کیا غیر مسلم جنت میں جا سکتا ہے؟ عظیم عثمانی

بحیثیت قرآن حکیم کے طالبعلم جس بات کے ہم قائل ہیں وہ یہ ہے کہ کم از کم تین چنیدہ اور بنیادی حقائق ایسے ہیں جن کا شعور ہماری فطرت میں پیوست یعنی ودیعت کردیا گیا ہے. ان حقائق کے ضمن میں ہر صاحب عقل شخص سے اس کے اپنے حالات و مواقع کے مطابق جواب دہی ضرور ہوگی. اس کے علاوہ جو دیگر حقائق و اعمال ہیں جیسے ملائکہ پر ایمان، رسالت پر ایمان، شرعی احکام و عبادات کی ادائیگی وغیرہ. ان کی جوابدہی پیغام پہنچنے اور واضح ہونے سے مشروط ہے. وجہ وہی کہ ان سب کا شعور ہمیں داخل سے نہیں خارج کی معلومات سے حاصل ہوتا ہے. جب کہ ان تین بنیادی حقائق کا شعور ہمیں باطن ہی سے مل جاتا ہے. یہ تین حقائق  کون سے ہیں؟ ان کا بیان کم از کم دو مقامات پر کم و بیش ایک سے الفاظ میں کیا گیا ہے. سورہ البقرہ کی آیات ٦١ سے ٦٣ ملاحظہ کیجیئے:

“جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست، (یعنی کوئی شخص کسی قوم و مذہب کا ہو) جو اللہ (یعنی ایک خدا) اور روز قیامت (یعنی اعمال کی جزا و سزا) پر ایمان لائے گا، اور نیک عمل کرے گا، تو ایسے لوگوں کو ان (کے اعمال) کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا اور (قیامت کے دن) ان کو نہ کسی طرح کا خوف ہوگا اور نہ وہ غم ناک ہوں گے”

گویا اہل ایمان کے ساتھ تمام دیگر موجود مذاہب کے حاملین کو ایک قطار میں کھڑا کر کے کہا جارہا ہے کہ جو درج ذیل تین باتوں پر ایمان لائے گا اور اس کے مطابق عمل کرے گا، اسے روز قیامت نہ کوئی خوف ہوگا نہ ہی کوئی غم. یہ وہ تین عقائد ہیں جو اسلام کا پیغام نہ پہنچنے کے باوجود ہر انسان کو ماننے ہوں گے. چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب یا طبقہ فکر سے ہو۔

١۔ ایک خدا پر ایمان
٢. سزا و جزا پر ایمان
٣. نیک عمل

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بناء اسلام کا پیغام پہنچے ان تین باتوں پر ایمان و عمل کا تقاضہ کیا زیادتی نہیں؟ تو ہرگز زیادتی نہیں ہے. وجہ وہی جو ہم نے ابتداء ہی میں بیان کی کہ ان تینوں باتوں کا احساس و شعور ہماری فطرت میں ودیعت کردیا گیا ہے. گویا ان تینوں باتوں کو ماننے اور عمل کرنے کے لئے  آپ تک کسی مذہب، شریعت، کتاب یا رسول کا پہنچنا نہ پہنچنا ضروری نہیں. کتاب اللہ اس ضمن میں فقط آپ کو یاد دہانی (ذکر) کرواتی ہے اور یاددہانی اسی بات کی کروائی جاتی ہے جو اپنی حقیقت کے اعتبار سے آپ پہلے سے جانتے ہوں. ان تینوں باتوں کا ایک مختصر سا جائزہ لے لیتے ہیں کہ کس طرح یہ ہماری فطرت میں پیوست ہیں؟ اگر نہیں، پھر تو یہ ایسا ہے کہ ایک شخص کو پیاس نہ لگی ہو اور آپ زبردستی اسے پانی پلانے لگیں. ایسے میں اس کا جسم پانی اگل دے گا کیونکہ اس میں طلب ہی نہیں ہے.

1۔ایک خدا پر ایمان

سب سے پہلی شرط اللہ پر ایمان یعنی ایک خدا پر ایمان. جائزہ لیجیئے کہ کیا انسان میں واقعی ایک خالق کی پیاس ہے ؟ کیا اس کی فطرت اپنا پروردگار طلب کرتی ہے؟ تاریخ انسانی اس بات پر گواہ ہے کہ انسان نے ہر دور میں اور ہر علاقے میں ایک برتر ہستی کے تصور کو تسلیم کیا ہے. ایک ثابت شدہ  چیز کو ثابت نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے رد کرنے والے سے استدلال طلب کیا جاتا ہے. انسانیت کی عدالت نے تاریخی اعتبار سے خدا کے وجود میں پیش  کیے   جانے والے مقدمے کو قبول کیا ہے، اب آپ لاکھ ان ثبوت و دلائل کا انکار کریں، اس تاریخی سچ کو بدلنے کی آپ کی حیثیت نہیں ہے. یہ دعویٰ انسانیت نے ہر دور میں اجتماعی  حثییت سے قبول کیا ہے، اب اگر کچھ سر پھرے اٹھتے ہیں اور انسانیت کے اس متفقہ فیصلے کو رد کرتے ہیں تو ان سے پوچھا جاۓ گا کہ استدلال پیش کریں . یہ با لکل ایسا ہی ہے جیسے انسان یہ خوب جانتا ہے کہ ممتا کا جذبہ ماں میں الہامی طور پر ودیعت شدہ ہے ، اس کا اظہار مختلف ماحول میں مختلف طریق سے ہوسکتا ہے مگر اس جذبے کا فطری ہونا سب کو قبول ہے.

اسی طرح ایک خالق کا تصور ہمیشہ ہر ماحول میں انسانیت کا مشترکہ اثاثہ رہا ہے، اسے کبھی اللہ، کبھی خدا، کبھی گاڈ، کبھی پرماتما اور کبھی آسمانی باپ کہہ کر پکارا گیا. حد تو یہ ہے کہ آج کا جدید ذہن جسے خدا کے تصور سے بھی الرجی ہے، وہ بھی آج ‘سپریم انٹیلجنس’ یا ‘ کولیکٹیو کانشئیس نیس’ جیسی دلفریب اصطلاحات ایجاد کرکے اسی کی توجیہہ پیش کرتا نظر آتا ہے. نام جو بھی دیں  مگر  ایک  برتر ہستی کے تصور کو انسانیت نے ہمیشہ آگے بڑھ کر قبول کیا.  ” کہہ دو  کہ اسے اللہ کہہ کر پکارو یا رحمٰن کہہ کر، جس نام سے بھی پکارو،سارے اچھے نام اسی کے ہیں”(بنی اسرائیل:۱۱۰:۱۷). تصور خدا کی کونپل فطرت کی گود میں پروان چڑھتی ہے یہ اندر سے باہر کا سفر کرتی ہے.

یہی وجہ ہے کہ ایک بچہ چاہے وہ امریکہ میں پیدا ہوا ہو یا پاکستان میں ، چین سے تعلق رکھتا ہو  یا افریقہ کے زولو قبیلے سے ۔ وہ اپنے والدین سے بچپن میں یہ سوال ضرور کرتا ہے کہ مجھے کس نے بنایا ؟ یا میں کہاں سے آیا؟ آپ اسے کہتے ہیں کہ میں نے تمہیں درخت سے توڑ لیا یا ایک فرشتہ ہمیں دے گیا یا مارکیٹ سے خرید لیا. آپ اس بچے کو مطمئن کرنے کے لئے جو بھی جواب دیں، مگر اس کا یہ معصوم سوال اس حقیقت کا اعلان کر رہا ہے کہ خدا کے وجود کی طلب انسان کے اندر فطری طور پر موجود ہے . انسانی رویوں پر کی جانے والی بہت سی تحقیقات ، جن میں آکسفورڈ یونیورسٹی کی حالیہ تحقیق بھی شامل ہے ، وہ سب یہی بتاتی ہیں کہ انسان میں فطری و جبلی طور پر ایسے داعیات موجود ہیں جو اسے ایک خدا پر ایمان رکھنے پر آمادہ کرتے ہیں.

تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ سخت ترین ملحد بھی انتہائی مشکل حالت میں بے اختیار ایک برتر ہستی کو پکار اٹھتا ہے. گویا انسان الہامی پیغام نہ پہنچنے پریا الہامی پیغام نہ واضح ہونے پر مذہب کا انکار تو کر سکتا ہے مگر خدا کے وجود کا نہیں. قرآن  حکیم کے بیان کے مطابق اس جسدی وجود کے حصول سے قبل ہم سب انسانوں کی ارواح یا نفوس نے اللہ کے رب ہونے کی گواہی دی ہے. اس مکالمے کا احساس ہماری جسمانی یاداشت سے ضرور محو کردیا گیا ہے مگر ہماری روح اور فطرت آج بھی پکار پکار کر ہمیں ہمارا جواب یاد دلا رہی ہے. سورہ الاعراف کی ١٧٢ آیت ملاحظہ ہو:

“اور اے نبی(ص)، لوگوں کو یاد دلاؤ وہ وقت جبکہ تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا “کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟” انہوں نے کہا “ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں، ہم اس پر گواہی دیتے ہیں” یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ دو کہ “ہم تو اس بات سے بے خبر تھے،”

2۔سزا و جزا پر ایمان

دوسری شرط بعد از موت خدا کے سامنے اپنے اعمال کی جواب دہی کا احساس ہے. یہ تقاضہ بھی انسان کے اندر موجود ہے کہ اچھائی کا بدلہ اچھا اور برائی کا بدلہ برا نکلتا ہے. انسان زمانہ طفلی سے یہ چاہتا ہے کہ اس کی اچھائی یا کامیابی کو سراہا جائے اور کوئی زیادتی کرے تو اسے سزا دی جائے. اسی کو مدنظر رکھ کر والدین سے لے کر اساتذہ تک انعام کے   لالچ اور سزا کے  خوف کو بطور آزمودہ طریق استعمال کرتے ہیں. یہی تقاضہ ہے جس کی بنیاد پر انسان عدالت سے لے کر پولیس تک کے نظام قائم کرتا ہے. جیل سمیت دیگر سزاؤں کا نفاذ کرتا ہے.

اس دنیا میں مکمل انصاف کا تصور بھی ناممکن ہے. یہاں تو مشاہدہ یہ ہے کہ ظالم طاقت و اقتدار کے نشے میں چور رہتا ہے اور مظلوم، استبداد کی چکی میں پستا ہی جاتا ہے. یہاں اکثر حرام کھانے والا عیاشیوں کا مزہ لوٹتا ہے اور محنت کش پر زندگی کی بنیادی ضروریات بھی تنگ ہو جاتی ہیں. کتنے ہی مجرم، فسادی اور قاتل کسی عدالت کی پکڑ میں نہیں آتے. ایک مثال لیں، اگر ایک بوڑھا شخص کسی نوجوان کو قتل کردیتا ہے اور مان لیں کہ وہ پکڑا بھی جاتا ہے. عدالت اسے ا س کے  جرم کی بنیاد  پر سزاۓ موت بھی نافذ  کردیتی ہے.

اب سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ انصاف ہے ؟ کہنے کو تو قاتل کو قتل کے بدلے میں قتل کردیا گیا ؟ مگر کیا یہی انصاف کی مکمل صورت ہے ؟ قاتل تو ایک بوڑھا شخص تھا ، جو اپنی زندگی گزار چکا تھا. جبکہ مقتول ایک نوجوان تھا ، اس کی پوری زندگی اس کے سامنے تھی. ممکن ہے کہ اس کی اچانک موت سے اس کی بیوی بے گھر ہوجاۓ ، اس کے یتیم بچے باپ کا سایہ نہ ہونے سے آوارگی اختیار کرلیں. کیا یہی حقیقی انصاف ہے؟ ظاہر ہے کہ نہیں. یہی وہ صورتحال ہے جو انسان میں یہ فطری و عقلی تقاضا  پیدا کرتی ہے کہ کوئی ایسی دنیا و عدالت برپا ہو جہاں انصاف اپنے اکمل ترین درجے میں حاصل ہو. جہاں بد کو اس کی بدی کا اور نیک کو اس کی نیکی کا پورا پورا بدلہ مل سکے. دین اسی عدالت کی خبر روز حساب کے نام سے دیتا ہے اور اسی دنیا کی بشارت جنت و دوزخ سے دیتا ہے. اب کوئی اسے جنت جہنم کہے، نرگ سورگ پکارے، ھیون ھیل کا نام دے، مواکشا، نروان یا پھر پنر جنم سے اس کی توجیہہ کرے. سب درحقیقت اسی ‘جواب دہی کے احساس’ یعنی ‘سینس آف اکاونٹیبلیٹی’ کے روپ ہیں.

انسان کی فطرت ایسی ہے کہ وہ مجموعی اعتبار سے کبھی بھی ناممکن کا تقاضہ نہیں کرتا. یعنی وہ یہ دعا ہرکز نہیں کرتا کہ اس کے دو کی جگہ چار ہاتھ نکل آئیں، وہ یہ تمنا نہیں رکھتا کہ کاش ! دو اور دو چار نہ ہوتے بلکہ  پانچ ہوتے. مگر کیا یہ عجب نہیں ہے؟ کہ یہی انسان فطری طور پر تمنا رکھتا ہے کہ اسے موت نہ پکڑے، وہ ہمیشہ کی زندگی جیے . اسے بیماری نہ ستائے ، وہ ہمیشہ صحت سے بھرپور رہے. اس پر بڑھاپا نہ سوار ہو، وہ ہمیشہ جوانی کے شباب میں رہے. یہ تقاضے اس لیے ہماری فطرت میں موجود ہیں کہ بھلے اس دنیا میں ان کی تعبیر ناممکن محسوس ہو لیکن ایک اور دنیا ایسی ضرور سجائی جائے گی جہاں ان فطری تقاضوں کی تکمیل ہوگی. دین اسی دنیا کی بشارت دیتا ہے

سورہ الاحزاب کی ان ٧١ سے ٧٣ آیات پر غور کیجیئے

إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا

“ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو وہ اُسے اٹھانے کے لیے تیار نہ ہوئے اور اس سے ڈر گئے، مگر انسان نے اسے اٹھا لیا، بے شک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے”

لفظ امانت کے بارے میں اہل علم اختلاف کرتے ہیں مگر معنی جو بھی اخذ کیے  جائیں، اتنا ظاہر ہے کہ اس امانت کا بار جس کی جواب دہی کا احساس آج بھی ہمارے لاشعور میں پیوست ہے انسانیت نے خود قبول کیا ہے

٣. نیک عمل

خیر و شر کا تعین بھی ہماری فطرت میں ودیعت شدہ ہے. سورہ الشمس میں ارشاد باری تعالی ہے {فَأَلْہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَتَقْوَاہَا: ہم نے ا نسان پر اس کی نیکی و بدی کو الہام کردیا ہے-} گویا نیکی اور بدی کا بنیادی شعور ہم سب انسانوں میں موجود ہے. یہی وجہ ہے کہ پوری انسانیت کی تاریخ دیکھ لیجیئے، بناء تخصیص رنگ، نسل، مذھب آپ کو نظر آئے گا کہ انسان ہمیشہ یہ جانتا ہے کہ سچ بولنا اچھا اور جھوٹ بولنا برا ہے. کسی مظلوم کی مدد کرنا،کسی روتے کو ہنسانا، کسی بھوکے کو کھلانا اعلیٰ اوصاف اور کسی کا حق مارنا،ناحق قتل کرنا، کسی کو دکھ دینا برے اعمال ہیں. دنیا بھر کا جسٹس سسٹم کچھ معاشرتی اقدار کے علاوہ اپنی اصل میں ان ہی بنیادی قدروں سے پھوٹنے والی جزیات کا بیان ہے. یہ البتہ سچ ہے کہ الہامی کتب ہوں یا دیگر فلسفے ان سے اضافی اعمال بھی اس فہرست میں شامل ہوتے جاتے ہیں۔

یہ وہ مختصر بیان ہے جس سے ایک طالبعلم یہ سمجھ سکتا ہے کہ کیوں ان تین باتوں پر ایمان و عمل مذہب کے پہنچنے سے مشروط نہیں ہے. یہاں یہ بھی سمجھ لیجیئے کہ مسلمانوں کی اکثریت کی سمجھ ہماری اس پیش کردہ سمجھ کی موافقت میں نہیں ہے. ان کا نظریہ ٹھیک وہی ہے جو دیگر مذاہب کے نام لیوا اختیار کرتے آئے ہیں اور وہ یہ کہ ان کے ہم مذہبوں کے سوا کسی اور کی مجال نہیں کہ وہ جنت میں داخل ہوسکے.اس ضمن میں دوسری رائے کے علمبردار مسلمان علماء سب سے پہلے ہماری پیش کردہ آیت سمیت اسی موضوع کی دیگر آیات کی یہ تاویل کرتے ہیں کہ ان کا اطلاق شریعت محمدی صلی اللہ علیہوسلم سے قبل کے مسلمانوں کے واسطے ہے. گو راقم نے بحیثیت قران حکیم کے طالبعلم کے ایسا کوئی واضح قرینہ نہیں پایا جس سے اس دعوے کی صحت کو تسلیم کرسکے. پھر وہ اس آیت کو پیش کرکے جنت میں داخلہ قبولیت اسلام پر منحصر قرار دیتے ہیں.

’’اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے ۔ ۔ ۔ اور جس نے اسلام کے سوا کوئی دوسرا دین چاہا تو وہ اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ نامرادوں میں سے ہو گا۔‘‘ ، (آل عمران3: 19 ، 85)

قران حکیم کے مزاج اور دیگر مقامات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم اس آیت کے عمومی اطلاق کے تو قائل ہیں مگر صرف اس وقت تک جب تک دین اسلام ایک شخص پر واضح انداز میں پہنچ جائے. دوسرے الفاظ میں اس پر اتمام حجت ہوجائے. اس کے بعد اگر وہ یہ سمجھتا ہے کہ دین اسلام کی بجائے وہ کسی دوسرے دین کو پیش کرکے نجات پالے گا تو یہ صریح غلط فہمی ہے اور اس کا رویہ کھلا کفر ہے. اگر پیغام پہنچا ہی نہیں یا درست طور پر نہیں پہنچا یا اسے تحقیق کے لئے  جو مواقع و رغبت درکار ہے وہ حاصل نہیں ہوئی تو ایسے انسان کو ہم معذور خیال کریں گے. ہمارا رب بہترین منصف ہے اور یہ انصاف اس کی بہترین صورت میں روز جزا ہم مشاہدہ کرسکیں گے ان شاء اللہ. واللہ اعلم بلصواب۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ: یہ ہماری ناقص سمجھ ہے جس میں غلطی کا امکان ہے. قاری کو چاہیے کہ وہ دونوں جانب کے دلائل کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کرکے ہماری اس رائے کو قبول یا رد کردے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”کیا غیر مسلم جنت میں جا سکتا ہے؟ عظیم عثمانی

  1. اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے ۔ ۔ ۔ اور جس نے اسلام کے سوا کوئی دوسرا دین چاہا تو وہ اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ نامرادوں میں سے ہو گا۔‘‘ ، (آل عمران3: 19 ، 85)

    قران حکیم کے مزاج اور دیگر مقامات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم اس آیت کے عمومی اطلاق کے تو قائل ہیں مگر صرف اس وقت تک جب تک دین اسلام ایک شخص پر واضح انداز میں پہنچ جائے. دوسرے الفاظ میں اس پر اتمام حجت ہوجائے. اس کے بعد اگر وہ یہ سمجھتا ہے کہ دین اسلام کی بجائے وہ کسی دوسرے دین کو پیش کرکے نجات پالے گا تو یہ صریح غلط فہمی ہے اور اس کا رویہ کھلا کفر ہے. اگر پیغام پہنچا ہی نہیں یا درست طور پر نہیں پہنچا یا اسے تحقیق کے لئے جو مواقع و رغبت درکار ہے وہ حاصل نہیں ہوئی تو ایسے انسان کو ہم معذور خیال کریں گے۔۔۔۔۔
    آپ کا بہت شکریہ آپ نے میری اس آیت سے متعلق کنفیوژن دور کر دی۔۔۔۔

Leave a Reply