پوچھنا فرض کرنے سے بہتر ہے۔۔ مرزا مدثر نواز

کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں ایک نوجوان قسطنطنیہ کے ساحل پر اترا، اس کی پیشانی سے نور ٹپکتا تھا۔ لوگ اس کی عزت کو دوڑے اور اسے مسجد میں لے جا کر ٹھہرا دیا۔ وہ نوجوان کافی عرصے تک مسجد کے حجرے میں بطور مہمان قیام پذیر رہا۔ ایک روز اس کا آمنا سامنا امام مسجد سے ہوا تو امام صاحب نے اس نوجوان کو مخاطب کر کے کہا: اے نوجوان ! تمھیں یہاں کام کاج تو کوئی ہوتا نہیں کیا ہی اچھا ہو جو تم اس مسجد سے کوڑا کرکٹ ہی صاف کر دیا کرو۔ وہ نوجوان امام صاحب کی بات سن کر مسجد کے حجرے سے ایسا غائب ہوا کہ پھر کسی کو نظر نہ آیا۔ ایک روز امام صاحب بازار سے گزر رہے تھے کہ اسی نوجوان پر نظر پڑی وہ اس کے قریب جا کر رک گئے اور اسے کام چور اور نکما کہا۔ پھر پوچھا تم غائب کہاں ہو گئے تھے؟ نوجوان نے بڑے ادب سے جواب دیا‘ مولوی صاحب ! سچ تو یہ ہے کہ مجھے مسجد میں اپنے سوا کہیں کوڑا کرکٹ نظر نہ آیا تو میں نے خانہ خدا کو اپنے وجود کی گندگی سے پاک کرنے کے لیے مسجد ہی چھوڑ دی۔ کیا حجرہ دل کی صفائی مسجد کے حجرے کی صفائی سے زیادہ ضروری نہیں ہوتی؟ امام صاحب نے اس نوجوان کی بات سنی تو لاجواب ہو گئے۔

عام مشاہدہ ہے کہ ہم کسی بھی معاملے میں دوسروں کے بارے میں بہت سی باتیں فرض کر لیتے ہیں کہ فلاں ایسا ہے، اس نے ایسا ہی کیا ہو گا، سارا قصور اسی کا ہے، وہ تو ہے ہی ایسا ، اس نے ہی کہا ہو گا ،ہر کام میں اسی کا ہاتھ ہوتا ہے ، ساری سازشیں وہی کرتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ اگر ہم حقیقت سے واقف ہو نے کی کوشش کریں اور متعلقہ شخص سے خود وضاحت طلب کریں تو 9۔99 فیصد مفروضہ کے الٹ ہو تا ہے اور حقیقت کچھ اور ہی ہوتی ہے۔ سنی سنائی بات کے مطابق اگر ہم اپنی رائے قائم کر لیں تو عرصۂ دراز مخالفت در مخالفت ، حسد، بغض اور غیبت جیسی بیماریاں پھلتی پھولتی رہتی ہیں۔ خاندانی چپقلش، کھینچا تانی، لڑائی جھگڑے کی زیادہ تر وجوہات غلط فہمیاں اور مفروضات ہو تے ہیں۔ بالواسطہ کی بجائے بلاواسطہ اصل کی تہہ تک پہنچا جائے تو کافی حد تک تنازعات اور غلط گمانیوں سے بچا جا سکتا ہے‘ایک دوسرے کی بات کرنے کی بجائے ایک دوسرے سے بات کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی ہمیں سنی سنائی باتوں پر یقین کرنے اور بد گمانی سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے،
ترجمہ: اے مسلمانو! اگر تمھیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دوپھر اپنے کیے پر پشیمانی اٹھاؤ۔ (الحجرات،۶)
ترجمہ: اے ایمان والو! بہت بد گمانیوں سے بچو یقین مانو کہ بعض بد گمانیاں گناہ ہیں اور بھید نہ ٹٹولا کرواور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے۔ (الحجرات،۱۲)

برا آدمی کسی کے ساتھ نیک گمان نہیں رکھتا کیونکہ وہ ہر ایک کو اپنے جیسا خیال کرتا ہے جبکہ عقل و فہم والے اور نیک لوگ کبھی بھی کسی کے بارے میں غلط گمان نہیں رکھتے نہ ہی کان کے کچے ہو تے ہیں اور یہی ان کی کامیابی کی نشانی ہو تی ہے۔ ایک کامیاب بزنس مین سے کسی نے پوچھا کہ آپ کی کامیابی کا راز کیا ہے۔ تو اس نے کہا کہ کامیابی کا راز میں نے بچپن میں ایک واقعہ سے سیکھا تھا۔ میرے دادا جان کا سیب کا باغ تھا۔ سکول کی چھٹیوں میں ہم دادا جان کے ساتھ باغ میں چلے جاتے تھے۔ وہ ہمیں ایسے سیب کھانے کو دیتے تھے جن پر پرندوں نے اپنی چونچیں ماری ہو تی تھیں۔ میں سوچتا تھا کہ جو سیب خراب ہوتے ہیں ، گلے سڑے ہوتے ہیں، پرندوں کے منہ لگے ہوتے ہیں، دادا جان ہمیں وہ سیب دیتے ہیں اچھے سیب کیوں نہیں دیتے۔دادا ہمارا بہت ہی کنجوس ہے۔ایک دن میں نے ڈرتے ڈرتے دادا سے پوچھ ہی لیا کہ ہم آپ کے پوتے پوتیاں ہیں کوئی غیر نہیں پھر آپ ہمیں کیوں اچھے سیب کھانے کو نہیں دیتے۔ ہمیشہ پرندوں کے جھوٹھے سیب دیتے ہیں۔

دادا نے شفقت سے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا بیٹا ایسی بات نہیں۔ جو سیب اچھی طرح پک جاتے ہیں پرندے ہمیشہ انہی پر اپنی چونچ مارتے ہیں کبھی بھی کچے پھل کو پرندہ کھانے کی کوشش نہیں کرتا۔وہ سیب کیونکہ اچھی طرح پکے ہوتے ہیں اس لیے میں ایسے سیب آپ کو چن چن کر دیتا ہوں تاکہ ایسے سیب کھانے سے میرے پوتے پوتیوں کے پیٹ میں درد نہ ہو۔میں نے یہ بات سنی تو اسی دن سے اپنی زندگی کا اصول بنا لیا کہ کبھی بھی کسی بات کو میں نے فرض نہیں کر نا،ہمیشہ اس کے متعلق پوچھنا اور تحقیق کرنی ہے۔ یہی میری کامیابی کا راز ہے کہ “Never assume, always ask”۔

Advertisements
julia rana solicitors

لہٰذا غلط فہمیاں پیدا ہو جائیں تو ان کو دور کر لینا چاہیے کیونکہ اگر غلط فہمیاں دور نہ کی جائیں تو یہ نفرتوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں اور نفرت دل کا پاگل پن ہے ۔ دفتری ماحول میں بھی حسد، بغض، پسند نا پسند کی بنا پر غلط گمانی اور مفروضات کی بیماری عام ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ حاسدین کی ریشہ دوانیوں ، من گھڑت قصوں، محلاتی سازشوں اور بے جا الزامات کو بنیاد بنا کر حکمرانوں نے اپنے مخلص ساتھیوں کے قتل کا حکم صادر کیا اور بعد میں حقیقت آشکار ہونے پر سوائے پچھتاوے کے کچھ نہ پایا۔ایک اچھا مینجر سنتا سب کی ہے لیکن کبھی بھی کسی کے بارے میں غلط رائے قائم نہیں کرتا تاوقتیکہ متعلقہ شخص سے خود وضاحت طلب نہ کر لے اور اصل صورتحال سے خود واقف نہ ہو جائے۔

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
پی ٹی سی ایل میں اسسٹنٹ مینجر۔ ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply