غلامانہ ذہنیت کے حامل اس حریت و آزادی کے تصور سے خائف ہیں جو ہر انسان کے اندر فطرت نے ودیعت کر رکھا ہے۔ اسلام دینِ فطرت ہے۔ خلافِ فطرت کسی عمل کا جواز اسلام میں ڈھونڈنا ایک بدترین علمی خیانت ہے۔ ایسے مفکرین و مفسرین جو دین سے سند لے کر ظلم، جبر اور فسطائیت کے حق میں فتاویٰ و دلائل دیتے ہیں اور ظالم حکمرانوں کی کاسہ لیسی کرتے ہیں، وہ دین اور شرفِ انسانیت کے مجرم قرار پائیں گے۔ ان کا یہ عمل Crime against humanity کی ذیل میں شمار ہو گا۔ اپنے ذاتی موقف کو ثابت کرنے کے لیے سیاق و سباق سے ہٹ کر کسی آیت یا حدیث کے کسی حصے کو پیش کرنا سراسر گمراہی ہے۔ گمراہی کا پرچار گمراہ لوگ ہی کرتے ہیں۔ رہبر کے روپ میں رہزن سب سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔
آج کل ایک حدیثِ پاک کا حوالہ دیا جاتا ہے، اور اس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اسلام میں معاذاللہ ملوکیت حلال اور جمہوریت حرام ہے۔ کتبِ احادیث کا مطالعہ کرنے کی توفیق ملے تو معلوم ہو گا کہ وہ حدیث جس مقصد کے لیے پیش کی جا رہی ہے، وہ مدعائے حدیث سے یکسر متصادم ہے۔ پہلے وہ حدیث ہم یہاں من و عن بیان کرتے ہیں، اور پھر قارئین سے سوال کرتے ہیں کہ کیا اس کا مدعا عوام الناس میں ملوکیت و فسطایت کی تائید ہے، یا کچھ اور ہے؟
ایک حدیث روایت کی جاتی ہے: ’’سنو اور اطاعت کرو، اگرچہ تم پر کسی حبشی غلام ہی کو والی مقرر کر دیا جائے، جس کا سر کشمش کی طرحہ و‘‘ … یہی حدیثِ مبارکہ مختلف طریق میں الفاظ کے اختلاف کے ساتھ بھی آئی ہے … ’’اپنے امیر کی سنو اور اطاعت کرو، جب تک کہ وہ کتاب اللہ پر کاربند رہے، خواہ وہ کوئی نکٹا حبشی ہی کیوں نہ ہو‘‘۔ اب یہ حدیث سنا کر یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ کوئی حکمران خواہ کیسا ہی کیوں نہ ہو، اگر وہ بزورِ شمشیر مسلط ہو جائے تو اس کی اطاعت کرنی چاہیے۔ استغفراللہ من کل ذالک! صاف نظر آ رہا ہے کہ اس حدیث کا مدعا نسلی تفریق ختم کرنا ہے، اور دین کا میرٹ قائم کرنا ہے۔ یہاں یہ بتایا جا رہا ہے کہ اگر کوئی حکمران دینی معیار پر قائم ہے تو اس کے نسب اور دولت کو نہیں دیکھنا، بلکہ اس کی اطاعت کرنا ہے۔ یعنی امیر کا انتخاب نسب اور دولت دیکھ کر نہیں ہو گا۔ یہاں خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر دیا گیا سبق ہی دہرایا جا رہا ہے کہ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی گورے کو کالے پر کوئی فوقیت نہیں۔ یہاں وہی قرآنی سبق باور کرایا جا رہا ہے کہ دین میں معیارِ فضیلت تقویٰ و پرہیزگاری ہے، نسب اور قوم قبیلہ نہیں۔ یہاں حدیثِ پاک میں حکمران کا ’’کتاب اللہ پر چلنا‘‘ بھی بطور حکم شامل ہے۔ کتاب اللہ پر چلنے والا حکمران، اللہ کے حکم پر بھی چلے گا … اور اللہ کا حکم ہے: ’’وامرھم شوریٰ بینھم‘‘ … ’’اور ان کے کام آپس میں مشاورت سے طے پاتے ہیں‘‘۔ وہ اللہ کے اس حکم پر بھی کاربند ہو گا کہ: وشاورھم فی الامر … ’’اور اپنے امور میں مشاورت کرتے رہو۔‘‘ بزورِ شمشیر نافذ ہونے والا، کسی زور و زر سے فائز ہونے والا شخص تو کتاب اللہ پر کاربند نہیں رہا، اس کی اطاعت کیوں؟ اسلامی ممالک کی تاریخ میں مشاورت و شورائیت کے برعکس ملوکیت و شہنشاہیت کے تسلسل کا باعث یہی فکری تخریب کاری تھی۔ بادشاہوں کی اطاعت قبول کرنے کے فتاویٰ جاری کرنے والے یہ حدیث کیوں نہیں سنا پائے، جب رسول اللہﷺ نے ایک لشکر بھیجا اور ان پر ایک آدمی کو امیر مقرر فرمایا۔ اس نے آگ جلائی اور کہنے لگا: اس میں چھلانگیں لگا دو۔ کچھ لوگوں نے چھلانگیں لگانے کا ارادہ کر لیا۔ دوسرے کہنے لگے: ہم آگ سے بچنے کے لیے تو مسلمان ہوئے ہیں (لہٰذا ہم آگ میں چھلانگ نہیں لگائیں گے)۔ پھر (واپسی پر) انہوں نے رسول اللہﷺ سے اس بات کا ذکر کیا تو آپؐ نے ان لوگوں کو، جنہوں نے چھلانگ لگانے کا ارادہ کیا تھا، (مخاطب کر کے) فرمایا: ’’اگر تم آگ میں چھلانگیں لگا دیتے تو قیامت تک آگ ہی میں رہتے‘‘۔ اور دوسروں کے لیے خیر کا کلمہ کہا۔ مراد یہ ہوا کہ اپنے امیر کی اندھی اطاعت مدعائے دین نہیں۔
جمہوریت ایک طریقہ ِمشاورت ہے۔ ہم پر لازم نہیں کہ مغرب سے درآمد شدہ جمہوریت کی ہو بہو نقالی کریں۔ وہاں فقط مقدار اور تعداد پر بھروسہ کیا گیا اور الہامی ہدایت سے اعراض کیا گیا ہے، بلکہ بسا اوقات انسانی آرا کو آسمانی ہدایت پر فوقیت دیدی جاتی ہے۔ ظاہر ہے، یہ سراسر گمراہی ہے۔ طریقہِ مشاورت کو ہم اپنے دینی تقاضوں کے مطابق تشکیل دے سکتے ہیں۔ ایک مسلم ریاست میں تو یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ پارلیمنٹ قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون پاس کر سکے۔ یہاں مشاورت قرآن کے زیرِ ہدایت ہے۔ اس لیے یہاں جمہوریت کی مخالفت کرنا ملوکیت کے ہاتھ مضبوط کرنا ہے اور جمہوریت کی حمایت کرنا دینی مزاج کو رائج کرنے کے مترادف ہے۔ جمہوریت رائج ہو تو اس کی اصلاح بھی ہو۔ آمریت کی گود میں بیٹھ کر جمہوریت کی اصلاح ہونے سے رہی۔
حضرت علامہ اقبالؒ، حضرت واصف علی واصفؒ اور دیگر مشاہیرِ ملت نے جہاں جمہوریت پر تنقید کی ہے، وہاں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ کس بات پر تنقید کر رہے ہیں۔ آج کل بعض سرکاری دانشور، شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادارلوگ اقبالؒ و واصفؒ کے کچھ اشعار و مضامین سیاق و سباق کے بغیر نقل کر رہے ہیں اور ان کی تعلیمات کی روح سے انحراف کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ مشاہیر گویا جمہوریت کے مخالف تھے۔ تنقید سے پہلے ان کی تائید بھی سمجھو۔ ان کی تنقید جمہوریت کے مقداری رویوں پر ہے، وہ مادر پدر آزاد مغربی جمہوریت کے ناقد ہیں۔ وہ اپنی قوم کو اس بات پر متنبہ کر رہے ہیں کہ مغرب کی اندھا دھند تقلید میں اپنے دین کو کہیں مغربی جمہوریت کے تابع نہ کر لینا۔ معاذ اللہ! ایسا ہرگز نہیں کہ وہ جمہوریت کے مقابلے میں ملوکیت و آمریت کی حمایت کر رہے ہیں۔ یہ حکیمانِ ملت جہاں نقص دیکھتے، نصیحت کرتے اور بجا کرتے۔ اسی طرح اقبالؒ و واصفؒ خانقاہی نظام کے بھی ناقد ہیں، وہ شاہینوں کے نشیمن زاغوں کے تصرف میں دیکھ کر نوحہ کناں ہیں، وہ اس نظام میں خرابیوں کی نشاندہی کرتے ہیں … اور یہ کام اُنہی کے شایانِ شان ہے، اور وہی یہ کر سکتے ہیں … لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ اہلِ تصوف کے برعکس کوئی نظریہ رکھتے ہیں۔ اسی طرح وہ مغربی جمہوریت کو من و عن قبول کرنے پر ناقد ہیں۔ وہ مصلحین ہیں، اصلاح چاہتے ہیں۔ اقبالؒ ایسی مسلم ریاست چاہتے ہیں جہاں پارلیمنٹ اجتہاد کرے اور اہلِ دین کے جمودی رویوں کا مداوا کرے۔ ظاہر ہے پارلیمان کسی نہ کسی جمہوری عمل سے وجود میں آئے گی۔ کسی آمر کی تجویز کردہ یا تشکیل کردہ مجلسِ شوریٰ کا نام پارلیمان نہیں ہو گا۔ کسی صوفی نے بادشاہت کی مدح سرائی نہیں کی۔ وہ بادشاہوں کے محلات سے کوسوں دور رہے۔ انہیں شرکت میانِ حق و باطل ہرگز قبول نہیں۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں: ’’جب قرب ِسلطان مسلک بن جائے تو راہ ِسلوک مسدود ہو جاتی ہے۔ جب اہلِ باطن، اہل ِثروت کا تزکیہ نہ کریں تو اُن کا تقرّب حرام ہے۔ جب فقراء اِسلامی ملک میں بھی اِخفا سے کام لیں تو مصلحت اندیشی ہے اور مصلحت اندیش، درویش نہیں ہو سکتا‘‘۔
جمہوریت کے حق میں اس سے بڑھ کر کیا سند ہو سکتی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’تمہارے بہترین حکمران وہ ہوں گے جو تمہیں محبوب ہوں اور تم ان کو محبوب ہو، تم ان کے لیے دعا گو ہو اور وہ تمہارے لیے دعا گو ہوں۔ جبکہ تمہارے بدترین حکمران وہ ہیں جو تمہیں مبغوض ہوں اور تم ان کو مبغوض ہو، تم ان پر لعنتیں کرو اور وہ تم پر لعنتیں کریں‘‘۔ ملوکیت و آمریت کے خلاف اس سے بڑی اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’افضل ترین جہاد جابر حکمران کے سامنے کلمہِ حق کہنا ہے‘‘۔
بزورِ شمشیر مسلط ہونے والے حکمران کے حق میں فتویٰ جاری کرنے والے مفتیوں کی تاویل یہ ہے کہ ایسا اس لیے کہا جاتا ہے، تا کہ مملکت میں امن قائم رہے، خروج اور شورش نہ ہو۔ سبحان اللہ! مظلوموں کی خاموشی کو امن کا نام دے کر بہت بھاری قیمت وصول کی ہے!
یا اولی الباب! جس معاشرے میں جمہوریت نافذ ہو جائے، مقتدر ادارے جمہوری رویے قبول لیں، وہاں خروج نہیں ہوتا، شورش اور بغاوت نہیں ہوتی، وہاں امن اور سکون ہوتا ہے۔ جمہوریت … اَمن اور سلامتی کی ضمانت ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں