یہ مکافاتِ عمل ہی تو ہے/پروفیسر رفعت مظہر

مکافاتِ عمل قانونِ فطرت ہے جس سے مفر ممکن نہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ 28ء مئی 2017ء کو جب میاں نوازشریف کو ایک مفروضے کی بنیاد پر نااہل قرار دیا گیا تو تحریکِ انصاف نے مٹھائیاں بانٹیں، خوشیاں منائیں اور طنز کے تیر برسائے۔

21 اکتوبر 2022ء کو جب الیکشن کمیشن نے توشہ خانہ ریفرنس میں آرٹیکل 63-1(P) کے تحت عمران خاں کو نااہل قرار دیا تو اتحادیوں میں سے کسی بھی سیاسی جماعت نے مٹھائیاں بانٹیں نہ خوشیاں منائیں البتہ اِسے مکافاتِ عمل ضرور کہا۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد میاں نوازشریف تو فوراََ وزارتِ عظمیٰ سے الگ ہو گئے تھے لیکن تحریکِ انصاف کے رَہنما اِس فیصلے کے خلاف آگ اُگلتے نظر آئے۔ الیکشن کمیشن کے فُل بنچ کے تحریری فیصلے کے مطابق “عمران خاں کرپٹ پریکٹسز کے مرتکب ہوئے، اُنہوں نے جان بوجھ کر غلط گوشوارے جمع کرائے، ملنے والے تحائف گوشواروں میں ظاہر نہیں کیے۔

عمران خاں کا پیش کردہ بینک ریکارڈ تحائف کی قیمت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اُنہوں نے اپنے جواب میں جو مؤقف اختیار کیاوہ مبہم تھا۔ 2018-19ء میں تحائف کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم بھی ظاہر نہیں کی۔ عمران خاں نے 2020-21ء کے گوشواروں میں بھی حقائق چھپائے”۔ عمران خاں کو حقائق چھپانے کی بنیاد پر ہی 5 سال کے لیے نااہل قرار دیا گیا ہے جبکہ میاں نوازشریف کو ایک سازش کے تحت بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے جرم میں تاحیات نااہل قرار دیاگیا۔

اُس وقت میاں صاحب احتجاج کی کال دے سکتے تھے لیکن اُنہوں نے قانون کے سامنے سَر جھُکا دیا۔ دوسری طرف توشہ خانہ ریفرنس میں مکمل ثبوت موجود ہونے کے باوجود الیکشن کمیشن کے فیصلے کو قبول نہیں کیا جا رہا اور مختلف شہروں میں شَر پسندوں کی ٹولیوں نے سڑکوں پر ٹائر جلا کر راستے بلاک کرنے کی کوشش کی۔ یہی فرق ہوتا ہے ایک رَہنما اور ہوسِ اقتدار میں مبتلا شخص میں۔

الیکشن کمیشن کے فیصلے کے مطابق عمران خاں کی نااہلی کی مدت صرف 5 سال ہے جو اگست 2023ء میں ختم ہو جائے گی اور عمران خاں آمدہ عام انتخابات میں حصّہ لینے کے اہل ہوں گے لیکن اصل معاملہ کرپٹ پریکٹسز کا ہے جس پر الیکشن کمیشن نے فوجداری مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا ہے۔ الیکشن کمیشن کا فیصلہ آنے کے بعد مریم نواز نے ٹویٹ کیا “پاکستان کا پہلا سرٹیفائڈ جھوٹا اور سند یافتہ چورجو ناقابلِ تردید ثبوتوں کے ساتھ نااہل ہوا۔ میاں بیوی نے مل کر قومی خزانے کو لوٹا۔ جتنی بڑی چوری ہے اُس کی سزا صرف نااہلی پر ختم نہیں ہونی چاہیے۔ اُس کو گرفتار کرکے قانون کے سامنے پیش کرنا چاہیے اور لوٹا ہوا پیسہ واپس لینا چاہیے”۔ وزیرِاعظم میاں شہباز شریف نے ٹویٹ کیا “قوم نے دیکھ لیا کہ کرپٹ پریکٹس کرکے وزیرِاعظم کے منصب کو ذاتی آمدنی کا ذریعہ بنایا

گیا۔ صداقت وامانت کا بُت پاش پاش ہوگیا”۔ خواجہ آصف نے ٹویٹ کیا “ما شاء اللہ پاکستان FATF کی گرے لسٹ سے نکل گیا اور ای سی پی نے عمران خاں کو بلیک لسٹ میں شامل کر دیا”۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر توشہ خانہ ریفرنس میں کرپٹ پریکٹسز ثابت ہو گئیں تو عمران خاں کو نہ صرف جیل کی سزا ہو سکتی ہے بلکہ وہ آرٹیکل 62-1F کے تحت تاحیات نااہل بھی ہو سکتے ہیں۔

میاں نوازشریف کوتو براہِ راست سپریم کورٹ نے تاحیات نااہل قرار دیا تھاجس کے بعد کوئی اور عدالت نہیں جس میں اپیل کی جا سکتی ہو لیکن عمران خاں کے پاس اپیل کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ بھی ہے اور سپریم کورٹ بھی۔ اب تحریکِ انصاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج کرنے جا رہی ہے۔ ماضی قریب میں تو یہی دیکھا گیا ہے کہ ہماری اعلیٰ عدالتیں عمران خاں کے ساتھ ہمیشہ نرم رویہ اختیار کرتی ہیں۔ جج زیبا چودھری کی توہین کے کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے اَزخود نوٹس لیا اور پھر معافی بھی دے دی حالانکہ ایسے ہی توہینِ عدالت کے کیس میں نوازلیگ کے طلال چودھری اور دانیال عزیز کو 5 سال کے لیے نااہل قرار دیا گیا جبکہ نہال ہاشمی کو نااہلی کے ساتھ ایک ماہ قید کی سزا بھی دی گئی۔ حالانکہ اِن تینوں افراد نے معافی بھی مانگی اور اپنے آپ کو عدالت کے رحم وکرم پر بھی چھوڑ دیا۔

عمران خاں کے ساتھ ایسا ہی نرم رویہ سپریم کورٹ کے معزز بنچ نے بھی اُس وقت اختیار کیا جب عمران خاں 25 مئی 2022ء کو جلوس لے کرڈی چوک اسلام آباد میں دھرنا دینے آرہے تھے۔ تب سپریم کورٹ کے 3 رُکنی معزز بنچ نے یہ فیصلہ دیا کہ تحریکِ انصاف ڈی چوک کے بجائے ایچ نائن پارک اسلام آباد میں دھرنا دے۔ تحریکِ انصاف کے وکلاء نے معزز بنچ کو اِس کی یقین دہانی بھی کرائی جس پر وزارتِ داخلہ نے اسلام آباد داخلے کے تمام راستے کھول دیئے لیکن عمران خاں نے اِس فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کارکنوں کو ڈی چوک اسلام آباد پہنچنے کا حکم دیا۔

26 مئی کو وزارتِ داخلہ نے سپریم کورٹ کے 25 مئی کے احکامات کو نظرانداز کرنے پر عمران خاں کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی کی استدعا کی جس پر سپریم کورٹ کا 5 رکنی بنچ تشکیل دیا گیا جس کی سربراہی چیف جسٹس آف پاکستان کر رہے تھے۔ دورانِ کارروائی معزز چیف جسٹس نے فرمایا کہ ایجنسیوں سے معاملے کی انکوائری کرا لیتے ہیں اِس لیے فی الحال تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

ایجنسیوں کی رپورٹس تو عدالتی حکم کے ہفتہ دَس دن بعد ہی آچکی لیکن اَس واضح توہینِ عدالت کا فیصلہ 5 ماہ گزرنے کے باوجود ابھی تک باقی۔ معزز عدالتوں کا نرم رویہ مستحسن لیکن یہ رویہ ہر کہ و مہ کے لیے ہونا چاہیے۔ دست بستہ عرض ہے کہ جب عدالتی فیصلوں پر انگلیاں اُٹھنے لگیں تو پھر عدالتوں کی توقیر کم ہو جاتی ہے جو ملک کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔

اپنی حکومت چھِن جانے کے بعد گزشتہ 6 ماہ سے عمران خاں سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔ وہ کبھی امریکی سائفر کا بہانہ تراشتے ہیں تو کبھی حقیقی آزادی کا پرچم لہراتے ہیں۔ کبھی امپورٹڈ حکومت کے طعنے تو کبھی نئے آرمی چیف کی تقرری پر پھڈا۔ کبھی ریاستِ مدینہ کی تشکیل کے دعوے تو کبھی جہاد کی صدائیں۔ کوشش اُن کی مگر آج بھی یہی کہ اسٹیبلشمنٹ اُنہیں ایک دفعہ پھر گود لے لے لیکن اب “اِن تَلوں میں تیل نہیں”۔ چاروناچار انتہائی مایوسی کے عالم میں وہ فوج کو موردِ الزام ٹھہرانے لگ جاتے ہیں۔ لاریب عمران خاں کو ملک پر مسلط کرنے والی یہی اسٹیبلشمنٹ ہے لیکن اپنی غلطی کا احساس ہونے کے بعداعلان کر دیا گیا “ہم نیوٹرل ہیں” جواباََ عمران خاں نے کہا “نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے”۔

آئین کا تقاضا تو یہی کہ فوج سیاست میں ملوث نہ ہولیکن عمران خاں اپنی وزارتِ عظمیٰ کے لیے اُسے پھر سیاست میں گھسیٹنا چاہتے ہیں کیونکہ اُنہیں ہر حالت میں اقتدار چاہیے جو دن بدن اُن سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ ہمارا کپتان کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ اِدھر اُدھر بھاگنے کے بجائے اپنی قیادت سنبھالنے کی کوشش کریں کیونکہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے مطابق وہ اب تحریکِ انصاف کے چیئرمین بھی نہیں رہے جس پر قیادت کے حریصوں میں ابھی سے سرگوشیاں شروع ہو گئی ہیں۔

کیا کوئی شخص سوچ بھی سکتا ہے کہ ایٹمی پاکستان کا وزیرِاعظم توشہ خانے پر یوں جھاڑو پھیرے گا۔ وہ تو میزپوش، چھوٹے قالین، خطاطی کے نمونے، فریمز، پرفیومز، بٹوے، کف لنکس، ٹی سیٹ، تسبیح، حتیٰ کہ پیپرویٹ اور پین ہولڈر تک اُٹھا کر لے گئے۔ تحفے ہمیشہ یادگار کے طور پر سنبھال کر رکھے جاتے ہیں لیکن عمران خاں نے وہ بھی بیچ کھائے۔ ایک سعودی شہزادے کی گھڑی کا چرچا تو عام ہے۔

شہزادے نے خصوصی آرڈر پر 2 انتہائی قیمتی گھڑیاں بنوائیں جن میں سے ایک گھڑی خود رکھی اور دوسری عمران خاں کو بطور تحفہ دی۔ وہی گھڑی لے کر خاور مانیکا کا بیٹا دبئی پہنچا اور اُسی کمپنی کو بیچنے کے لیے پیش کی جس نے وہ گھڑی تیار کی تھی۔ گھڑی دیکھ کر کمپنی مالکان نے فوری طور پر شہزادے سے رابطہ کیا اور صورتِ حال بتائی۔ شہزادے نے وہ گھڑی خریدنے کا حکم دیا اور یوں وہ گھڑی دوبارہ شہزادے کے پاس پہنچ گئی۔

Advertisements
julia rana solicitors

جب عمران خاں سے اُس گھڑی کے بارے میں سوال کیا گیا تو اُنہوں نے کہا “میرے تحفے میری مرضی”۔ پھر کہا وہ گھڑی بیچ کر میں نے اپنے گھر بنی گالہ کی سڑک بنوائی۔ حقیقت مگر یہ کہ عمران خاں کی درخواست پر بنی گالہ کی سڑک میاں نوازشریف نے بنوائی تھی۔ توشہ خانے کے تحفوں میں سے کچھ تحفے عمران خاں ویسے ہی اُٹھا کر لے گئے اور کچھ کی انتہائی معمولی قیمت ادا کرکے ہڑپ گئے۔ تاریخِ پاکستان ایسے وزیرِاعظم کو ہمیشہ یاد رکھے گی جس کی حرص نے پاکستان کو دنیا میں بدنام کر دیا۔

Facebook Comments

پروفیسر رفعت مظہر
" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی بات قطر کے پاکستان ایجوکیشن سنٹر (کالج سیکشن)میں ملازمت کی آفر ملی تو ہم بے وطن ہو گئے۔ وطن لوٹے تو گورنمنٹ لیکچرار شپ جوائن کر لی۔ میاں بھی ایجوکیشن سے وابستہ تھے ۔ ان کی کبھی کسی پرنسپل سے بنی نہیں ۔ اس لئے خانہ بدوشوں کی سی زندگی گزاری ۔ مری ، کہوٹہ سے پروفیسری کا سفر شروع کیا اور پھر گوجر خان سے ہوتے ہوئے لاہور پہنچے ۔ لیکن “سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں“ لایور کے تقریباََ تمام معروف کالجز میں پڑھانے کا موقع ملا ۔ زیادہ عرصہ یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور میں گزرا۔ درس و تدریس کے ساتھ کالم نویسی کا سلسلہ بھی مختلف اخبارات میں جاری ہے۔ . درس و تدریس تو فرضِ منصبی تھا لیکن لکھنے لکھانے کا جنون ہم نے زمانہ طالب علمی سے ہی پال رکھا تھا ۔ سیاسی سرگرمیوں سے ہمیشہ پرہیز کیا لیکن شادی کے بعد میاں کی گھُٹی میں پڑی سیاست کا کچھ کچھ اثر قبول کرتے ہوئے “روزنامہ انصاف“ میں ریگولر کالم نگاری شروع کی اور آجکل “روزنامہ نئی بات“ میں ریگولر دو کالم “قلم درازیاں“ بروز “بدھ “ اور “اتوار“ چھپتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply