ہم جنسیت کیا ہے؟ اسباب کیا ہیں؟(آخری قسط)

ہم جنسیت کیا ہے؟ اسباب کیا ہیں؟آخری قسط
طاہر یاسین طاہر
(گذشتہ سے پیوستہ)
روسو جیسا مفکر اپنے زمانہ طالبعلمی کے احوال میں لکھتا ہے” جب وہ تحصیل علم کے لیے ایک خانقاہ میں داخل ہوا تو ایک شخص اس پہ فریفتہ ہو گیا،اسے بوس و کنار کرتا، مگر وہ کریہہ صورت تھا،ایک رات اس نے روسو کو بستر پہ چلنے کو کہا، جسے روسو نے بہانے سے ٹال دیا۔ اگلے د ن خانقاہ کے منتظم سے شکایت کی تو اس نے کہا کہ،واہ۔ یہ بھی کوئی بات ہے؟اوائل عمر میں ایسے کئی واقعات مجھ پر بھی گذر چکے ہیں”،خانقاہ کے منتظم نے مزید کہا کہ میں ذاتی تجربے کی بنا پر کہتا ہوں کہ یہ تجربہ چنداں ناخوشگوار بھی نہیں ہوتا،تم خانقاہ کو خواہ مخواہ بدنام کرتے ہو۔روسو کے معاصر دیدیرو نے اپنے ناول راہبہ کی سر گذشت میں لزبائی عشق کا استادانہ نقشہ کھینچا ہے۔
میں اکثر یہ جملہ تکرار سے لکھتا ہوں کہ تاریخ کی کسی سے رشتہ داری نہیں ہوتی۔ہم مگر تاریخ کو عقیدت سے پڑھتے ہیں،اگر اسے ایک مضمون کے طور تجزیاتی مطالعہ کریں تو سبق بھی حاصل ہو۔یونانیوں،جاپانیوں اور ایرانیوں،میں سدومیت ایک قدر مشترک تھی جو رفتہ رفتہ ایک رواج بن گئی۔نامور مفکر علی عباس جلالپوری لکھتے ہیں کہ “خلیفہ ہارون اور جعفر کی محبت تاریخوں میں محفوظ ہے۔ہارون نے ایک ایسا فرغل بنوایا ہوا تھا جس کے دو گریبان تھے،اسے پہن کر وہ یکجان دو قالب بن جاتے تھے”۔ہارون کا بڑا بیٹا امین سخت ہم جنس پرست تھا۔اس کی ماں زبیدہ نے حسین و جمیل کنیزیں مردانہ لباس پہنا کر اس کے پاس بھیجیں۔امین اپنے ایک غلام کوثر پر جان چھڑکتا تھا۔خانہ جنگی کے دوران میں جب مامون کی فوج کے سپہ سالار طاہر بن حسین کی فوج بغداد میں گھس آئی اور امین کی سپاہ کو شکست ہو گئی تو ایک شخص دوڑتا ہوا امین کے پاس پہنچا،جو اس وقت دریا کے کنارے بیٹھا اپنے محبوب کوثر کے ساتھ مچھلیاں پکڑ رہا تھا۔اسے شکست کی خبر دی گئی تو وہ سخت بد مزہ ہوا اور کہنے لگا، خدا تمھیں غارت کرے،دیکھتے نہیں کوثر نے دو مچھلیاں پکڑ لیں اور میرے ہاتھ ابھی تک ایک بھی نہیں لگی۔
خلیفہ الحاکم فاطمی کا خواجہ سراعین کے ساتھ معاشقہ مشہور ہے۔خلیفہ ہادی عباسی نے قابل اعتراض حالت میں پا کر اپنی دو حسین و جمیل کنیزوں کا سر قلم کر دیا تھا۔مزید سنیئے کہ سلطان محمود غزنوی کو مشتری چہرہ غلاموں سے عشق تھا۔فضل بن احمد بھی اس شوق میں اپنے آقا کی پیروی کرتا تھا۔عماد الدین اصفہانی تاریخ سلجوقیہ میں لکھتا ہے کہ” سلطان سنجر کی عادت تھی کہ جو غلام اسے پسند آ جاتا اسے خرید کر وہ اس سے عشق کرتا تھا”۔تزک بابری میں ہم جنسی عشق کے تذکرے ملتے ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ سلاطین و امرا کے حرم سراوں میں لزبائی عشق عام تھا،کنیزیں ایک دوسری سے لزبائی اختلاط کر کے اپنی محرومیوں کا ازالہ کرتی تھیں، کیونکہ قدرتاً بھی ایک شخص سینکڑوں لونڈیوں کی جنسی خواہش پوری نہیں کر سکتا۔
عورتوں کی ہم جنسی محبت کی روایت بھی یونان قدیم سے یادگار ہے۔ “جزیرہ لزباس کی مشہور و معروف شاعرہ سپغو سے اس کا آغاز ہوا تھا”۔اس کے وطن کی رعایت سے عورتوں کی ہم جنسی محبت کا نام” لزبائی عشق “پڑ گیا۔یہ بات درست ہے کہ ہم جنسیت کی عضویاتی،معاشرتی اور نفسیاتی وجوہات ہیں۔آج بھی مغرب کے قحبہ خانوں میں ہم جنسی میلان اور لزبائی شوق کی تشفی کے لیے سامان کیئےجاتے ہیں۔وہ افراد جو صرف یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جنسیت کی صرف اور صرف وجہ الہٰی اخلاقیات اور دین سے دوری ہے ،وہ قطعی غلطی پر ہے۔ ہاں یہ ایک پہلی وجہ ہو سکتی ہے مگر کلی نہیں۔تمام الہٰی مذاہب نے اخلاقیات کی تعلیم دی۔ہندو مذہب میں بھی ہم جنسیت قابل گرفت جرم ہے، مجوسیوں میں بھی اس فعل کو برا سمجھا جاتا تھا،مجوسیوں کی شریعت میں سدومی کی سزا موت تھی ۔کیا یہ سچ نہیں کہ ساسانیوں کے عہد میں ہم جنسیت ایک معاشرتی ادارہ بن گئی تھی؟کیا اردو شاعری میں مرکزی محبوب مذکر نہیں ہے؟
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
بابر اپنے ایک عزیز کے بارے تزک بابری میں لکھتا ہے کہ” سلطان محمود مرزا پابند صوم و صلوٰۃ تھا ،لیکن اس نے کئی لونڈے رکھے ہوئے تھے۔مزید لکھتا ہے کہ اس کی مملکت میں جہاں کوئی نوخیز اور حسین لونڈا دکھائی دیتا وہ اسے قابو میں لانے کی کوشش کرتا تھا۔اس کے سرداروں کے بیٹے،حتیٰ کہ اس کے رضاعی بھائی اور رضاعی بھائیوں کے بیٹے بھی اس سے محفوظ نہیں تھے”۔آہ کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ مرور زمانہ سے مسلمانوں میں امرد پرستی اس قدر عام ہو گئی کہ غیر مذاہب کے لوگ اسے اسلام کا جزو سمجھنے لگے۔
البیرونی کے بقول” کابل کے ہندو راجہ نے اسلام قبول کیا تو یہ شرط لگائی کہ وہ نہ تو گائے کا گوشت کھائے گا اور نہ لونڈوں سے عشق بازی کرے گا،”۔ اسلامسٹ صوفی بھی امردوں پر جان چھڑکتے ہیں۔ ابن جابر اپنے عہد کے مشہور زاہد تھے۔ڈاکٹر ذکی مبارک لکھتے ہیں کہ ابن جابر کے ایک شاگرد نے ایک خوبصورت جوان سے کہا،خدا کے لیے مجھے اپنے چہرے کا بوسہ لینے دو۔لڑکے نے بوسہ نہ لینے دیا اور شیخ کے پاس جا کر اس کے شاگرد کی شکایت کی،کہ اس نے مجھ سے ایسا مطالبہ کیا ہے۔شیخ نے کہا،کیا تو نے اس کی خواہش پوری کر دی؟لڑکے نے کہا نہیں!شیخ نے کہا،تو اس کی خواہش کو ٹھکرا کر اسے سزا تو دے چکا ہے،اب مجھ سے شکایت کرنے کیوں آیا ہے؟یہ امر درست ہے کہ صوفیا امرد یعنی ایسے لڑکوں ،جن کی داڑھی مونچھ نہیں آئی ہوتی اپنے ساتھ رکھتے ہیں اور ان سے لذت حاصل کرتے ہیں۔ سلطان محمود غزنوی کا معاشقہ اپنے غلام ایاز سے مشہور ہے۔ مورخ خوند میر نے اس کی تفصیل لکھی ہے۔گذشتہ صدی کے نصف میں ہم جنسوں نے باقاعدہ انجمنیں بنائیں اور اپنے حق میں جلوس نکالے۔ اگرچہ ہم جنس پرستوں کی انجمن سازی قدیم عہد میں بھی روسا و امرا کے حرم سراوں میں ملتی ہے۔28جون1970کو پہلی بار دس ہزار ہم جنسوں نے نیو یارک میں جلوس نکالا اور مطالبہ کیا کہ ہم جنس پرستوں کو نہ صرف ملازمتوں میں مناسب حصہ دیا جائے بلکہ انھیں باہم شادیاں رچانے کی اجازت بھی دی جائے۔ یورپ کے بعض ممالک میں ہم جنسی شادیوں کو قانونی حیثیت حاصل ہے،اگرچہ ایسی شادیوں کو کلیسا کی حمایت حاصل نہیں ہوتی۔لزبائی عشق ہو یا امرد پرستی؟ تاریخ کے اوراق میں ہوش ربا واقعات درج ہیں،کالم مگر تیسری قسط تک نہیں لے جا سکتا۔
موضوع کو سمیٹنے کی طرف آتے ہیں۔ ہم جنسیت ایک معاشرتی،عضویاتی اور نفسیاتی معاملہ ہے۔ اسے کسی کے ایک شخص کے فتوے کی کمزور چادر میں نہیں لپیٹا جا سکتا۔”علت مشائخ “پہ فقہی و دینی کتب میں جو باب باندھا گیا ہے وہ اس بات کی گواہی ہے کہ دین دار طبقہ بھی ہم جنسی رویوں سے مغلوب ہے۔
آخری تجزیے میں مرد و عورت ہی ایک دوسرے کی جنسی تشفی کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔یہی ایک دوسرے سے جنسی اختلاط کر کے افزائش نسل کا سبب بنتے ہیں۔مغرب ہو یا مشرق،مسلم ہوں یا غیر مسلم، سارے معاشرے ہم جنسی پرستی کے بڑھتے رحجان سے خائف ہیں اور اس کی معاشرتی ونفسیاتی اصلاح کے لیے کوشاں بھی ہیں۔عضویاتی پہلو کا تعلق خلقی رحجان سے ہے۔کیا یہ سچ نہیں کہ جن کی حسِ جمال تیز ہو تی ہے ان میں ہم جنسی رحجان بھی قدرے تیز ہوتا ہے؟ اگرچہ وہ معاشرتی حیا کے باعث اسے چھپا کر ہی کیوں نہ رکھتے ہوں؟ رواجاً تنقید کرنے کے بجائے مطالعاتی رحجان کو اپنائیں،مکالمہ کریں،اسی میں معاشرتی حسن اور سماجی حیات کی بقا ہے۔
یاروں کی خامشی کا بھرم کھولنا پڑا
اتنا سکوت تھا کہ مجھے بولنا پڑا

Advertisements
julia rana solicitors

پہلی قسط کا لنک حاضر ہے۔
http://www.mukaalma.com/article/tahir514/1513
نوٹ: ہم جنسی عشق کے حوالے سے نجمہ سلطانہ کے کالم کے بعد مکالمہ پر چڑھائی شروع کر دی گئی اور ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ مکالمہ کا ایڈیٹوریل بورڈ “دین بیزار” ہے۔ بہ طورایڈیٹر مکالمہ اور ایک کالم نویس کے میرا یہ فرض تھا کہ جوابی بیانیہ لکھوں اور ہم جنسی عشق کی نفسیاتی،معاشرتی اور عضویاتی وجوھات کو طشت ازبام کروں۔

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply