مدینہ کی ریاست میں مظلوم کی فریاد۔۔۔۔۔ شہزاد سلیم عباسی

کچھ نجی مصروفیات کی وجہ سے میرے ہفتہ وار کالم کا سلسلہ منقطع رہا۔ اب چند ماہ کے تعطل کے بعد ایک نئے جذبے کیساتھ اپنے قارئین کے لیے تحریر پیشِ  خدمت ہے۔

پچھلی اپوزیشن نے دشنام طرازی کے ذریعہ اُس وقت کی حکومت کا جینا محال کیا اور عوام کو بیوقوف بنایا۔اُن دنوں پی ٹی آئی قیادت کے چند جملے بڑے مشہور ہوئے اور شاید یہی جملے اس حکومت کے لیے بے عزتی اور رسوائی کا باعث بنے ۔پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ ”جو حکومت ملک میں مہنگائی کا طوفان برپا کرے، کرپشن کرے یا ملکی خزانے کو خالی کر کے چوری کا پیسہ باہر بھیجے وہ چور ہے۔اورجسکی جائیدادیں دوسرے ممالک میں ہوں وہ عوام سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔ جن لوگوں نے ملک و قوم پر ظلم ڈھائے ان کا شدید احتساب ہو گا اور ان کے باہر پڑے پیسے ملک میں لائے جائیں گے اور معاشی صورتحال کو قرضوں کی دلدل سے نکال کر حقیقی سہار ا فراہم کریں گے۔خود کشی کو آئی ایم ایف سے قرض لینے پر ترجیح دیں گے۔ ملک کی حقیقی قیادت اور چنیدہ نمائندوں سے عوام کے مسائل حل کرائیں گے۔ امیر زادوں پر ٹیکس لگائیں گے اور تعلیم و صحت کی سہولیات غریب اور ضرورت مندوں کے لیے عام کریں گے اور دوراہا نظام ِ تعلیم اورکھوٹا نظامِ انصاف ختم کریں گے۔ اور ایک نیا پاکستان بنائیں گے جہاں غریب اور امیر کے لیے ایک ہی قانون ہووغیرہ وغیرہ“۔

مگر جاگتی آنکھوں نے دیکھا کہ یہ سب کچھ تو جھوٹ اور فریب کا پلندہ ثابت ہوا۔عمران خان، جہانگیر ترین، فیصل واوڈا، علیمہ خان اور نہ جانے کتنے حکومتی اراکین کی جائیدادیں باہر پڑی ہیں مگر نیب اس پر کوئی  ایکشن نہیں لیتا۔کم و بیش ایک سال میں نہ تو نظام ِ عدل کا بول بالا ہوا اور نہ  ہی روزمرّہ کی اشیاء Basic commodities عوام کی دسترس میں رہیں۔ مہنگائی کاایسا طوفان برپا کیا گیا جس سے غریب سے غریب، مڈل اور اَپر مڈل طبقے کا بھی بُھرکس نکل گیا۔

مشاہدے میں آیا کہ پاکستان تحریک انصاف کا مینار پاکستان والاگیارہ نکاتی ایجنڈا آہستہ آہستہ اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے اور غریب اور ضرورت مندکا کچومر نکل رہا ہے۔ پچھلے کچھ عرصے کے معاملا ت اور ابھی حالیہ جج ارشد ملک والے معاملے میں بھی ناانصافی کی بو آرہی ہے اور لگتا ہے کہ نوازشریف، زردادی اور دیگر لوگوں کو بغیر کسی ثبوت کے موردِ الزام ٹھہرا کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ ہارس ٹریڈنگ کوئی انہونی یا نئی بات نہیں ہے۔ جنرل مشرف کے دور آمریت میں پارلیمنٹ کے معزز اراکین کی خرید وفروخت کا عمل تیزی سے شروع ہوا تھا۔پھرہارس ٹریڈنگ کا گھن چکر پی پی پی اور مسلم لیگ ن کے ادوار کی مسافت طے  کرتے ہوئے تبدیلی سرکار کے گرداب میں پھنس گیا اور حالیہ دورِ  حکومت میں بلوچستان اسمبلی اور قومی اسمبلی بنانے میں بھی کردار ادا کیا اور اب شاید چیئرمین سینٹ اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے الیکشن میں صوبائی ممبران پر کروڑوں کی بولی کا عمل شرو ع ہو چکا ہے۔

مصنف:شہزاد سلیم عباسی

حالانکہ اگر دیکھا جائے تو عددی اعتبار سے اپوزیشن کے پاس چیئرمین سینٹ کی گنتی پوری ہے، اس کے باوجود بھی حکومت کی بھرپور کوشش ہے کہ کچھ بھی کر کے نواز شریف اور زرداری اور باقیات کو عبرت ناک شکست دی جائے۔ افسوس صد افسوس تبدیلی اور انصاف کے نعرے لگانے والے  اب ہارس ٹریڈنگ کے مکروہ دھندے میں اپنا ہاتھ دھونے کا قصد کرچکے ہیں اور معاملات کی خرابی کی صورت میں جہازوں والی سرکار کو اسٹینڈ بائی کر دیا گیا ہے۔ عمران خان کہتے ہیں کہ میں کبھی تین الفاظ این آر او نہیں بولوں گا لیکن تبدیلی کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ تاریخ کے اوراق این آر اور کے الفاظ لکھیں گے اور معاہدے بھی ہوں گے اور پیسے میں نہیں ملیں گے کیوں کہ موجودہ حکومت کا مطمع ِنظر شاید ملکی معیشت مضبو ط کرنا نہیں بلکہ بدلے کی آگ کوٹھنڈا کرنا ہے۔

سیکورٹی پروٹوکول نہ لینے والوں نے مرسیڈیز، بنٹلے اور مہنگی ترین گاڑیوں میں شاہانہ  سفر شروع کر دیے ہیں۔گزشتہ اور اس سے پیوستہ حکومتوں پر دوسرے ممالک کے سامنے جھکنے کا الزام لگانے والے اب دوسرے ممالک کے وزرا ء اعظم اور صدور کو ائیرپورٹ سے لانے پر خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔ مغرب کی مثالیں دینے والے اب سزائے موت، زندہ درگور اور رجم کرنے کی باتیں کرنے لگے ہیں۔آکسفورڈ اور کیمرج کی ڈگریا ں رکھنے والے ٹی وی پر بیٹھ کر عورتوں کی عزتوں کا جنازہ نکالتے ہیں اور بات بات پر  ایسے آپے سے باہر ہوجاتے  ہیں کہ لوگوں کے منہ پر تھپڑ رسید کرنا عام سی بات ہے۔ مغربی دنیا کی اخلاقیات کا درس دینے والے سائیکل کی بجائے گھنٹوں روٹ لگواتے ہیں۔ ترکی، روس، برطانیہ، امریکہ اور بھارت کی معیشت کو رول ماڈل کہنے والے اب چالیس چالیس ترجمانوں کے ذریعے عوام کوبے تُکی منطق سمجھاتے نظر آتے ہیں۔ آزادی صحافت پر پختہ یقین رکھنے والے اب آزادی اظہار رائے سلب اورسنسر شپ کے احکامات جاری کررہے ہیں۔

گزشتہ حکومتوں کی  معمولی غلطیوں پر استعفی کا مطالبہ کرنے والے اب ریلوے میں ہونے والے 79 سے زائد حادثات کی  چشم پوشی کر کے وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں اور ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ فردوس عاشق اعوان، فرخ حبیب اور ریلوے کابینہ اس پر بھی گزشتہ حکومتوں کو قصوروار ٹھہرارہے ہیں۔

مزے کی بات یہ ہے کہ تبدیلی سرکار کے سوشل میڈیا سیلز ہیں جو سالہا سال سے ساراسارادن پروپیگنڈا کرتے ہیں اور حکومتی کوتاہیوں کو ڈیفنڈ کرتے اور دوسروں پر غلیظ ترین کیچڑ اچھالتے ہیں۔تاریخ میں پہلی بار ایسا ہو اہے کہ  کسی حکومت کے پہلے سال ہی مہنگائی کا ایسا بازار گرم ہو گیا ہو کہ دو وقت کی روٹی کے لیے چولہا جلانے والے مجبور اور مفلوک الحال اب ایک وقت کی روٹی کے لیے اللہ کے ہاں مناجات کر رہے ہوں۔اورشاید اللہ سے اپنی غریبی اور فقیری کا سوال کرتے ہیں کہ اے اللہ ہم تو حلال کرکے کھاتے ہیں اور تو  نے تو وعدہ کیا ہے کہ حلال اور محنت مزدوری کرکے کمانے والے کا ساتھ دے گا لیکن اے اللہ اب تو وہ حلال کا نوالہ بھی تو  نے چھین لیا ہے! کیا ہم محنت مزدوری اور حلال کی کمائی سے اپنے بلبلاتے بچوں کو دو وقت کی روٹی بھی نہیں کھلا سکتے؟ کیا اس ریاست مدینہ میں غریب، مسکین، فقیر اور سفید پوش کی کوئی جگہ نہیں؟ اے اللہ اگر ایسا ہی ہے تو مجھ مظلوم کو معاف کرنا کہ میں تیرے بندوں (اپنی اولاد)کو صرف ایک وقت کی روٹی ہی دے سکوں گا وہ بھی ذلت و رسوائی اٹھانے کے بعد اور ہاں تعلیم کا ذمہ اب تو خود لے لے کہ اب یہاں ظلم وستم  کا چلن ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جناب وزیر اعظم عمران خان آپ کی ایمانداری کا درس،کرپٹ عناصر کو عبرتناک انجام تک پہنچانا اور سسلین مافیا کے خاتمے کی باتیں کرنا سب ٹھیک ہے۔مگر آپ کا نواز و زرداری اور دیگر لوگوں سے پوچھ گچھ کرنے سے ایک غریب ہاری کا کیا تعلق ہے؟مہنگائی کر کے غریب کی کمر توڑنے سے نواز شریف اورزرداری کو کیا نقصان پہنچے گا ؟آپ حقیقت پسندی کا سامنا کریں اور اپنی کہی ہوئی باتیں غور سے سنیں اور خدا راہ غریب کا چولہا جلائیں جنہوں نے آپ کو مدینہ کی ریاست اور انصاف کے نام پر ووٹ دیا ہے۔اور ہاں ایک تصحیح ضرور فرمالیں، ارض پاکستان کا70 فیصد غریب اور متوسط طبقہ ہمیشہ سے ٹیکس دیتا آیا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply