا ہوا تو دیکھا کہ اب تو اسکے آگے ایسی رکاوٹیں بھی کھڑی کردی گئی ہیں کہ کوئی خود کش بمبار کار کو بارود سے بھر کر جناح ہاؤس سے ٹکرا نہ سکے۔ کینٹ کا ایریا ویسے ہی ہم بلڈی سویلین کو خود کو کمتر سمجھنے کے لئے کافی ہے۔
چند سال پہلے برادرم ڈاکٹر زاہد اصغر امریکہ سے لاہور شفٹ ہوئے تو انھوں نے جنرل کالونی (شاید نام کچھ اور ہے لیکن کہتے جنرل کالونی ہیں) میں اپنا گھر دکھایا جو کہ ویسے ہی کسی گھر سے دوگنا مہنگا تھا جو کینٹ میں اس جنرل کالونی کے باہر ایک دو بلاک میں تھے۔ اسکی وجہ سکیورٹی تھی۔ حاضر سروس فوجیوں کا پورا دستہ مشین گنوں سے مسلح ہوکر ریٹائرڈ جرنیلوں کی اس کالونی کی ایسے حفاظت کررہا تھا جیسے نائن الیون (خدانخواستہ)اس کالونی میں ہوا تھا۔ یعنی پہلے تو ویسے ہی کینٹ لاہور کے کسی اور ٹاؤن سے محفوظ اور پھر اس پر مستزاد مزید ایسی کالونیاں۔ یہ کالونی پاکستان کے اسی اکیس فیصد رقبے پر ہے جس پر پاک فوج کا “قبضہ” ہے۔
اب ایسے جناح ہاؤس میں بلوائی گھسے تو گھسے کیسے؟ کیا گارنٹی تھی کہ انکے ساتھ ساتھ کوئی را یا موساد کا ایجنٹ خود کش حملہ نہ کردیتا؟ کور کمانڈر صاحب کی “مبینہ شفقت “ جس کا کچھ آڈیو لیکس میں چرچا ہورہا ہے وہ تو بعد کی بات ہے، کور کمانڈر تک پہنچے کیسے؟ کئی وزرا اور دیگر ممالک کے سفیر تک کور کمانڈر تک اپروچ نہیں رکھتے ہیں اور شاید ان سے فون پر بات کرنے سے پہلے بھی کتنے لوگوں سے اوبلائج ہونا پڑتا ہے، تو یہ سب لونڈے لپاڑے سیدھے ان تک کیسے پہنچ گئے؟
آپ تھوڑی دیر کے لئے بھول جائیں کہ وہ کور کمانڈر تھے؛ سوچیں ایک عام باپ تھا جس کے جوان بچے بچیاں اور بیوی تھی۔ بغیر اجازت گھر میں داخل ہونے والے کو دنیا کا ہر قانون “شوٹ ٹو کل “ یعنی سیدھی گولی مارنے کا اختیار دیتا ہے کیونکہ گھر کے مالک کو ٹیلی پیتھی تو آتی نہیں کہ گھسنے والا محض قورمہ چوری کرنے آیا ہے یا ریپ اور قتل کرنے بھی؟ کیا یہ محض جذباتی پی ٹی آئی کا انقلابی ہے یا ن لیگ کا گلو بٹ ہے؟ کیا یہ کسی کے کاندھے پر بندوق رکھ کر چلانے آیا ہے؟ اگر انکے پاس اسلحہ گھر میں تھا جو کہ ہونا چاہئیے تو ہوائی فائر یا ٹانگوں پر گولیاں تو ماری جاسکتی تھیں؟ مزید یہ کہ کور کمانڈر کے پاس واقعی کیا یہ اختیار ہے بھی کہ فوج کے قلعے میں بلوائی داخل ہوں اور وہ اسے “شفقت” کے باعث جلانے دیں؟ یہ کوئی انکا ذاتی مکان تو تھا نہیں تو پھر اس کور کی طاقت کی علامت کو جو کہ پچاس ہزار سے زائد فوجیوں کی کمانڈ کی نمائندہ ہے کو تباہ کرنے کی اجازت کیسے دے سکتے تھے؟
پھر سوال وہی کہ کور کمانڈر تک پہنچنے کے بیرئرز یعنی رکاوٹیں اور پروٹوکول کی ہائیر آرکی کو کیسے عبور کیا گیا؟ کیا بادشاہ سلامت جنابِ کور کمانڈر ظل الہی نے خود فرمایا تھا کہ فریادی پیش ہوں؟ ورنہ تو پوری کی پوری سیکیورٹی لیئر کا کورٹ مارشل ہی نہیں؛ اپنے کمانڈر کے اقدام قتل کا پرچہ بنتا ہے، ٹریذن یعنی غداری کا پرچہ بنتا ہے۔
اور اگر واقعی فوج نے خود آگ لگانے دی کہ بعد میں پی ٹی آئی کو رگڑا جائے تو یہ لکھتے ہوئے اتنی تکلیف ہورہی ہے کہ یہ اس سے بھی بدتر ہے کہ کوئی دلال اپنی طوائف کے کوٹھے پر گانا سننے آئے شخص کو اسکا ریپ بھی کرنے دے کہ بعد میں بھاری پیمنٹ وصول کرے گا۔ یہ فوج ہماری ہے؛ ملک ہمارا ہے اسکی عزت ہماری ہے۔ کسی فوجی افسر کو یہ حق نہیں کہ اسے اتنا کمزور ثابت کردے پوری دنیا کے سامنے! واحد اسلامی ایٹمی طاقت کو سرنگوں ہونے دے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں