توبہ شکن

(بانو قدسیہ کا اس دار فانی سے کوچ کرنا دنیائے ادب کے لئے ایک عظیم سانحے سے کم نہیں ، ان کے وصال کے موقع پر ان کا ایک افسانہ بطور خراج عقیدت پیش کیا جا رہا ہے۔ ادارہ)

Advertisements
julia rana solicitors

توبہ شکن
بانو قدسیہ
بی بی رو رو کر ہلکان ہو رہی تھی۔ آنسو بے روک ٹوک گالوں پر نکل کھڑے ہوئے تھے۔
”مجھے کوئی خوشی راس نہیں آتی۔ میرا نصیب ہی ایسا ہے۔ جو خوشی ملتی ہے۔ ایسی ملتی ہے کہ گویا کوکا کولا کی بوتل میں ریت ملا دی ہو کسی نے۔“
آنکھیں سرخ ساٹن کی طرح چمک رہی تھیں اور سانسوں میں دمے کے اکھڑے پن کی سی کیفیت تھی۔ پاس ہی پپو بیٹھا کھانس رہا تھا۔ کالی کھانسی نا مراد کا حملہ جب بھی ہوتا بیچارے کا منہ کھانس کھانس کر بینگن سا ہوجاتا۔منہ سے رال بہنے لگتا اور ہاتھ پاؤں اینٹھ سے جاتے۔ امی سامنے چپ چاپ کھڑکی میں بیٹھی ان کو یاد کر رہی تھیں۔جب وہ ایک ڈی سی کی بیوی تھیں اور ضلع کے تمام افسروں کی بیویاں ان کی خوشامد کرتی تھیں۔ وہ بڑی بڑی تقریبوں میں مہمان خصوصی ہواکرتیں، اور لوگ ان سے درخت لگواتے، ربن کٹواتے….انعامات تقسیم کرواتے۔
پروفیسر صاحب ہر تیسرے منٹ مدھم سی آواز میں پوچھتے….”لیکن…. آخر بات کیا ہے بی بی….ہواکیا ہے….
وہ پروفیسر صاحب کو کیا بتاتی کہ دوسروں کے اصول اپنانے سے اپنے اصول بدل نہیں جاتے صرف ان پرغلاف بدل جاتا ہے۔ ستار کاغلاف، مشین کا غلاف، تکیے کا غلاف….درخت کو ہمیشہ جڑوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر اسے کرسمس ٹری کی طرح یونہی داب داب کر مٹی میں کھڑاکردیں گے تو کتنے دن کھڑا رہے گا۔ بالآخر تو گرے ہی گا۔
وہ اپنے پروفیسر میاں کو کیا بتاتی کہ اس گھر سے رسہ تڑوا کر جب وہ بانو بازار پہنچی تھی اور جس وقت وہ ربڑ کی ہوائی چپلوں کا بھاؤ چارآنے کم کروا رہی تھی تو کیا ہوا تھا؟
اس کے بوائی پھٹے پاؤں ٹوٹی چپلوں میں تھے۔ ہاتھوں کے ناخنوں میں برتن مانجھ مانجھ کر کیچ جمی ہوئی تھی۔ سانس میں پیاز کے باسی لچھوں کی بوتھی۔ قمیض کے بٹن ٹوٹے ہوئے اور دوپٹے کی لیس ادھڑی ہوئی تھی۔ اس ماندے حال جب وہ بانو بازار کے ناکے پر کھڑ ی تھی تو کیاہوا تھا؟
یوں تو دن چڑھتے ہی روز کچھ نہ کچھ ہوتا ہی رہتا تھا پر آج کا دن بھی خوب رہا۔ ادھر پچھلی بات بھولتی تھی ادھرنیا تھپڑ لگتا تھا۔ ادھر تھپڑ کی ٹیس کم ہوتی تھی ادھر کوئی چٹکی کاٹ لیتا تھا۔ جو کچھ بانو بازار میں ہوا وہ تو فقط فل سٹاپ کے طور پر تھا۔
صبح سویرے ہی سنتو جمعدارنی نے برآمدے میں گھستے ہی کام کرنے سے انکار کردیا۔ رانڈ سے اتنا ہی تو کہا تھا کہ نالیاںصاف نہیں ہوتیں۔ ذرا دھیان سے کام کیا کر۔ بس جھاڑ و وہیں پٹخ کر بولی۔
”میرا حساب کردیں جی….“
کتنی خدمتیں کی تھیں بد بخت کی۔ صبح سویرے تام چینی کے مگ میں ایک رس کے ساتھ چائے۔ رات کے جھوٹے چاول اور باسی سالن روزکا بندھا ہوا تھا۔ چھ مہینے کی نوکری میں تین نائلون جالی کے دوپٹے۔ امی کے پرانے سلیپر اور پروفیسر صاحب کی قمیض لے گئی تھی۔ کسی کو جرات نہ تھی کہ اسے جمعدارنی کہہ کر بلا لیتا۔ سب کا سنتو سنتو کہتے منہ سوکھتا تھا۔ پر وہ تو طوطے کی سگی پھوپھی تھی۔ ایسی سفید چشم واقع ہوئی کہ فوراً حساب کر۔
جھاڑو بغل میں داب، سر پر سلفچی دھر…. یہ جا وہ جا۔
بی بی کا خیال تھا کہ تھوڑی دیر میں آکر پاؤں پکڑے گی۔ معافی مانگے گی اور ساری عمرکی غلامی کاعہد کرے گی ۔ بھلا ایسا گھر اسے کہاں ملے گا۔ پر وہ تو ایسی دفان ہوئی کہ دوپہر کا کھانا پک کر تیار ہوگیا پر سنتو مہارانی نہ لوٹی۔
سارے گھر کی صفائیوں کے علاوہ غسلخانے بھی دھونے پڑے اور کمروں میں ٹاکی بھی پھیرنی پڑی۔ ابھی کمر سیدھی کرنے کو لیٹی ہی تھی کہ ایک مہمان بی بی آگئیں۔ منے کی آنکھ سے مشکل لگی تھی۔ مہمان بی بی حسن اتفاق سے ذرا اونچا بولتی تھیں۔ منا اٹھ بیٹھا اور اٹھتے ہی کھانسنے لگا۔ کالی کھانسی کا بھی ہر علاج کر دیکھا تھا پر نہ تو ہومیوپیتھی سے آرام آیا نہ ڈاکٹری علاج سے ۔ حکیموں کے کشتے اور معجون بھی رائیگاں گئے۔ بس ایک علاج رہ گیا تھا اور یہ علاج سنتو جمعدارنی بتایا کرتی تھی ۔ بی بی ! کسی کالے گھوڑے والے سے پوچھو کہ منے کو کیا کھلائیں۔ جو کہے سو کھلا۔ دنوں میں آرام آجائے گا۔
لیکن بات تو مہمان بی بی کی ہورہی تھی ۔ ان کے آنے سے سارے گھر والے اپنے اپنے کمروں سے نکل آئے اور گرمیوں کی دوپہر میں خورشید کو ایک بوتل لینے کے لئے بھگا دیا۔ ساتھ ہی اتنا سارا سودا اور بھی یاد آگیا کہ پورے پانچ روپے دینے پڑے۔
خورشید پورے تین سال سے اس گھر میں ملازم تھی۔ جب آئی تھی تو بغیر دوپٹے کے کھوکھے تک چلی جاتی تھی اور اب وہ بالوں میں پلاسٹک کے کلپ لگانے لگی تھی۔ چوری چوری پیروں کو کیوٹیکس اور منے کو پاؤڈر لگانے کے بعد اپنے چہرے پر بے بی پاؤڈر استعمال کرنے لگی تھی۔ جب خورشید موٹی ململ کا دوپٹہ اوڑھ کر ہاتھ میں خالی سکوائش کی بوتل لے کر سراج کے کھوکھے پر پہنچی تو سڑکیں بے آباد سی ہو رہی تھیں، نقدی والے ٹین کی ٹرے میں دھرتی ہوئی خورشید بولی۔
”ایک بوتل مٹی کا تیل لا دو…. دو سات سو سات کے صابن…. تین پان سادہ….چار میٹھے….ایک نلکی سفید دھاگے کی….دو لولی پاپ اور ایک بوتل ٹھنڈی ٹھار سیون اپ کی….
روڑی کوٹنے والا انجن بھی جا چکا تھا اور کولتار کے دو تین خالی ڈرم تازہ کوٹی ہوئی سڑک پر اوندھے پڑے تھے۔ سڑک پر سے حدت کی وجہ سے بھاپ سی اٹھتی نظر آتی تھی۔
دائی کی لڑکی خورشید کو دیکھ کر سراج کو اپنا گاؤں یاد آگیا۔ دھلے میں اسی وضع قطع، اسی چال کی سیندوری سے رنگ کی نو بالغ لڑکی حکیم صاحب کی ہوا کرتی تھی۔ ٹانسے کا برقعہ پہنتی تھی۔ انگریزی صابن سے منہ دھوتی تھی اور شاید خمیرہ گاؤزبان اور کشتہ مرویدار بمعہ شربت صندل کے اتنی مقدارمیں پی چکی تھی کہ جہاں سے گزر جاتی سیب کے مربے کی خوشبو آنے لگتی۔ گاؤں میں کسی کے گھر کوئی بیمار پڑ جاتا تو سراج اس خیال سے اس کی بیمار پرسی کرنے ضرور جاتا کہ شاید وہ اسے حکیم صاحب کے پاس دوا لینے کے لئے بھیج دے۔ جب کبھی ماں کے پیٹ میں درد اٹھتا تو سراج کو بہت خوشی ہوتی۔ حکیم صاحب ہمیشہ اس نفخ کی مریضہ کے لئے دو پڑیاں دیا کرتے تھے۔ ایک خالی پڑیا گلاب کے عرق کے ساتھ پینا ہوتی تھی اور دوسری سفید پڑیا سونف کے عرق کے ساتھ۔ حکیم صاحب کی بیٹی عموماً اسے اپنے خط پوسٹ کرنے کو دیاکرتی۔ وہ ان خطوں کو لال ڈبے میں ڈالنے سے پہلے کتنی دیر سونگھتا رہتا تھا۔ ان لفافوں سے بھی سیب کے مربے کی خوشبو آیا کرتی تھی۔
اس وقت دائی کرمو کی بیٹی گرم دوپہر میں اس کے سامنے کھڑی تھی اور سارے میں سیب کامربہ پھیلا ہوا تھا۔
پانچ روپے کا نوٹ نقدی والے ٹرے میں سے اٹھاکر سراج نے چپچی نظروں سے خورشید کی طرف دیکھا اور کھنکھار کر بولا…. ”ایک ہی سانس میں اتنا کچھ کہہ گئی۔ آہستہ آہستہ کہو نا۔ کیا کیا خریدنا ہے؟“
ایک بوتل مٹی کا تیل….دو سات سو سات صابن…. تین پان سادہ، چار میٹھے۔ ایک نلکی بٹر فلائی والی سفید رنگ کی….۔
ایک بوتل سیون اپ کی…. جلدی کر، گھر میں مہمان آئے ہوئے ہیں۔
سب سے پہلے تو سراج نے کھٹاک سے سبز بوتل کا ڈھکنا کھولا اور بوتل کو خورشید کی جانب بڑھا کربولا۔
” یہ تو ہوگئی بول اور….“
”بوتل کیوں کھولی تو نے….اب بی بی جی ناراض ہو ں گی۔“
”میں سمجھا کہ کھول کر دینی ہے….“
”میں نے کوئی کہا تھا تجھے کھولنے کے لئے “
”اچھااچھا بابا۔ میری غلطی تھی۔یہ بوتل تو پی لے۔ میں ڈھکنے والی اور دے دیتا ہوں تجھے….“
جس وقت خورشید بوتل پی رہی تھی، اس وقت بی بی کا چھوٹا بھائی اظہر ادھر سے گزرا۔ اسے سٹرا سے بوتل پیتے دیکھ کر وہ مین بازار جانے کی بجائے الٹا چودھری کالونی کی طرف لوٹ گیا اور این ٹائپ کے کوارٹر میں پہنچ کر برآمدے ہی سے بولا۔
”بی بی ! آپ یہاں بوتل کا انتظار کررہی ہیں اور وہ لاڈلی وہاں کھوکھے پر خود بوتل پی رہی ہے سٹرا لگا کر۔“
بھائی تو اخبار والے کی فرائض سر انجام دے کر سائیکل پر چلا گیا لیکن جب دو روپے تیرہ آنے کی ریزگاری مٹھی میں دبائے، دوسرے ہاتھ میں مٹی کے تیل کی بوتل اور بکل میں سات سو سات صابن کے ساتھ سیون اپ کی بوتل لیے خورشید آئی تو سنتو جمعدارنی کے حصے کا غصہ بھی خورشید پر ہی اترا۔
”اتنی دیر لگ جاتی ہے تجھے کھوکھے پر۔“
”بڑی بھیڑ تھی جی….“
”سراج کے کھوکھے پر….اس وقت؟“
”بہت لوگوں کے مہمان آئے ہوئے ہیں جی ….سمن آباد میں ویسے ہی مہمان بہت آتے ہیں…. سب نوکر بوتلیں لے جا رہے تھے ۔“
”جھوٹ نہ بول کمبخت! میں سب جانتی ہوں۔“
خورشید کا رنگ فق ہو گیا۔
”کیا جانتی ہیں جی آپ….“
”ابھی کھوکھے پرکھڑی تو…. بوتل نہیں پی رہی تھی۔“
خورشید کی جان میں جان آئی۔ پھر وہ بپھر کر بولی۔
”وہ میرے پیسوں کی تھی جی….آپ حساب کردیں جی میرا…. مجھ سے ایسی نوکری نہیں ہوتی….“
بی بی تو حیران رہ گئی۔
سنتو کا جانا گویا خورشید کے جانے کی تمہید تھی۔ لمحوں میں بات یوں بڑھی کہ مہمان بی بی سمیت سب برآمدے میں جمع ہو گئے اور کترن بھر لڑکی نے وہ زبان دراز کی کہ جن مہمان بی بی پر بوتل پلا کر رعب گانٹھنا تھا وہ الٹا اس گھر کو دیکھ کر قائل ہو گئیں کہ بد نظمی، بے ترتیبی اور بد تمیزی میں یہ گھر حرف آخر ہے۔
آناً فاناً مکان نوکرانی کے بغیر سونا سونا ہو گیا۔
ادھر جمعدارنی اور خورشید کا رنج تو تھا ہی، اوپر سے پپو کی کھانسی دم نہ لینے دیتی تھی۔ ۔
(جاری۔۔۔۔۔۔)

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply