سماج کہانی/قسط1- شاکر ظہیر

ٹیکسلا ایک تاریخی شہر ہے، جہاں بدھا تہذیب کے بہت سے آثار موجود ہیں ،جیسے جولیاں یونیورسٹی ، دھرما راجیکا سٹوپا وغیرہ ۔ انہی تاریخی آثار کی وجہ سے اس شہر کو ورلڈ ہیریٹیج کہا جاتا ہے ۔ یہ شہر بہت سے فاتحین کی گزرگاہ بھی رہا ہے ، سکندر اعظم اور شیر شاہ سوری ان میں نمایاں ہیں ۔ قیام پاکستان سے پہلے یہاں ہند ؤوں کی بہت بڑی تعداد آباد تھی ، جن کی باقیات آج بھی مندروں کی شکل میں موجود ہیں ۔ قیام پاکستان کے وقت کچھ مہاجرین یہاں آ کر آباد ہوئے اورہجرت کرنے والے ہندوؤں کی پراپرٹی انہیں الاٹ کی گئی ۔ پھر 1948 ، 1965 اور 1971 کی جنگوں میں کشمیری مہاجرین کی بڑی تعداد یہاں آباد ہوئی ۔ افغان جنگ کے دوران بھی بڑی تعداد میں افغان مہاجرین بھی یہاں آئے اور یہیں کے ہو کر رہ گئے ۔

ٹیکسلا شہر ایک جنکشن پر واقع ہے ۔ ایک طرف پشاور کو راستہ جاتا ہے اور دوسری طرف حویلیاں کو ۔ انگریز دور میں جب ریل کی پٹری بچھائی جا رہی تھی تو اس کےلیے پتھر یہیں ٹیکسلا سے ہی نکالا گیا ، جسے ٹیکسلا بلیک سٹون کہا جاتا ہے ۔ ٹیکسلا میں روزگار کے مواقع پیدا ہونے کی وجہ سے پاکستان کے مختلف علاقوں کے لوگوں آباد ہو گئے ۔ مقامی طور پر یہاں کی آبادی اس سے پہلے بہت کم تھی ۔ پانی کی فروانی کی وجہ سے زمین زرخیز ۔ خانپور کا مالٹا اور لیچی مشہور اور اپنا منفرد ذائقہ رکھتے ہیں ۔ ایوب خان کے دور میں خانپور گاؤں کے پاس ایک ڈیم بنایا گیا اور چائنا کے تعاون سے ہیوی ری بلڈ فیکٹری ، ہیوی مکینکل کمپلکس ، ہیوی فونڈری اینڈ فورج فیکٹریاں قائم کی گئیں ۔ بہت سے دوسرے علاقوں کے لوگ ان فیکٹریوں میں کام کےلیے آئے اور پھر یہیں ٹیکسلا میں آباد ہو گئے ۔

1990 کے بعد حطار کو انڈسٹریل اسٹیٹ کا درجہ دے دیا گیا اور ساتھ ہی کچھ عرصے میں کچھ اور فیکٹریوں کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ۔ حال میں قبائلی علاقوں میں آپریشن کے دوران میں بھی مہاجریں کی بڑی تعداد شہر میں آ کر آباد ہوئی ، جس سے شہر کی آبادی کئی گنا بڑھ گئی ۔

جہاں آبادی بڑھی وہاں کاروبار کے مواقع بھی زیادہ ہو گئے لیکن اس کے ساتھ ساتھ سماجی لحاظ سے معاشرے میں تبدیلیاں آنی شروع ہوئیں۔ آبادی کے اس بہاؤ ، کاروبار میں اضافے، امن و امان کی اچھی صورتحال کی وجہ سے اس آبادی کے لیے کئی نئی رہائشی کالونیاں بھی بنیں ۔ ان رہائشی کالونیوں میں مکس کلچر کے لوگ آ بسے ۔ یہ مکس کلچرکسی قدر آزادی بھی ساتھ لے کر آیا ۔ جہاں آپ مقامی جدی پشتی لوگوں کے درمیان رہتے ہیں، وہاں کے سماجی دباؤ کی وجہ سے بہت سی اخلاقی قباحتیں دبی رہتی ہیں ۔ کیونکہ مقامی محلے کے لوگ ایک دوسرے کو اچھی طرح سے جانتے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے تعلق واسطہ اور رشتہ داریاں بھی ہوتی ہیں ۔ جب کہ ایسی نئی مکس کلچر آبادیوں میں یہ دونوں باتیں نہیں پائی جاتیں ۔

آج اگر ان سماجی تبدیلیوں کا جائزہ لیا جائے تو چشم کشا انکشافات سامنے آتے ہیں ۔ عدالتوں میں طلاق اور خلع کے کیسز کی بھرمار ، ایک بڑا اور سنگین مسئلہ ہے ۔ سنگین اس پہلو سے کہ اس کے اثرات معاشرے کے مستقبل پر بہت گہرے پڑتے ہیں ۔ بچوں کی تربیت ایسی بروکن فیملیز میں بہت ناقص ہوتی ہے جس کی وجہ سے خاندان اور معاشرے کو کارآمد افراد نہیں ملتے ۔ دوسرے معاشرتی و اخلاقی اقدار پامال ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور بے راہ روی بڑھتی ہے ۔ جب بھی کورٹ کا چکر لگے توعجیب و غریب واقعات سننے کو ملتے ہیں ۔

ایک کانوں سنا واقعہ پیش کرتا ہوں ۔ ایک خاتون دو بچوں کی ماں تھی ، اس کا شوہر کام کی غرض سے بیرون ملک تھا ، اورباقاعدگی سے بیوی بچوں کو خرچے کے لیے اچھی خاصی رقم خرچے کے لیے بھیجا کرتا تھا ۔ خاتون کو اگر شہر میں کہیں آنا جانا ہوتا توایک رکشے والے کو فون کر کے بلا لیتی ۔ خاتون کی عمر تقریباً بتیس سال اور رکشے والے کی عمر تقریباً پچیس سال تھی ۔ رکشے کے اسی مختصر سفر میں دونوں کو پیار ہو گیا ۔ خاتون نے شوہر کی غیر موجودگی میں کیس کر کے خلع لے لی اور اس رکشے والے سے کورٹ میرج کر لی ۔ لیکن خلع کی اطلاع پہلے شوہر کو نہیں دی ۔ وہ بے چارہ لگاتار اسی طرح پیسے بھیجتا رہا اوریہ خاتون موج مستی میں مگن رہی ۔ اس کا شوہر جب بھی پاکستان گھر آتا ، رکشے والا اپنے گھر چلا جاتا اور یہ اپنے پہلے شوہر کے ساتھ اس خلع اور نئے نکاح کے باوجود اکٹھی رہتی ۔ پہلے شوہر پر یہ راز آٹھ سال بعد کھلا کہ یہ خاتون تو قانونی طور پر میری بیوی ہی نہیں ہے ۔ اس کیس کی قانونی اور دینی حیثیت کیا ہے ، اس سے اگر صرف ِ نظر بھی کیا جائے اور صرف اخلاقی طور پر دیکھا جائے تو ایک عامی بھی یہی کہے گا کہ یہ ہمارے مذہب اورہماری تہذیب کے ساتھ گھناؤنا مذاق ہے ۔

اس معاشرے میں ایسی کئی کہانیاں بکھری پڑی ہیں ۔ یہ انتہائی اہم موضوع ہے ان لوگوں کےلیے جو یہ سوچتے ہیں کہ اپنی آئندہ نسل کو کیسی معاشرتی اقدار اور کیسی اخلاقی اقدار دیں گے ۔ جہاں والدین ضروریات زندگی کی تگ و دو میں مصروف ہیں ، وہاں بچے موبائل ہاتھ میں لے کر پیدا ہوئے ہیں ۔ یہ نسل والدین اور اسلاف کی روایات کی بجائے انٹرنیٹ سے سیکھ رہی ہے ۔ بنیادی اخلاقی تربیت کا ماحول میسر نہ ہونے کے باعث یہ نسل ایسی کہانیاں اور ایسے افسانے تخلیق کر رہی ہے، جنہیں سن کر عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بنیادی اخلاقیات نہ سکولوں کی ترجیحات میں شامل ہیں اور نہ ہی گھریلو ماحول میں اس کا کوئی اہتمام کیا جا رہا ہے ۔

وہ لوگ جو اس بات کے دعویدار ہیں کہ ہم اسلامی معاشرے میں رہتے ہیں ، میں انہیں کہتا ہوں کہ اس غلط فہمی سے باہر آئیں ، حقیقت یہ ہے کہ ہم اسلامی تو کیا انسانی معاشرے میں بھی نہیں رہتے ، کیونکہ ہمارے پاس بنیادی انسانی اخلاقیات بھی موجود نہیں ہیں ۔ کیا وضو کے فرائض اور کیا غسل کے واجبات ، کیا جنازے کی تکبیریں اور کیا اولیاء کی داستانیں یہاں تو خود خدا اور اس کے ہاں جواب دہی کا تصور بھی ناپید ہوتا جا رہا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply