بلوچ سیمناکا خواب۔۔ذوالفقار علی زلفی

اس وقت دنیا بھر کے فلم بین بلوچوں کی نظریں بحرینی نژاد بلوچ فن کار “جان البلوشی” پر مرکوز ہیں ـ انور اقبال بلوچ کے بعد وہ دوسرے فلم ساز ہیں جنہوں نے سینما پر بلوچی فلم دکھانے کا اعلان کیا ہے ـ

ترقی یافتہ بیسویں صدی کی ساتویں دہائی وہ منحوس دہائی ہے جس میں انور اقبال بلوچ کی فلم “ھمل ماہ گنج” سے بلوچ غیرت خطرے میں آ گئی تھی ـ “ھمل ماہ گنج نہیں چلے گا” کی گونج میں بلوچی سینما کے خواب کو ملیامیٹ کر کے “غیرت” کو محفوظ بنایا گیا اور سینما کو بلوچ معاشرے سے بیدخل کردیا گیا ـ غیرت کے اس کچرا خانے میں عام بلوچ ہی نہیں تعلیم یافتہ قوم پرست نوجوان، ادبی ، سیاسی و صحافتی شخصیات نے بھی مقدور بھر بدبو پھیلائی ـ وہ دن آج کا دن، سینما اور بلوچ متضاد ہی رہے ـ

ٹی وی اور ویڈیو فلموں سے وابستہ باصلاحیت بلوچ خواتین کے ذاتی کردار کو شک کی نگاہ سے دیکھا گیا، ہر ممکن طریقے سے انہیں ہراساں کیا گیا ـ

ماہ لقا بلوچ، عروسہ عیسیٰ، بینش بخش، مرجان بلوچ، طاہرہ بلوچ و دیگر ان جیسی باصلاحیت و قابلِ فخر بلوچ بیٹیوں کو “غیرت” اور “بلوچیت” کی آڑ میں مردانہ بالادستی برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے ان کی نسائیت پر حملہ کیا گیا ـ یہاں تک کہ مغربی بلوچستان (ایران) کے بلوچی ٹی وی ڈرامے “شمبل شاھو” کی خواتین فن کار بھی مردانہ غیرت کا نشانہ بنتی رہیں ـ

اب جان البلوشی نے بلوچی فلم “زراب” کو سینما پر دکھانے کا جرات مندانہ اعلان کر کے جمود کی قوتوں کو للکارا ہے ـ جان البلوشی نے تاہم مردانہ حاکمیت سے ٹکر لینے کی بجائے خواتین کو فلم سے دور رکھا ہے ـ امید قائم رہے، ہندوستان کی پہلی فلم بھی عورت گریز رہی ہےـ ہمارا دوسرا پڑوسی ایران کا سینما بھی 1934 کی فلم “دخترِ لر” سے قبل عورت دشمن رہا ہے اور “دخترِ لر” کی خاتون فن کار مذکورہ فلم کے بعد ایرانی معاشرے میں اچھوت قرار دی گئیں ـ

“زراب” امید دلاتی ہے کہ مستقبل میں بلوچ سینما ایک حقیقت بن جائے گا ـ ایک خواہش ہے جو شاید حقیقت بن سکے، اس فلم کو کراچی کے سینما گھروں میں دکھانے کا بھی اہتمام کیا جاتا ـ تیس لاکھ کی بلوچ آبادی کے اس شہر میں فلم کو یقیناً اچھا رسپانس ملتا ـ

جان البلوشی ایک تعلیم یافتہ فلم ساز ہیں، انہوں نے دنیا دیکھی ہے، امریکہ سے سینما کی تربیت لی ہے، وہ یقیناً جانتے ہوں گے کہ آدھی بلوچ آبادی کی نمائندگی کے بغیر فلم کو مکمل نہیں سمجھا جا سکتا ـ

بلوچ نہ پیڑ پہ اگتے ہیں اور نہ ہی زمین کا سینہ پھاڑ کر نکلتے ہیں ـ وہ عورت سے جنم لیتے ہیں، جنم دینے والی کو “غائب” رکھنے سے مردانہ غیرت تو محفوظ رہے گی مگر قومی مستقبل پر جہالت کے دبیز پردے برقرار رہیں گے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ حال حوال!

Facebook Comments

ذوالفقارزلفی
ذوالفقار علی زلفی کل وقتی سیاسی و صحافتی کارکن ہیں۔ تحریر ان کا پیشہ نہیں، شوق ہے۔ فلم نگاری اور بالخصوص ہندی فلم نگاری ان کی دلچسپی کا خاص موضوع ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply