حامد میر کی مجرمانہ افتراطرازی۔ اسحاق محمدی

پچھلے دنوں کابل سےعاصمہ شیرازی کے ایک پروگرام جس کے اہم موضوعات میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان اعتماد سازی اور دہشت گرد تنظیم داعش کے بڑھتے ہوئے خطرات شامل تھے’ میں حسب عادت حامد میر نے موضوع سے ہٹ کر ایک صدی قبل کا واقعہ سنا کر گویا ہزارہ قوم کے خلاف بالعموم اور پاکستانی ہزارہ کے خلاف رائے عامہ کے جذبات کو بھڑکانے کی قصداً مجرمانہ کوشش کی۔ حامدمیر نے انگریزآفیسرجنرل ڈائر کی ایک کتاب کا حوالہ دے کر دعوی کیا کہ:

“ایک صدی قبل “ہزارہ پائینر” نے ایک جنگ کے دوران بلوچ مقتولین کے سروں سے فٹبال کھیل کر گویا مذہبی شدت پسندی کی داغ بیل ڈالی تھی”۔

چونکہ برسوں پہلے میں نے جنرل ڈائر کی اس کتاب کا اردو ترجمہ پڑھا تھا اس لیے جب کئی دوستوں نے مجھ سے اس بابت معلومات چاہی تو میں نے حامدمیر کے اس دعوے کو بدنیتی اور جھوٹ پر مبنی کہا تا ہم اپنی معلومات کی خاطر گوگل سرچ کے ماہربعض دوستوں سے اس کا  انگریزی ایڈیشن ڈھونڈنے کی درخواست کی۔ کل میرے نوجوان لکھاری دوست، اسحاق چنگیزی نے اس کا لنک  مجھے بھیج دیا۔ جنرل ڈائر کی اس کتاب کا نام “دی ریڈرز آف دی سرحد”ہے ۔ یہ کتاب 1921 میں لندن سے چھپی  ہے، جو کل 12 ابواب اورانڈیکس کے ساتھ 223 صفحات پر مشتمل ہے، جس میں جنرل ڈائر نے 1916 کے دوران افغانستان، ایران سرحد سے متصل برٹش بلوچستان کے سرحدی بلوچ قبائل کے خلاف اپنی زیر قیادت فوجی مہمات کا تفصیل سے ذکر کیا ہے، جس کا اجمال کچھ اس طرح سے ہے:

“برٹش راج کو خطرہ تھا کہ جرمن پروپیگنڈے کےزیراثر یہاں کے بلوچ قبائل سرکشی پر اتر آئے ہیں جو آگے جاکر انڈیا میں سلطنت برطانیہ کے لئے درد سر بن سکتا ہے اس لئے ہائی کمان کی طرف سے جنرل ڈائر کو فروری 1916 میں ان قبائل کے خلاف فوجی کارروائیوں کی کمان سنبھالنے کے لئے فوراً روانگی کا حکم ملا۔ جنرل ڈائر براستہ راولپنڈی کوئٹہ بذریعہ ریل اور پھر بذریعہ سڑک نوشکی پہنچا۔ جنرل ڈائر کے مطابق افغانستان اور ایران سے ملحقہ  اس سرحدی پٹی میں اس وقت درج ذیل بڑے قبائل تھے:

1۔سردارحلیل خان کے زیر قیادت گمشادزئی
2۔ سردارجیاندخان کے زیر قیادت یارمحمدزئی
3۔ سردارجمعہ خان کے زیر قیادت اسماعیل زئی

ابتداء میں جنرل ڈائرنے “روایتی دربار” کے ذریعے ان قبائل کو حسب سابق برٹش راج کے اندر پرامن زندگی کی طرف آنے کی دعوت دی جس میں تینوں قبائل کے معتبرین مان گئے مگر بعد میں سردارجمعہ خان کے علاوہ دو دیگر سردار وعدے سے پھر گئے۔ ان کے خلاف جنرل ڈائر نے چاغی لیویز، 28 لائٹ کیولری اور دیگر لوکل قبائلی فورسز کے ذریعے کارروائیاں کیں جس کے دوران یارمحمد زئی سردار اپنے بیٹے اور درجنوں ساتھیوں کے ساتھ گرفتار ہوئے۔ جنرل نے ان قیدیوں کے بارے میں کوئٹہ  ہیڈکوارٹر سے بات کی تو انھیں کوئٹہ منتقل کرنے کا حکم ملا۔ وہاں چونکہ اتنی نفری موجود نہیں تھی کہ ان خطرناک حالات میں ان کو بحفاظت کوئٹہ منتقل کرتے تو کوئٹہ میں مقیم ہزارہ پائینر کے چند دستے ان قیدیوں کو لانے کے لئے سیندک بھیجے گئے۔ ابھی یہ دستے سیندک پہنچے ہی تھے کہ ان قیدیوں نے بغاوت کردی اور خاردار تاریں   توڑ کر فرار ہوگئے۔ سردار جیاند خان چند روز بعد ایک چھاپہ مار کارروائی میں آزاد ہوا اورحلیل خان سے مل کر جنرل ڈائر کے ہیڈکوارٹر “خواش” پر حملہ کرنے کی تیاری کرنے لگا۔ یوں ان  ہنگامی  حالات میں جنرل ڈائرنے دیگر قریبی مراکز میں موجود فورسز کے علاوہ سیندک میں موجود ہزارہ پائینر کے دستوں کو بھی فوراً خواش پہنچنے کا حکم دے دیا، حالانکہ ہزارہ پائینر بنیادی طورپر انجینئرنگ کور کا حصہ تھا، جنہوں نے کوئٹہ چمن، کوئٹہ ژوب، ژوب دانہ سر اور کوئٹہ سبی سڑکوں اور ریل روڑ کی تعمیر میں بنیادی کردار ادا کیا تھا جس میں جنرل موسی خان ہزارہ بھی شامل تھے۔

جنرل ڈائرنے پوری کتاب میں کہیں بھی کسی بلوچ مقتول کے سر سے فٹبال کھیلنے کی بات نہیں کی ہے۔ یہ من گھڑت کہانی حامدمیر کے  سازشی ذہن کی پیداوار ہے جو گزشتہ دو دہائیوں سے جاری ہزارہ نسل کشی میں ریاست اور ریاستی سکیورٹی اداروں کی مجرمانہ خاموشی پر رائے عامہ کی ہمدردی ہزارہ قوم کے حق میں ہونے سے ناخوش ہے اور اس طرح کےاوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آیا ہے۔ انسانی، اسلامی اور قانونی اعتبارسے حامدمیر کی یہ افتراطرازی ایک قابل سزا جرم ہے مگر مشکل یہ ہے کہ پاکستان میں قانون کی بالادستی کہاں؟

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ: اس کتاب کا انگلش ورژن گوگل پر عام دستیاب ہے جبکہ اردو ترجمہ “جنرل ڈائر کی ڈائری” کے عنوان سے ہے!

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply