“جوائے لینڈ” -یہ تو ہونا ہی تھا/ذوالفقار زلفی

خبر ملی ہے پاکستانی حکومت نے ایک پنجابی فلم “جوائے لینڈ” پر پابندی لگا دی ہے ـ اس پابندی کی حمایت و مخالفت میں تحریروں و ٹویٹوں کا سلسلہ تاحال جاری ہے ـ
اطلاعات کے مطابق فلم خواجہ سراؤں کے گرد گھومتی ہے ـ ادھر ادھر سے ملنے والی اطلاعات سے پتہ چلا ہے فلم ایک شادی شدہ مرد اور ایک خواجہ سرا کے درمیان محبت کی کہانی ہے جس کے حاشیے میں خواجہ سراؤں کی زندگی بھی بہہ رہی ہے ـ مذہبی حلقوں کا اصرار ہے اس فلم میں پاکستانی تہذیب و تمدن کو چیلنج کیا گیا ہے ـ
فلم عام آدمی کے لئے بنتی ہے ـ عام آدمی ہی اس کی تجارتی کامیابی و ناکامی کا اہم ترین کردار ہوتا ہے ـ مختلف سیاسی، سماجی و ثقافتی گروہ اپنے گروہی مفادات و سماجی تصورات کے تحفظ کے لئے فلموں پر کڑی نگاہ رکھتے ہیں ـ اسی طرح ریاست بھی اپنے نظریاتی مفادات کی عینک سے فلم کو دیکھتی ہے ـ سو یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ سماج میں ٹیبو سمجھے جانے والے موضوعات کو سینما اسکرین پر بنا کسی مخالفت کے پیش کیا جاسکے ـ امریکہ میں بھی لیفٹ اسٹ تفکر کو سینما تک پہنچانا کبھی بھی آسان نہیں رہا حالانکہ امریکی ریاست خود کو آزادیِ اظہار رائے کا چمپئن گردانتی ہے ـ
پاکستانی ریاست کی نظریاتی ساخت پیچیدہ اور گنجلک ہے ـ نظریاتی لحاظ سے پاکستانی ریاست اور سینما دو متضاد اشیا ہیں ـ سستی تفریح کے راستے میں روڑے نہ اٹکانا ریاست کی مجبوری ہے لیکن سستی تفریح کے نام پر ایسی چیز پیش کرنا جو ریاست کی نظریاتی بنیادوں کو چیلنج کرے ، اسے ہضم کرنا ناممکن ہے ـ جیسے کہ کہا گیا ہے نظریاتی لحاظ سے پاکستان ایک پیچیدہ ریاست ہے ـ اس کی سب سے بڑی وجہ حکمران طبقے کا ذاتی زندگی میں لبرل ہونا اور اجتماعی زندگی میں غیر متعین “قومی مفادات” کا تحفظ کرنا ہے ـ
عریانی، فحاشی اور خون آلود تشدد ریاست پر قابض حکمران گروہ کے لئے کبھی بھی کوئی مسئلہ نہیں رہا ـ پنجابی فلم “گناہوں کی بستی” میں اداکارہ ندا چوہدری کو مکمل جزئیات کے ساتھ ریپ ہوتے دکھایا جاتا ہے ـ واضح طور پر یہ ریپ سیکوینس اس قابلِ نفرت فعل کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ یہ جنسی لذت فراہم کرتا اور شہوانی جذبات کو ابھارتا ہے ـ اسی طرح ندا چوہدری جب اپنا بدلہ لیتی ہے تو اسے بھی وومن ایمپاورمنٹ کی صورت دکھانے سے گریز کرکے جنسی لذت کی فراہمی پر ہی توجہ مرکوز رکھی جاتی ہے ـ ریاستی اداروں نے اس فلم کو بےضرر تصور کرکے نمائش کی اجازت دے دی تھی ـ اس قسم کی درجنوں مثالیں ہیں ـ کلاسیک فلم “گلفام” کے ایک گانے میں ہیرو ہیروئن کی چھاتیاں دباتا نظر آتا ہے، اس وقت بھی ریاست کو فیملی ناظرین کے محسوسات اور پاکستانی تہذیب و تمدن کا کوئی خیال نہیں گزرا ـ
پھر “جوائے لینڈ” سے مسئلہ کیوں؟ ـ حکمران طبقہ عوام کو یہ باور کرواتا آرہا ہے کہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے جسے ڈھانے کے لئے پوری کائنات یکسو ہے ـ LGBTQ کو نارمل سمجھنے کا تصور چوں کہ مغرب کی ایجاد ہے (گوکہ ایسا نہیں ہے) اور تمام مغربی تصورات ریاست کی نظریاتی ساخت سے متضاد ہیں اس لئے اس قسم کے تصورات کے سامنے بند باندھنا لازمی ہے ـ اگر فلم کسی شادی شدہ مرد اور غیر شادی شدہ لڑکی کے درمیان جنسی تعلقات کے گرد گھومتی اور اس عمل کو مردانہ جنسی تلذذ میں ملفوف کرکے اسے غیراخلاقی و غیراسلامی بتایا جاتا تو ریاست کو کوئی مسئلہ نہ ہوتا ـ آخر “زنا” دکھا کر ہی “زنا” کو برا کہا جاسکتا ہے ـ “زنا” اخلاقی برائی سہی لیکن حکمران طبقے کی عوامی رائے کے مطابق عین فطری ہے ـ گزشتہ چند سالوں کے دوران مشتہر کئے گئے “سیاسی لیک” ویڈیوز کے حوالے سے بھی “زنا” کو چٹخارے دار خبر بنا کر ان کی مذمت کی گئی ہے ـ ان “سیاسی لیکس” میں بھی مبینہ غیر فطری اور غیر اسلامی کے دائروں کا حتی الامکان خیال رکھا جاتا ہے ـ
عمومی سماجی رائے کے مطابق گے، لزبین، بائی سیکشوئل، ٹرانس جینڈر اور کوئیر وغیرہ نفسیاتی خلل اور غیراسلامی ہیں لہذا ان کی مثبت یا منفی عکاسی ریاست کی نظریاتی ساخت پر حملہ ہیں ـ اسی طرح جبری گمشدگی، بلوچستان مسئلہ، مارشل لا، لسانی مسائل، اقلیتی خواتین کی جبری مذہب تبدیلی اور فوج کے معاشی مفادات وغیرہ کے خلاف فلم بنانا بھی ممنوعات میں شمار ہوتے ہیں ـ بے مقصد سنسنی خیز تشدد، افلاطونی محبت، ہیجان خیز جنسی مناظر، ہیروئن کے جسمانی خطوط کی گرم نمائش …… سے چوں کہ حکمران طبقے کی عمومی سماجی رائے کو خطرہ نہیں ہوتا اور اس سے فلم بین بھی ذہنی مشت زنی کے بعد آسودہ ہوکر سنگین سماجی معاملات پر غور کرنے کے قابل نہیں رہتا اس لئے ایسی فلموں کی ہر ممکن حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ـ اس قسم کی فلموں کو آرٹ کے خوش نما نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے ـ
“جوائے لینڈ” کے تخلیق کار بچے نہیں ہیں ـ نہ ہی وہ کل مریخ سے تشریف لائے ہیں ـ انہیں ان تمام مشکلات کا بخوبی علم تھا ـ اب جب ریاست نے اپنی “نفیس حماقت” کے تحفظ کے لئے ڈنڈا اٹھا لیا تو رونا کیسا؟ ـ یہ تو ہونا ہی تھا ـ پاکستانی لبرل لاکھ بین ڈالیں، لعن طعن کریں ہوگا وہی جو ہورہا ہے ـ آخری تجزیے میں پاکستانی لبرل بھی پاکستانی ریاست کی طرح سطحی اور نظریاتی لحاظ سے کنگال طبقہ ہے ـ

Facebook Comments

ذوالفقارزلفی
ذوالفقار علی زلفی کل وقتی سیاسی و صحافتی کارکن ہیں۔ تحریر ان کا پیشہ نہیں، شوق ہے۔ فلم نگاری اور بالخصوص ہندی فلم نگاری ان کی دلچسپی کا خاص موضوع ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply