حسن ناصر باغی تھا۔۔فہیم عامر

“باغی ہیں، باغی ہیں، ہم سب باغی ہیں
حسن ناصر باغی تھا، ہم بھی باغی ہیں”
١٣ نومبر پاکستان کی انقلابی جدوجہد کے لئے ایک اہم دن ہے. ١٣ نومبر ١٩٦٠ میں، ایوب خانی آمریت کے خلاف مسلح جدوجہد کرنے والے عظیم انقلابی حسن ناصر کو شاہی قلعہ لاہور میں موت کے  گھاٹ اتار دیا گیا تھا. انھیں کس طرح سے مارا گیا، ان کی لاش کہاں دفن ہے، ان کی شا عری اور مضامین کدھر ہیں ان کے بارے میں با وثوق ا طلاعات مُجھ سمیت بہت سے ساتھیوں کے پاس نہیں ہیں۔
حسن ناصر کے سلسلے میں میری معلومات محض اس حد تک محدود ہیں کہ جب ہم ملتان میں ضیاء آمریت کے خلاف لڑ رہے تھے تو مرکزی تنظیم کے ساتھیوں نے عا صم علی شاہ کو طالب علموں میں انقلابی زور پیدا کرنے کے لئے بھیجا۔ تب، اسٹڈی سرکل کے ادوار شروع ہوئے اور پتہ چلا کہ حسن ناصر ١٩٢٨ کو حیدرآباد(دکن) میں پیدا ہونے والا ایک انقلابی تھا جو پاکستان کے مزدوروں، کسانو ں اور نوجوانوں کو عوامی جمہوری انقلاب کے لئے بیدار کرنا چاہتا تھا۔ وہ کالعدم پاکستان کمیونسٹ پارٹی کا سیکرٹری جنرل اور بھاشانی کی نیشنل عوامی پارٹی کا آفس سیکرٹری تھا. اس نے مخدوم محی الدین اور دوسرے افراد کے ساتھ تلنگانہ میں عوامی جمہوری انقلاب کے لئے مسلح جدوجہد کی تھی. مگر 1947 کی تقسیم ہندوستان کے بعد وہ پاکستان چلا آیا اور حکمرانوں نے اسے ایک ’خونخوارکمیونسٹ‘ قرار دیا جو فقط اس حد تک درست ہے کہ وہ سچ مچ ایک سیدھا سادھا اسٹالنِسٹ کمیونسٹ تھا مگر خونخوار وہ نہیں بلکہ ایوب خان کی آمر سرکار تھی جو کسی بھی طرح حسن ناصر کو زندہ نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔ انقلابی صفوں میں یہ حکایت بھی موجود ہے کہ کامریڈ ڈاکٹر رشیدحسن خان بھی اسی گروپ کا تراشا ہوا ہیرا تھے.
انھیں کئی مرتبہ گرفتار کیا جاتا رہا مگر انہوں نے جدوجہد کی راہ ترک نہ کی۔ با لاخر ١٩٦٠ میں انھیں آخری مرتبہ کراچی سے پکڑ کر شاہی قلعہ کے ایک متروک سیل میں ڈال دیا گیا. اس وقت ڈی آئی  جی خان قربان علی خان حسن ناصر کی نگرانی کر رہے تھے۔ میجر محمّد اسحاق، جو راولپنڈی سازش کیس بھی بھگت چکے ہیں، انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ موت سے پہلے ان کے سیل کا صفائی کرنے والے اور ڈیوٹی پر موجود چھوٹے عملے سے پوچھ گچھ سے پتہ چلا کہ حسن ناصر کا حوصلہ ہمیشہ بلند تھا۔ ایوب خانی نمائندوں نے ان کے قتل کو خود کشی ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی مگر عدالت میں وہ ثابت نہ کر سکے کہ کیسے ایک لمبا شخص ایک چھوٹی سی جگہ پر، ایک چھوٹی سی کیل کے ذر یعے اپنے آزار بند اور پائجامے سے لٹک کر خودکشی کر سکتا ہے۔
تاہم ان کی لاش کی قبر کشائی کروائی گئی اور ان کی والدہ سیّدہ زہرہ علمبردار حسین کو بھارت سے بلایا گیا. ان کی لاش دیکھتے ہی ان کی والدہ نے اس لاش کو اپنا بیٹا ماننے سے انکار کر دیا، جس سے یہ سچ ثابت ہو گیا کہ ایوب خان کی پروردہ نوکر شاہی نے ان کا جسد خاکی بھی غائب کر دیا ہے۔ شاید حکمران غاصب طبقات نے سوچا کہ لاش غائب کر دینے سے حسن ناصر کا عوامی جمہوری انقلاب کا سپنا بھی دفن ہو جاۓ گا۔ غیر طبقاتی نظام کا سپنا، جمہور کی حکومت کا سپنا، مزدوروں کی معا شی آزادی کا سپنا، کسانوں کے اپنے دیس کا سپنا۔
مگر ایسا ہو نہیں سکا. جب تک سماج میں طبقات ہیں، حسن ناصر کا سپنا زندہ ہے. جب تک دنیا میں امیر اور غریب کی تفریق قائم ہے، حسن ناصر کا سپنا زندہ ہے. جب تک دیس غیر ملکی استعمار کا غلام ہے، حسن ناصر کا سپنا زندہ ہے. دیس کی ملوں سے اٹھنے والا دھواں آسمان میں حسن ناصر کا نام لکھتا رہے گا۔ کھیتوں میں لہلہاتی فصلیں حسن ناصر کے وہ گیت گنگنائیں گی جو سامراج کے ا یجنٹوں نے اپنی طرف سے دفن کر دیے تھے۔ کہیں نہ کہیں کچھ نوجوان یہ آج بھی کہ رہے ہیں کہ
“باغی ہیں، باغی ہیں، ہم سب باغی ہیں
حسن ناصر باغی تھا، ہم بھی باغی ہیں”
ہرسال نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور پیپلز ڈیموکریٹِک فرںٹ مزدوروں، کسِانوں اور طالبِ علموں کے ساتھ مِل کر یومِ حسن ناصِر مناتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اِنقلاب کی راہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے والے اکیلے حسن ناصِر تو نہیں تھے۔ اُن کے عِلاوہ بھی سینکڑوں ایسے شُہداء ہیں جو بقول فیض احمد فیض کے ’تاریک راہوں میں مارے گئے‘ ۔۔۔۔ پھِر ایسی کیا بات ہے جو حسن ناصِر کو دیگر اِنقلابی شخصیّتوں سے مُمتاز کرتی ہے؟ اِنقلابی جذبے سے تو سبھی ساتھی سرشار تھے جِنہوں نے جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے مزدوروں،کِسانوں اور طالبِ علموں کی جِدوجُہد اپنی آخری سانس تک جاری رکھی۔
تو ساتھیو، حسن ناصِر کو اُن کی نظریے پر گرِفت نے انہیں، اُن کی زندگی میں ہی سبھی ساتھیوں سے مُمتاز کر دیا۔ 1992 میں جب بینظیر بھٹو کی ناک کے تلے این ایس ایف کے خِلاف ایجنسیوں نے جوائنٹ آپریشن کیا اور اِس کے نتیجے میں ہم گرفتار ہو کر سنٹرل جیل مُلتان پہنچے تو وہاں کے ڈپٹی سپریٹنڈنٹ نے اپنے سینیئر افسر کے ساتھ ہماری تعارفی تحقیرکُچھ یوں کی کہ
’صاحب، این ایس ایف کے اسٹوڈنٹس ہیں اور سالے خود کو حسن ناصِر سے کم نہیں سمجھتے‘۔
اِسی طرح کا ایک اور واقعہ مُشتاق احمد یوسفی صاحب نے بھی اپنی معروف کِتاب ’آبِ گم‘ میں مزاحیہ انداز میں بیان کیا ہے۔
خیر قلم برداشتگی کی معذرت، ہم بات حسن ناصِر کی اِنقلابی نظریے پر گرفت کی بات کر رہے تھے تو اِس ضمن میں بزرگ وکیل جَسٹِس فخرالدین جی ابراہیم کہتے ہیں کہ جب حسن ناصِر کراچی کی ایک جیل میں اسیر تھے تو وہ اُن سے مُلاقات کے لیے گئے اور حسن ناصِر کو اُن کا مُفت مقدمہ لڑنے کی پیشکش کی۔ اِس پیشکش کو حسن ناصِر نے یہ کہہ کر رد کر دیا کہ آپ اُن جھوُٹے مقدمات کے لیے جھوُٹی عدالتوں میں میری پیروی کیوں کرنا چاہتے ہیں، جب آپ کو بھی معلوم ہے اور مُجھے بھی معلوم ہے کہ جج صاحبان کیا فیصلہ دیں گے؟ اگر عدالت مُجھ پر اِس بات کا مُقدمہ چلائے کہ میں انقلاب کی جِدوجُہد کرتا ہوں یہ مُقدمہ میں خود لڑوں گا۔
آج تاریخ گواہ ہے کہ کوئی بھی نہ اُن ججوں کو جانتا ہے جِنہوں نے حسن ناصِر کی اسیری کے احکامات صادِر کیے  نہ اُن افسروں کو جانتا ہے جو آمروں کی کاسہ لیسی میں حسن ناصِر کو یا تو پابندِ سلاسِل دیکھنا چاہتے تھے یا مُردہ۔ مگر حسن ناصِر کا نام آج بچے بچے کی زبان پر ہے۔ مُلاحظہ فرمایئے کہ جسٹس فخرالدین جی ابراہیم نے یہ باتیں سرکاری چینل پی ٹی وی پر کہیں، جو صِرف آتی جاتی حکومتوں کی خاصہ برداری کے عِلاوہ کُچھ بھی نہیں کرتا۔
ساتھیو، اُن کی والدہ سیّدہ زہرہ علمبردار تو بھارت سے اپنے بیٹے کی لاش لینے آئیں تھیں، جو اُنہیں نہیں مِلی اور مِلتی بھی کِس طرح کہ موت افراد کو تو آسکتی ہے مگر نظریے کو نہیں۔ اِنسان کا جِسم تو دفن کیا جا سکتا ہے، مگر اُس کے افکار نہیں۔لہٰذا، حسن ناصِراپنے افکار کی صورت میں آج بھی  زندہ ہے۔ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا ہر نوجوان آج حسن ناصِر ہے۔ پیپلز ڈیموکریٹِک فرنٹ کا ہر کارکُن حسن ناصِر ہے۔ یومِ حسن ناصِر پر آنے والے رکشہ یونین کے مزدورحسن ناصِر ہیں۔ یہ بھٹوں پر بیگار کرنے والے، سرد راتوں میں شہر کے گٹروں میں اُتر کر صفائی کرنے والے، ہر صبح اپنے اوزار لے کر شہر کے چوراہوں پر رِزق کی تلاش میں آنے والے اور شام کو مایوس اپنے گھروں کو لوٹ جانے والے ۔۔۔۔ یہ بھی تو حسن ناصِر ہیں۔ جنوبی پنجاب میں اپنے کھیتوں کی حِفاظت میں فوج سے لڑ جانے والے کِسان، مال روڈ پر اپنے حقوق کے حصول کے لیے  پولیس کی لاٹھیاں کھانے والے نابینا افراد، ہمارے کلرک، ریڑھی بان، ریلوے مزدور یہ بھی تو حسن ناصِر ہی ہیں۔
نواز شریف کی نا اہلی سے پہلے وزیرِریلوے، خواجہ سعد رفیق نے ۱۳ مزدوروں کو اپنا حق مانگنے پرسلاخوں کے پیچھے بھِجوا دیا اور اُن پر دہشت گردی کے مقدمے قائم کر دیے۔ یہ ۱۳ مزدور بھی تو حسن ناصِر ہیں۔ آئے روز ملکِ عزیز میں غائب ہوجانے والے لِکھاری اِسی لیے تو لاپتہ کر دیے جاتے ہیں کہ وہ حسن ناصِر کے افکار پر چلتے ہوئے وطن کو سامراج اور اُس کی پروردہ اشرافیہ سے نِجات دِلانے کی بات کرتے ہیں۔
سو، ساتھیو، وہ وقت دور نہیں، جب اِس نعرے سے ظالِم حُکمرانوں کے ایوان دہل جائیں گے کہ ۔۔۔۔
“باغی ہیں، باغی ہیں، ہم سب باغی ہیں
حسن ناصر باغی تھا، ہم بھی باغی ہیں”

Facebook Comments

فہیم عامِر
ایک عرصے سے صحافت سے منسلک ہیں اردو اور انگریزی زبانوں میں کالم نگاری کرتے ہیں۔ بقیہ تعارف تو ہماری تحریریں ہی ہیں، جِن میں سے کچھ ہماری فیس بُک پر موجود ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply