مرد اور عورت کی سماجی تقسیم اور اسلام۔۔۔ ڈاکٹر طفیل ہاشمی

سماجی تناظر میں مردوں اور عورتوں کو الگ الگ خانوں میں تقسیم کر کے ان کے حقوق و فرائض کی جدا جدا فہرست تیار کرنا ایک متحد اور مستحکم انسانی وجود کو الگ الگ حصوں میں بانٹنے کے مترادف ہے۔ أمر واقعہ یہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں مل کر ایک مکمل انسانی وجود کے پیکر میں متشکل ہوتے ہیں اور ان کی ایک دوسرے سے وابستگی اور پیوستگی ہی معاشرتی وجود، ارتقا، امن، سکون، محبت اور راحت کی ضمانت ہے لیکن یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ جب ہم عورت کے حوالے سے تاریخ انسانی پر نگاہ ڈالتے ہیں تو پوری تاریخ عورت کی مظلومیت کی داستان خوں چکاں کا منظر پیش کرتی ہے۔ عورت یونان میں ہو یا روم میں، عرب میں ہو یا عجم میں، یورپ میں ہو یا ایشیا میں ہر جگہ ظلم و ستم کا شکار رہی۔

انسانی تاریخ میں پہلی بار اسلام نے عورت کو مرد کے برابر لا کھڑا کیا بلکہ انتظامی امور میں مرد کی ذمہ داریاں بڑھا کر عورت کو تنقید کا نشانہ بننے سے بچا لیا اور عورت پر الزام عائد کرنے کی سخت سزا رکھ کر عورت کو مرد پر فوقیت دے دی.۔اس کے حقوق کا تعین کیا، اس کے جذبات و احساسات کا احترام کیا، اس کی خدمات اور قربانیوں کو تسلیم کیا اور وہ جسے پیدائش کے فورا ً بعد زندہ در گور کر دیا جاتا تھا، اس کے پاؤں تلے جنت رکھ دی گئی۔

سرزمین حجاز کے لیے، جہاں پیغمبر انسانیت نے اس تبدیلی کا آغاز کیا اسے ہضم کرنا خاصا دشوار تھا لیکن ہوا یہ کہ اسلام دنیا بھر میں بہت تیزی سے پھیلا، ملکوں کے ملک اور قوموں کی قومیں جوق در جوق حلقہ بگوش اسلام ہوتی چلی گئیں. انہوں نے ایک نئے دین اور نئی تہذیب کی بالادستی تو تسلیم کر لی لیکن اپنے آپ کو اس دین کے اخلاقی، سماجی اور عادلانہ تقاضوں میں ڈھالنے کے لیے نہ تو مناسب تربیت میسر آئی  اور نہ اندر سے آمادگی پیدا ہوئی کہ اپنی صدیوں کی روایات اور آباء و اجداد سے متوارث  ملنے والے توہمات کو یک بارگی جھٹک کر ایک نئے ماحول اور نئی دنیا میں آباد ہو جائیں۔

عورت کی برابری  کا اسلامی تصور اتنا پرزور لیکن ناقابل مفاہمت تھا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جیسی عظیم شخصیت بھی یہ اعتراف کرتی ہے کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حیات طیبہ میں ہم اپنی خواتین سے زیادہ بے تکلفی سےمعاملات کرنے سے ہچکچاتے تھے مبادا ان کے حقوق کے حوالے سے کوئی نئی  وحی آجائے۔ آپ کے وصال کے بعد ہماری جھجک ختم ہوئی۔
لیکن عامۃ الناس کے لیے کتاب و سنت کے احکام اور ازواج مطہرات کے ساتھ رسول اکرم کے برتاؤ کی سنت اور خواتین کے بارے میں ارشادات نبوی کو متوارث سماج کی جگہ دینا بہت مشکل تھا . رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وصال کے بعد سب سے پہلی Casualty خواتین کے حقوق کی ہوئی، خواتین کی مساجد میں آمد و رفت پر قدغن، مجالس مشاورت سے خواتین کی بے دخلی کے بعد ملکی اور سماجی امور میں ان کی شرکت کا دائرہ محدود ہوتا چلا گیا اور ایسی دانستہ کوششیں کی گئیں جن سے یہ ثابت کیا جائے کہ اسلام یعنی کتاب و سنت بھی عورتوں کو مردوں سے کمتر حیثیت دیتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مثلا :یہ تصور کہ عورت مرد کی پسلی سے پیدا کی گئی ہے اس لیے مرد سے کمتر ہے، یہ عورت ہے جو آدم کے جنت بدر ہونے کا باعث بنی، مرد بیوی پر حاکم ہے جس کی بنا پر مرد کو اجازت ہے کہ وہ بیوی کی پٹائی کرے بلکہ بعض لوگ تو ایسے تعبیر کرتے ہیں کہ بیوی کو مارنے کا حکم ہے. وراثت میں عورت کا حق مرد سے کم ہے اور عورت کی گواہی آدھی ہے، عورت کو خود معاہدہ نکاح کرنے کا اختیار نہیں ہے، اسے ولی کی مرضی پر سر تسلیم خم کرنا ہوتا ہے اور عورت کو طلاق کا اختیار نہیں ہے. یہ تمام امور عورت کی کمتری ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں(ان میں سے ہر عنوان کتاب و سنت کی رو سے تفصیلی بحث و مکالمہ کا متقاضی ہے جو ان شاء اللہ جاری رہے گا ) تاہم گویا بقول اقبال
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق!

Facebook Comments

ڈاکٹر طفیل ہاشمی
استاد، ماہر علوم اسلامی، محبتوںکا امین

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply