متاعِ گم گشتہ

متاعِ گم گشتہ
طفیل ہاشمی
آج ہم جہاں کھڑے ہیں اس کے پیچھے شاید کروڑوں سالوں کا انسانی تہذیب کا اثاثہ ہے. عہد براہیمی سے قبل کی تاریخ لا علمی کے اندھیرے میں چھپی ہوئی ہے. انسانی تہذیب کے ارتقا میں ہر عہداور ہر خطے کے لوگوں نے اپنا حصہ ڈالا اور کامیاب رہے. وہ لوگ جنہوں نے ارتقا کے آخری سرے کو پکڑ کر وہاں سے آگے بڑھنا شروع کر دیا. معلوم تاریخ میں یونان، مصر اسکندریہ، اور ہند میں انسانی تہذیب ترقی کے بلند ترین معیار پر تھی، ان کے بعد جب تاریخ کی زمام مسلمانوں کے ہاتھ میں آئی تو انہوں نے اس کی آخری ترقی یافتہ شکل کو لے کر اس پر اضافے شروع کر دئیے اور کئی سو سال اس کی پرورش کی، وہیں سے مغرب نے اس کا آخری سرا پکڑا اور اسے آگے بڑھانے میں جت گیا.
آج ہم تسخیر کائنات کے ناقابل تصور مقام پر کھڑے ہیں لیکن اگر ہم اسے مغرب کی تہذیب کہہ کر رد کریں گے تو واپس غاروں میں چلے جائیں گے. یہ پوری انسانیت کا مشترک اثاثہ ہے اور اس کی پرورش میں ہم نے بھی خون جگر جلایا ہے. اس پر ہمارا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا مغرب یا کسی دوسری قوم کا ہے. کسی بھی انسانی ورثے کو کسی قوم کی طرف منسوب کر کے اسے ترک کرنے کی تلقین کرنا جہالت اور بے نصیبی کے سوا کچھ نہیں البتہ جس طرح درخت ارتقائی مراحل میں بےمصرف برگ و بار اٹھا لیتے ہیں یا انسان کے بال ناخن وغیرہ بڑھ جاتے ہیں اسی طرح تہذیب میں بھی کچھ ایسے عناصر شامل ہو جاتے ہیں جو ما ینفع الناس کے زمرے میں نہیں آتے, صرف انہیں کو الگ کرنا ہوتا ہے. مغرب میں مدون بے شمار قوانین، ادارے، نظام اسی زمرے میں آتے ہیں کہ وہ مشترکہ انسانی اثاثے ہیں اور تزئین گلستاں میں ہمارا خون بھی شامل رہا ہے اس لئے جہاں آپ کھڑے ہیں اور جن قوتوں کے مالک ہیں، جو خزانے آپ کے پاس آ چکے ہیں انہیں دوسروں کا مال کہہ کر رد کرنے کے بجائے اپنی متاع گم گشتہ سمجھ کر اس میں اضافے کی سعی کریں.
ایک مثال سے واضح کرنے کی کوشش کرتا ہوں
ہمارے ملک میں شور قیامت برپا رہا کہ ملک میں غیر اسلامی قوانین رائج ہیں اور پاکستان اسلام کے لیے معرض وجود میں آیا تھا اور جو اسلام سے ہٹ کر فیصلہ کرے گا وہ کافر…. ظالم… اور… فاسق ہے.
اسی پس منظر میں ایک بار ہم نے فیڈرل شریعت کورٹ میں پاکستان پینل کوڈ کا مطالعہ شروع کیا کہ جو دفعات "کتاب و سنت" کے خلاف ہیں ان کو تبدیل کرنے کی سفارش کی جائے. اس ٹیم میں میرے اور ڈاکٹر غازی صاحب کے علاوہ اور بھی متعدد احباب تھے، دوران مطالعہ یہ تو سامنے آیا کہ کئی دفعات مثلاً فقہ حنفی کے مطابق نہیں یا کسی دوسری فقہ کے مطابق نہیں لیکن یہ کہ کوئی دفعہ قطعاً کتاب و سنت کے خلاف ہو، شاید ہی کوئی ایسی دفعہ نکلی ہو. مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ یہ قانون جو یہاں برٹش پینل کوڈ کے تحت رائج تھا اس کی ہر دفعہ کسی نہ کسی اسلامی فقہ سے ہم آہنگ ہے. مزید تحقیق پر معلوم ہوا کہ اس کی کئی صدیاں پہلے ہونے والی تدوین میں فقہ مالکی کے سکالرز بھی شریک رہے۔
مثال کے طور پر مغرب کی جمہوریت اور بنیادی انسانی حقوق کا تصور ہے. ہمارے ہاں دینی حلقے بلکہ مذہبی سیاسی جماعتیں بھی انہیں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے کافرانہ نظام زندگی کے مظاہر سمجھتی ہیں لیکن ایک لمحے کے لیے غیر جانب داری سے سوچئے، جمہوریت جس کی اساس مشاورت ہے، وہ تو ہماری تخلیق سے بھی مقدم ہے. کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ آدم و حوا نے باہمی مشاورت اور رضا مندی کے بغیر عائلی اور سماجی زندگی کا آغاز کیا ہوگا. معلوم تاریخ میں آغاز سے ہی جن معاشروں میں ذمہ داری کی تقسیم کا عنصر تھا، اور وہ ہر معاشرے میں تھا، وہاں کسی نہ کسی حد تک مشاورت اور دوسروں کے حقوق کا تصور موجود تھا. یونان و روما کے دساتیر اور عہد نامہ قدیم اس کے گواہ ہیں. اسلام نے انہیں مزید نکھار دیا اور انہیں نصوص قطعیہ کی اساس مہیا کر دی. مغرب نے انہیں افکار کو آگے بڑھایا اور ان میں کہیں تو نکھار پیدا کر دیا اور کہیں کہیں خیر و شر یا حسن و قبح کے معیار مقرر کرنے میں ہمارے حوالے سے ان کی فکر میں انحراف پیدا ہو گیا. پس بجائے اس کے کہ ہم اس سارے فکر و فلسفہ کے خلاف داعش بن جائیں ہمیں صرف انحرافی امور کو الگ کرکے باقی خوبصورتی کو اپنا لینا چاہئیے، جیسا کہ اسلام نے دور جاہلیت کے سماج میں سے معروف کو اپنا طرز عمل بنانے سے گریز نہیں کیا. یہی مشترکہ انسانی ورثہ ہے اور ہماری متاع گم گشتہ.

Facebook Comments

ڈاکٹر طفیل ہاشمی
استاد، ماہر علوم اسلامی، محبتوںکا امین

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply