فارن سروس ،آغا خان سے جمشید مارکر تک/حصہ دوم۔رشید یوسفزئی

پرنس علی سلمان خان نے اقوام متحدہ میں پاکستان کے لئے کیا کارنامہ سر انجام دیا؟ سکندر مرزا کے اعزاز میں ڈانس پارٹیاں کیں . بھٹو صاحب نے کہیں ذکر کیا ہے کہ جب وہ ایک نمائندہ وفد میں نیویارک گئے تھے تو پرنس علی نے ان کی  ضیافت میں جو کھانے پیش کیے وہ بادام کے تیل میں پکائے گئے تھے. باقی خود پرنس علی سلمان کے بارے میں اپنے ایک ماتحت نے لکھا تھا کہ چوبیس گھنٹےمیں بائیس گھنٹے نشہ میں ہوتے ہیں. دو گھنٹے اتنے ہوش میں آتے ہیں کہ آئندہ بائیس گھنٹوں کے نشے کا انتظام کرلیں!
کراچی کے آتش پرست یا پارسی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے تاجر، جمشید مارکر چالیس سال سے زیادہ عرصے تک اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تقریباً دنیا کے ہر اہم ملک میں سفیر رہے. انتہائی عمر رسیدہ ہونے کی بناء پر وزارت خارجہ سے سبکدوش ہوئے. جنرل مشرف سے حسن کارکردگی پر صدارتی ایوارڈ لیا اور Quiet Diplomacy یا خاموش سفارتکاری کے نام سے کتاب لکھی.

پاکستان کے تقریباً ہر اچانک بننے والے اعلی عہدیدار کی  طرح، جمشید مارکر کو بھی اچانک فون آیا کہ حکومت پاکستان نے آپ  کو افریقہ میں سفیر مقرر کیا ہے، آپ وزارت خارجہ سے رابطہ کرلیں اور اپنے دستاویزات درست کریں.(نوازشریف کے گزشتہ دور میں سعودی عرب میں تعینات پاکستان کے سفیر راقم کے علاقے مردان کے ایک نواب صاحب تھے. طرز تعیناتی کے بارے میں راقم کے استفسار پہ خان صاحب نے فرمایا کےان کو اتنا یاد ہے کہ ہم چرس سے سگریٹ بھر رہے تھے اور سامنے نوکر جیک کو اس دن کی لڑائی کے لئے تیار کررہا تھا۔ جیک ان کے کتے کا نام تھا. دوران سفارت جب جیک فوت ہوا، تو خان صاحب ارض مقدس میں تھے، سخت صدمہ ہوا. نوکر کو حکم دیا کہ جیک کو فریزر میں محفوظ رکھو، تاکہ چھٹی پہ واپس  آکے خود الوداعی دیدار کرسکیں )

جمشید مارکر کے الفاظ میں ان کی “خوبصورت بیوی اس وقت کراچی کے ایک بیوٹی پارلر میں  ا پنے بالوں کی  تزئین و آرائش میں مصروف تھی” اور نئے بنائے گئے  ہیز ایکسیلنسی کو اپنی  خوبصورت بیوی کو ایک لمحہ کے لئے چھوڑنا گوارا نہ تھا جبکہ حکومت پاکستان کی پیشکش کی قبولیت کے لئے ا ن کی خوبصورت بیوی کی رضامندی سب سے اہم تھی، بالوں کی  آرائش کی  جو فرانسیسی اصطلاحات جمشید مارکر صاحب نے استعمال کی ہیں، ان کی پہچان تو بڑی بات ہے، ان کا تلفظ کرنا بھی ہم جیسے مدرسوں، مساجد وظیفہ پہ پڑھے ہوؤں کے لئے ممکن نہیں.

افریقی  سفارت کا ر  کے ساتھ  جمشید مارکر کی طویل سفارت نما سیاحت شروع ہوئی. ادھر نیشنل پارک میں گئے. فلاں ملک کے فلاں وزیر یا صدر کی  محفل رقص میں گئے. ادھر شراب کی  پچیس اقسام رکھی   گئیں تھیں ، ادھر ایک لڑکی کے ساتھ ڈانس کیا. گویا امور سفارت میں بس یہی کام تھے. افریقہ کے بعد مارکر صاحب جاپان، روس، جرمنی، فرانس، امریکہ، اور اقوام متحدہ میں سفیر رہے. اس طویل عرصہ میں 1965 کی پاک ہند  جنگ ہوئی، جو بقول گوہر ایوب خان  نے ہم نے  میدان میں اور بقول بھٹو تاشقند کے مذاکرات میں ہار گئے. جمشید مارکر صاحب ان مذاکرات میں  شاندار طور پر ناکام رہے.

سقوط بنگال کا واقعہ ہوا   تو مارکر صاحب کا کتا اس دوران بیمار ہو گیا . واضح رہے کہ کتے کی معیت ہمارے اشرافیہ کی نجابت کی علامت ہوتی ہے. مارکر صاحب خصوصی جہازوں میں کتے کو علاج کی غرض سے لئے لئے پھرے. حکومت پاکستان کے خرچ پر ایک سفیر کے کتے کے  علاج کے لئے جہاز کرایہ پر لیا جائے تو کون سی بڑی بات ہے. کتا مر گیا تو کافی عرصہ سفیر صاحب مارے غم کے سفارت خانہ نہ جا سکے. فرانس میں مارکر صاحب کے ایام سفارت کے دوران شاہنواز بھٹو قتل ہوئے. مارکر صاحب اس واقعہ سے ایسے   صفائی سے نکلے جیسے یہ واقعہ ان کے دور میں ہوا ہی نہیں.  پیرس میں مارکر صاحب موجودہ اسماعیلی پیشوا پرنس کریم آغا خان کے ہم پیالہ ساتھی بن گئے. جی کھول کے اسماعیلی امام کی ذخیرہ شراب کی تعریف کی. لکھتے  ہیں ‘ یورپ  و  امریکہ  میں  اتنا  بڑا  شراب خانہ کسی  کے  گھر میں موجود نہیں.

ضیاء الحق کے دور میں جمشید مارکر  امریکہ میں پاکستان کے سفیر بنے. “جہاد افغانستان” کے لئے امریکی راستے ہموار کرنے میں آتش پرست جمشید مارکر نے سفارتی جہاد کیا. ضیاء بھی خوش امریکہ بھی خوش. کراچی اور کوئٹہ میں جمشید مارکر صاحب کے کارخانوں نےان کے ایام سفارت میں خوب سرمایہ کاری کی. جس ملک میں رہے  عیش و نشاط کے علاوہ  یہی بڑا کام کیا کہ اپنی تجارت کو خود  ترقی دی. پاکستان میں اپنے مقابلے میں کسی کارخانے کو چلنے نہ دیا  اور  جی ایچ کیو کے زور سے اپنی تاجرانہ اجارہ داری قائم رکھی. کوئٹہ میں ایک سیلف میڈ  بندے  نے اپنی  محنت  سے  مارکر صاحب کے ایفی ڈرین کے کارخانے کے ساتھ ایک اور کارخانہ کھولا. مارکر صاحب  نے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور پاکستانی جی ایچ کیو کے توسط سے بیچارے کا وہ حشر کیا کہ کارخانہ کیا، مالک  کا  بھی نام و نشان تک  باقی نہیں رہا.

ایک دلچسپ تاریخی بات خود لکھی ہے  کہ سفارت امریکہ کے دوران چھٹی پہ پاکستان آئے تھے. واپس جاتے ہوئے صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق سے پالیسی احکامات لینے گئے. ضیا الحق نے کہا کہ امریکی دانشور سٹینلے ولپرٹ نے بانی پاکستان جناح پر کتاب لکھی ہے ان کو پاکستان کے سرکاری دورے کی دعوت دیں. امریکہ جاکے سٹینلے ولپرٹ سے ملے اور صدر پاکستان کی دعوت پہنچائی  تو ولپرٹ نے دعوت مسترد کرتے ہوئے کہا کہ میں ایسے ملک نہیں جاتا ،جہاں میری  کتاب پہ پابندی ہو. کچھ عرصہ بعد جب واپس پاکستان آئے  تو وزیراعظم جونیجو کی  موجودگی میں جنرل ضیاء الحق نے ولپرٹ کی  دعوت بارے سوال پوچھا. مارکر صاحب نے ولپرٹ کا جواب من وعن نقل کیا. جنرل صاحب  نے جونیجو سے پوچھا کہ ولپرٹ کی   کتاب پہ پابندی کیوں ہے؟ جونیجو نے کہا کہ ولپرٹ نے بانی پاکستان کے شراب پینے اور رمضان میں خنزیر کے گوشت کے علاوہ بہت سارے اور حقائق لکھے ہیں جنھیں ہم پاکستانی عوام سے چھپاتے ہیں جبکہ  وزارت اطلاعات کے ذریعے کتاب پر پابندی کا حکم آپ نے خود دیا ہے. ضیاء نے پابندی ہٹا نے کا فوری حکم دیا.

عموماً حکومتیں بدلنے سے پالیسیاں بدلتی  ہیں اور قلمدان  دوسرے افراد کے پاس  چلے جاتے ہیں.مارکر صاحب جی ایچ کیو کے چہیتے تھے اس لیے ایوب، یحیی، بھٹو سب کے ساتھ شیر و شکر رہے. پہلی آتش پرست بیوی وفات پا چکی تھی. اقوام متحدہ میں سفارت کے دوران، وزارت خارجہ کے موجودہ  بزرجمہر طارق فاطمی کے توسط سے ایک یہودی عورت ارناز سے ملاقات ہوئی  جو شادی پہ منتج ہوئی.  ریٹائرمنٹ کے بعد تمام اعلی درجہ پاکستانیوں کے سرمایہ کے ساتھ فلوریڈا منتقل ہوگئے  ہیں . تاکہ آخری ایام سکون سے گزار سکیں !!

Advertisements
julia rana solicitors london

جب تک فارن سروس  میں سیکشن آفیسر  سے تربیت   پا کر آنے والے اور  سفارت کے سرد  و گرم سے آگاہ  افسران   سفیر  نہیں بنائے جاتے،ہم سفارت کے نام پر لطائف سنتے رہیں گے، اور حیرت کا شکار رہیں گے کہ آخر دنیا ہمار ا موقف کیوں نہیں سمجھتی!

Facebook Comments

رشید یوسفزئی
عربی، فارسی، انگریزی ، فرنچ زبان و ادب سے واقفیت رکھنے والے پشتون انٹلکچول اور نقاد رشید یوسفزئی کم عمری سے مختلف اخبارات، رسائل و جرائد میں مذہب، تاریخ، فلسفہ ، ادب و سماجیات پر لکھتے آئے ہیں۔ حفظِ قرآن و درس نظامی کے ساتھ انگریزی اور فرنچ زبان و ادب کے باقاعدہ طالب علم رہے ہیں۔ اپنی وسعتِ مطالعہ اور بے باک اندازِ تحریر کی وجہ سے سوشل میڈیا ، دنیائے درس و تدریس اور خصوصا ًاکیڈیمیا کے پشتون طلباء میں بے مثال مقبولیت رکھتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply