وکلا ءگردی، مسئلہ کہاں ہے؟/انعام رانا

والد نے میری ضد پہ ایم اے انگریزی کے بجائے وکالت پڑھنے کی اجازت دیتے ہوئے کہا، یاد رکھنا یہ پروفیشن آف لارڈز تھا۔ یہ ان ہی کو کرنا چاہیے جن کو روٹی کی مجبوری میں اُصولوں پہ کمپرومائز نہ  کرنا پڑتا ہو، سو وکالت پڑھ لو ،مگر پریکٹس کے بجائے سی ایس ایس ہی کرنا ہے۔ خیر لمبی کہانی ہے کہ اپنے جج والد کی مخالفت کے باوجود میں ایک دن کالا کوٹ پہننے میں کیسے کامیاب ہوا۔ اب جو وکیل بنا تو چار مہینے مجھے اپنی عدالت میں بٹھا دیا ،جہاں سارا دن میرا کام یا فائل پڑھنا ہوتا تھا یا وکلاء  کی جرح اور دلائل سننا۔ اس دوران اندازہ ہو گیا کہ اب وکالت پروفیشن آف لارڈز تو ہر گز نہیں  رہا ہے۔

جب والد کو یقین ہو گیا کہ میں شرمندہ نہیں کرواؤں گا تو ایک دن جسٹس قیوم صاحب کی شاگردی میں دے دیا۔ صاحبو، پاکستان اور انگلستان میں وکالت کرنے کے بعد میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ آج تک جسٹس قیوم سے زیادہ ذہین اور محنتی وکیل نہیں دیکھا۔ خیر پہلا ہی کیس تھا ایک عالمی تنازعہ کا، جسے سول کورٹ میں انکے صاحبزادے بیرسٹر احمد قیوم کر رہے تھے۔ میری خوش قسمتی کہ  دوسری جانب پاکستان کی وکالت کا ایک دیوتا، رضا کاظم تھا۔ رضا وکیل، بائیں بازو کے دانشور، موسیقار اور جانے کیا کیا ہیں، ایک ایسا عبقری کہ افسوس اسکی قوم کو علم ہی نہیں کہ کیسا دماغ انکے درمیان تھا۔ رضا سگریٹ سے سگریٹ جلاتے تھے۔ اب ہوتا یوں کہ اپنے دلائل دیتے اور باہر آ کر سگریٹ سلگا لیتے اور میں انکے ساتھ بیٹھ جاتا۔ تین پیشیوں کی ان سگریٹ بریکس میں مَیں نے رضا سے اتنا کچھ سیکھا کہ شاید پورے تعلیمی کیریئر میں نہ  سیکھا تھا۔ اک دن لمبا کش کھینچ کر فرمایا، “دیکھو بھائی اب یہ پیشہ کھائی کے کنارے آن لگا ہے، میری نسل نے لگایا ہے، اب تمھاری نسل پہ منحصر ہو گا کہ کوئی پل بنا کر یہ کھائی پار کر لے یا گِر جائے”۔ آج شدید افسوس سے یہ اقرار کرنا پڑتا ہے کہ ہم نے پاتال میں چھلانگ لگا دی۔

آپ روز وکلا ء کی وجہ سے ہونے والے کچھ کلپس دیکھتے ہیں، اب تو ان کے  لیے  وکلاء  گردی کی اصطلاح بھی عام ہو گئی، گالی دیتے ہیں مگر مسئلہ کہاں ہے، یہ سمجھے بِنا اسکا کوئی حل نہیں ہو گا۔

قانون کی تعلیم:
ویسے تو ہر شعبے میں ہی تعلیم کا معیار شدید گر چکا ہے۔ لیکن وکالت، جسے سماج کو روزمرہ کی بنیاد پہ چلانا ہوتا ہے، اس کا بیڑہ غرق ہو چکا ہے۔ جو کسی اور فیلڈ میں نہیں جا پاتا ،وہ وکیل بن جاتا ہے۔ آپ کو وکلا ء کی اکثریت ایف ایس سی، بی ایس سی کے بعد وکالت میں آنے والی ملے گی۔ پھر جب آپ کُھمبیوں کی  مانند اُگنے والے بے شمار لاء کالجز کا انداز تعلیم اور معیار دیکھتے ہیں تو سر پیٹ لینے  کو دل کرتا ہے۔ ہمارے دور میں جو زیادہ پرانا نہیں، “دکھوں کا ساتھی گائیڈ عباسی” کا نعرہ موجود تھا۔ سارا سال پڑھنے کی بجائے دیگر سرگرمیاں اور پھر گائیڈ اور پانچ سالہ پیپر پڑھ کر امتحان دیجیے  اور پاس ہو جائیے ۔

حل: اسکے حل کےلیے  ضروری ہے کہ اچھے پریکٹسنگ وکلا ء اور ماہرین تعلیم سلیبس کو دوبارہ ترتیب دیں۔ وہ سلیبس یکساں طور پہ سرکاری اور پرائیوٹ لا ء کالجز میں رائج ہو۔ میٹرک اور ایف اے میں قانون کا مضمون بطور اختیاری مضمون متعارف کروایا جائے۔ سلیبس کی بنیاد پہ فقط سالانہ امتحان نہ  ہوں کہ رٹا لگا کر پاس ہو جاؤ، بلکہ ماہانہ یا سہ ماہی بنیاد پہ مضمون اور کورس کے اختتام پہ پندرہ بیس ہزار الفاظ کا مقالہ جمع کروانے کی شرط ہو۔ اسکے علاوہ دورانِ  تعلیم سال میں کم از کم دو ہفتے طالب علم کے  لیے  کسی وکیل کے چیمبر میں انٹرن شپ لازمی ہو۔ ہمیں اس سلیبس کو اتنا کٹھن بنانا چاہیے کہ فقط بہترین دماغ اس پروفیشن میں آ سکیں۔

کمزور ریگولیٹر:
برطانیہ میں وکیل شاید خدا سے کم ڈرتے ہوں مگر سولسٹر ریگولیٹر اتھارٹی یا ریگولیٹر اتھارٹی سے زیادہ ڈرتے ہیں۔ ان کو جرمانے ہوتے ہیں، شکایات پہ کارروائی ہوتی ہے، آڈٹ ہوتے ہیں، لائسنس معطل اور منسوخ ہوتے ہیں۔ مگر افسوس پاکستان میں وکلا ء کے ریگولیٹر ادارے انتہائی کمزور ہیں۔ اوّل تو وکلا ء سیاست نے انکو برباد کر دیا جس پہ علیحدہ بات کریں گے۔ مگر انکی اتھارٹی نہ  تو مانی جاتی ہے اور نہ  ہی ان سے منوائی جاتی ہے۔ میرے استاد بیرسٹر احمد قیوم بہت شوق سے پنجاب بار کونسل کے رکن منتخب ہوئے، تاکہ تبدیلی لائیں اور قانون کے نفاذ کی کوششوں پر وکلاء  کی ناراضگی بلکہ دھمکیوں کا نشانہ بنتے رہے۔ چنانچہ اب ہوتا یہ ہے کہ سائل وکیل کی زیادتی پہ ریگولیٹر کو شکایت ہی نہیں کرتا کہ وکیل وکیل کے خلاف کیا کارروائی کرے گا۔ دوسرا اگر ریگولیٹر کچھ کرنے بھی لگے تو سفارش آ جاتی ہے اور متعلقہ ممبر صاحب کو اگلا الیکشن بھی تو لڑنا ہے۔

حل: ریگولیٹر جب تک وکلاء  سیاست سے آزاد نہیں ہو گا کبھی مضبوط نہیں ہو سکے گا۔ اور جب تک ریگولیٹر مضبوط نہیں ہو گا وکالت اور انصاف کا نظام بہتر ہو ہی نہیں سکتا۔ سوچیے اس سے بڑا مذاق کیا ہو گا کہ ایک صاحب جن کے دستخط سے وکلاء کو لائسنس جاری ہوتے تھے، انکا اپنا لائسنس ہی جعلی تھا۔ میرے خیال سے ریگولیٹر کو بار پالیٹیکس سے مکمل علیحدہ کر دینا چاہیے۔ ریگولیٹر ادارے میں پریکٹس نہ  کرنے والے لاء  گریجویٹس ہوں، ماہرین تعلیم ہوں، عام شہریوں کا نمائندہ ہو، صحافی ہو، وکلاء  کے مقرر کردہ دو نمائندے  ہوں اور کوئی ریٹائرڈ جج اسکا سربراہ ہو۔ یہ انتظامی باڈی وکلاء کے ریگو لیشنز اور شکایات کو دیکھے اور اپنی اتھارٹی قائم کرے۔ یہ وکیل اور لا ء فرم کو جرمانے کرنے، حتیٰ  کہ بند کرنے، وکلا ء کے لائسنس معطل کرنے یا منسوخ کرنے اور لا ء گریجوئٹس کو بطور وکیل لائسنس جاری کرنے کی مجاز ہو۔ انکے فیصلوں کے خلاف اپیل ایک عدالتی پینل کے سامنے ممکن ہو۔ اس طرح ریگولیٹر سیاسی اثر اور بلیک میلنگ سے نکل جائے گا اور آزادانہ فیصلے کر سکے گا۔ اس سے نا صرف وکلاء  کا معیارِ  وکالت بہتر ہو گا بلکہ سائلین اور عام عوام کی بہت سی شکایات کا ازالہ بھی ہو جائے گا۔

دھڑا دھڑ وکیل:
“وکیل بن جاؤ کم از کم بھوکے نہیں مرو گے”، یہ جملہ عام ہوتا تھا۔ لیکن پھر آئی وکلاء تحریک۔ وکلا ءنکلے تو چیف تیرے جانثار کہتے نظام انصاف بچانے تھے مگر نہ  نظام بچا، نہ  انصاف، بس چیف کی نوکری واپس لگ گئی۔ اس تحریک نے ملک کے ایک بڑے حصّے کو متاثر کیا۔ وکلاء  نے دو سال سے زائد قربانی دی اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک آمر کے تخت کو ڈگمگا دیا۔ آپ اس میں سیاسی جماعتوں یا اسٹبلشمنٹ کے ایک حصّے کے کردار کا سو بار ذکر کیجیے مگر وہ سائیڈ ہیرو ہی تھے۔ اس معرکہ کے فاتح اور مین ہیرو وکلا ء ہی تھے۔

اب ہوا یہ کہ عوام کو احساس ہوا کہ وکیل تو ایک اہم جتھہ ہیں اس ملک میں اور اس ملک میں جتھوں کی ہی تو بقا ہے۔ چنانچہ ہر گھر میں ایک بچہ وکیل ہونا چاہیے ،کی خواہش نے جنم لیا۔ عام عوام سے بھی زیادہ وکیل بننے کی اہمیت کو ان گروہوں نے محسوس کیا جن کا قانون سے واسطہ پڑتا تھا۔ چنانچہ بہت سے بدمعاش، قبضہ گروپ اور دیگر مجرم گھرانوں نے اپنا  کوئی نا کوئی بچہ اس پروفیشن میں داخل کیا۔ اب آپ کو ایک پروٹیکشن مل گئی۔ ذاتی مسئلہ میں بھی آپ نے اپنے “وکیل بھائیوں” کو ساتھ ملایا اور مخالف یا پولیس پہ چڑھ دوڑے۔ رہی عدالت تو اسکی کیا مجال کہ  جتھے کے آگے چوں بھی کر پائے۔ چنانچہ اب آپکو وکیل لوگوں سے زیادہ اپنے ہی کیسوں میں پیش ہوتے ملتے ہیں۔ انکا راستہ جن وکلاء  لیڈرز کو روکنا تھا وہ بار سیاست کے ہاتھوں مجبور ہیں۔

حل: اسکا ایک حل تو سلیبس کو بہترین اور مشکل بنانا ہے۔ دوسرا ریگولیٹر کا انتہائی مضبوط ہونا۔ چنانچہ لائسنس جاری ہونے سے قبل وکیل کا پولیس ریکارڈ، اصل ڈگری، لازمی انٹرن شپ اور کوئی امتحان ہو تاکہ ہر کوئی منہ اٹھا کر اس پروفیشن میں نہ  آ جائے اور ان “فیشنی وکلاء ” کا رستہ روکا جائے۔ ضرورت سے زائد تعداد میں وکلاء  کے آنے سے اصل کیسز کے  لیے  کم معیار کی وکالت ہوتی ہے اور وکیل زیادہ ہونے کی وجہ سے ہم غیر ضروری لیٹیگیشن بھی دیکھتے ہیں۔ دوسرا ریگولیٹر کا کمپلائنس اور تادیب کا نظام مسلسل اس پروفیشن کو مجرم وکلا ء سے پاک رکھے۔

بار سیاست:
اگر آپ کسی طرح سے سروے کر سکیں تو وکلاء  کی ستر فیصد سے زائد تعداد وکالت نہیں فقط بار سیاست کرتی ہے۔ آپ وکلا ء کی ایسوسی ایشنز کی تعداد اور الیکشنز گننا شروع کیجیے، انسان حیران ہوتا ہے کہ سارا سال الیکشن ہوتے ہیں تو وکالت کب ہوتی ہے۔ ینگ لائرز، ضلع بار، ہائی کورٹ بار، سپریم کورٹ بار، صوبائی بار اور پھر پاکستان بار کے الیکشنز سال کے مختلف حصّوں میں ہوتے ہیں۔ ہر الیکشن سے اگلے ہی دن اگلے الیکشن میں امیدوار اپنے ناموں کا اعلان کرنے لگ جاتے ہیں۔ آپ کسی بھی کچہری، بالخصوص لاہور میں چلے جائیں آپکو ایک لمبی لائن ملے گی ،وکلاء  کی جو اپنے چار چھ حامیوں کے ساتھ کارڈ بانٹتے پھر رہے ہوں گے۔ بار پالیٹکس وکالت کو برباد کر گئی۔

اس بار پالیٹکس سسٹم کی وجہ سے وکلاء  کے اندر چھوٹے چھوٹے گروپس بن گئے جو بڑے گروپس کو الیکشن میں سپورٹ دیتے ہیں۔ یہ گروپس ان امیدواروں سے خرچہ پانی لیتے ہیں اور بعد از جیت وکلا نمائندے ان کے ہاتھوں بلیک میل بھی ہوتے ہیں۔

نوجوان وکلاء جن کے پاس کوئی کام ہی نہیں ہے کیونکہ ضرورت سے زائد تعداد پروفیشن میں آ چکی، انکے پاس جینے کے  لیے  بار سیاست کے سِوا کچھ نہیں ہے۔ وہ امیدواروں سے اپنی لائسنس فیس دلواتے ہیں، بلز دلواتے ہیں، انکے پاس کھانا کھاتے ہیں اور اچھا پرفارم کریں تو کچھ خرچہ بھی مل جاتا ہے۔ الیکشن کھانے جو بار سیاست کا اہم عنصر ہیں، ایسا کریہہ منظر پیش کرتے ہیں کہ آپکو وکلاء فنکشن کے بجائے داتا ساب دیگ دینے کا منظر یاد آ جائے گا۔ ان گناہگار آنکھوں نے پچھلے سال خود الیکشن ڈنر پہ ایک نوجوان وکیل کو جیب سے شاپر نکال کر مٹن کا سالن اس میں بھرتے ہوئے اور گھر لے جاتے دیکھا۔ امیدوار اگر یہ سب نہیں کرتا تو وہ چاہے وکلا ء کے لیے  جتنا بھی اچھا کرنا چاہتا ہو، کم از کم الیکشن نہیں جیت سکتا۔

الیکشن جیتنے کے بعد بھی وکلاء نمائدوں کا کام بار کی یا پیشے کی بہتری سے زیادہ اپنے سپورٹرز کے کام کروانے کا ہوتا ہے۔ ہڑتال کر لو، عدالت کو تالا لگا دو، پولیس کو مار لو، سائلین کو مار لو، جج کو دھمکیاں دے کر ضمانت یا سٹے لے لو؛ اگر آپ وکلا ء نمائندوں سے پوچھیں تو وہ حلفیہ کہیں گے کہ اگر انھوں نے ایسا کوئی کام کیا تو فقط اپنے سپورٹر کےلیے  کیا تھا۔ نہ  کریں گے تو پہلے تو طعنے سنیں گے کہ الیکشن سپورٹ کی غلطی کی گئی اور دوسرا آئندہ کوئی الیکشن لڑنے کے قابل نہیں  رہیں گے۔

اس سے ہوتا یہ ہے کہ وکلاء نمائندے جو ایک سال کےلیے  منتخب ہوتے ہیں وہ اتنی زیادہ رقم لگا کر آئے ہوتے ہیں کہ انھیں وہ پورا کرنے کی فکر ہی سال بھر جگائے رکھتی ہے۔ دوسرا کسی بھی وکیل کے غلط پر وہ کچھ کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ تیسرا اور خطرناک پہلو یہ ہے کہ جرائم پیشہ، سیاستدان یا بڑے تاجر گروہ انکے فنانسر بن جاتے ہیں اور پھر یہ نمائندے انکے مفادات کا خیال رکھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ مزید یہ کہ اس سارے نظام میں وہ بار کی، سسٹم کی بہتری کےلیے کچھ کر ہی نہیں سکتے۔ بلکہ وہ فقط وکلاء کے ایک بڑے جتھے کے سپوکس پرسن اور محافظ بن کر رہ جاتے ہیں۔

حل: وکلا ء سیاست کو ختم کرنا قطعا ًمسئلے  کا بہتر حل نہیں ہو گا۔ وکلاء  سیاست نظام انصاف کو بہتر کرنے کا باعث ہوتی ہے اور اسکی محافظ بھی۔ لیکن اگر اسے بدلا نہ  گیا تو یہ اس پیشے کی تابوت میں آخری اور سب سے بڑا کیل بنے گی۔

اوّل تو ریگولیٹر کو وکلا ء سیاست سے مکمل آزاد کر دینا چاہیے۔ وکلاء سیاست کی بنیاد پہ بننے والا ریگولیٹر اس نظام کی بہتری کبھی کر ہی نہیں پائے گا۔

دوسرا الیکشن سالانہ کی بنیاد کے بجائے کم از کم دو سال کی بنیاد پہ ہو۔ تاکہ ہر وقت کی بار الیکشن پالیٹکس اور اس سے منسلک مسائل سے جان چھوٹے۔ دو یا تین سال کی مدت کےلیے آنے والے بار نمائندے کو پیسے پورے کرنے کی دوڑ نہیں لگی ہو گی۔ وہ پالیسی بنا سکے گا اور اسکو نافذ کر سکے گا۔

تیسرا الیکشن سسٹم کو فوراً  بدل دینا چاہیے۔ جگہ جگہ کھڑے ہو کر، دفتروں اور گھروں میں نہ  جا کر کنوینسنگ، بینر بازی اور کھانوں پہ مکمل پابندی ہونی چاہیے اور اسے جرم بنا دینا چاہیے جس کی پاداش میں امیدوار نااہل قرار پائے۔ ہر امیدوار سے ایک فیس لی جائے اور الیکشن سے ایک ماہ قبل ایک بروشر ہر رجسٹرڈ وکیل کو بھیجا جائے۔ اس بروشر کے ہر صفحہ پہ ایک امیدوار کا تعارف، اسکا امیدوار عہدہ اور اسکی پوزیشن سٹیٹمنٹ ہو کہ وہ کیسے بار اور وکلاء  کی بہتری کےلیے کام کرے گا۔ پاکستان میں بہترین انٹرنیٹ موجود ہے، چنانچہ ایک اچھی الیکشن ویب سائیٹ بنائی جائے جہاں ہر الیکشن پہ امیدواروں کا مکمل تعارف موجود ہو۔ وکلاء  کو تین دن دئیے جائیں جس میں وہ ویب سائیٹ پر جا کے اپنا لائسنس نمبر ڈالیں اور ہر عہدے کےلیے اپنے پسندیدہ امیدوار کو ووٹ دیں۔ الیکشن کمیشن اس گنتی کی بنیاد پہ نتائج کا اعلان کر دے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

صاحبو! یہ سب آسان نہیں ہو گا۔ وکلاء جو اس سسٹم سے فائدہ اٹھا رہے ہیں وہ اس کو بدلنے پہ آسانی سے آمادہ کب ہوں گے۔ لیکن اگر یہ نہ  ہوا اور بہتری نہ  لائی گئی تو عنقریب وکلاء ایک دوسرے سے سر بہ گریباں بھی نظر آئیں گے اور انکے خلاف عوامی نفرت بھی اس مقام پہ پہنچ جائے گی جہاں کچہری سے باہر کالا کوٹ پہنتے  خوف آئے گا۔ کسی اچھے وکیل سے پوچھیے، کسی اچھی محفل میں بطور وکیل اپنا تعارف کرواتے تو اب بھی شرم آنے لگی ہے۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply