خدائے عشق کی گدائی

خدائے عشق کی گدائی
شاد مردانوی

روحی جی۔۔۔!!!!
تو تم مجھے بتاؤ…!

Advertisements
julia rana solicitors

میں تمہیں کیوں نہ تکلم کی جکڑن کا بندی بناؤں؟
تم جب کہ مانسونی رُتوں میں ٹپٹپاتی نرکل اور پھونس کے چھپروں میں سوکھا چھپر ہو.
تمہارے شریر کی پوترتا اور نرملی نے میرے تخیل کی اتھاہ سفلی امنگوں کو کسی مہین چھاج کی تریوں چھان کے محتشم اور باوقار تصورات کی ایک مقدس گپھا بنادیا.
تمہیں جب کبھی میری آنکھ نے اپنے پردے پر اتارا. تم نے کب جانا کہ پتلی سے دماغ کے عقبی خانے تک عکس کا یہ سفر کیسا خوش کن تجربہ ہوتا ہے…
میں کیوں نہ تمہیں اپنے تکلم کا زندانی نہ چُنوں..؟
کہ تکلم کے تمامی حروف تمہارے پردہ سماعت پر پہنچ کر داؤدی لے پر رشک کرنا چھوڑدیتے ہیں. میرے الفاظ جو میری زبان سے ادا ہوتے سمے بے بضاعت تھے. جب تیرے گوش گزار ہوئے تو گل وگلزار ہوئے. اپنے نصیبے پر نازاں ہوئے..
میرا حرف حرف تمہارے خیال کے افق پر یوں لہلہاتا ہے جیسے سرسوں کے چمپئی پھول ہوا کے مست جھونکوں پر تھراتے ہیں.
تم لیکن آج یہ سن کر ان کھلی کلی کی مانند خود میں سمٹ مت جانا.
تم مگر اس سمے کی اس ناخوش کن صداقت سے ناگواری کو دبیز شال کی مثل خود کو اوڑھا مت دینا.
تم کہ جانتی ہو تمہارا شاد اس ڈالی پر آرا چلانا من بھاتا مشغلہ مانتا ہے جس پر اس کے وجود کا تکیہ ہو. تم سے مدامی اس کی گفت اور اس کی شنید کا اکثری نکتہ وہ بے اعتدالیاں رہی ہیں جو تمہارے سوا کی لڑکیوں کے ساتھ اس نے شجرِ عیش کی ڈالیوں سے خوشہ چینی کی ہے.
تو آج بھی تم میرے نہاں خانہ دل سے میرے تصور کی راجدھانی میں اس لئے بلائی گئی ہو کہ وہ جو تمہارے بعد آئی تھی. اور پھر ایک موقع پر دھتکاری گئی تھی. اس کے ہاتھ آج میں نے پھر پھیلے دیکھے. اور دھتکارنے اور ہاتھ پھیلانے کے اس عہدِ فترت میں پلوں کے نہچے بہت پانی بہا.
اور میں نے ایک گری پڑی رحمدلی سے، ایک ایسی ہمدردی سے اس کی جھولی میں کچھ لمحے ڈال دئیے. جو ہمدردی ایک مرد کی ہوس کو چھپاتی تھی. اور جو لمحے تمہارے لئے مختص تھے.
تم کتنی اچھی ہو. تم ادبداکر بھی کبھی نہیں روٹھی. کبھی میرے پردہ خیال سے اپنا سیمیں بدن تم نے کترنے کی چتاؤنی نہیں دی.
تم تھی تم ہو اور تم ہوگی.

Facebook Comments

شاد مردانوی
خیال کے بھرے بھرے وجود پر جامہ لفظ کی چستی سے نالاں، اضطراری شعر گو

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply