گولڈن ایج (30) ۔ چھاپہ خانہ/وہاراامباکر

اگر غزالی کی قدامت پرستی اور ہلاکو خان کا بغداد کو تباہ کرنا وجہ نہیں تھی تو پھر؟ کئی جدید مورخین کے مطابق اس کی بڑی وجہ مغربی کالونیل ازم رہا۔ جبکہ کچھ دوسرے مورخین یہ کہتے ہیں کہ زوال آیا ہی نہیں۔ ان میں سے دوسرا موقف ایک حد تک درست ہے۔ یعنی کہ ایسا نہیں کہ بارہویں صدی میں کچھ ایسا ہوا کہ سب کام چوپٹ ہو گیا۔ مثال کے طور پر ہم وسطی ایشیا میں ماراغا (موجودہ آذر بائیجان) یا مشرقِ وسطٰی میں دمشق میں فلکیات کا بڑا کام چودہویں صدی عیسوی میں ہوتے دیکھتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کالونیل دور جیسے سیاسی عوامل کا کردار ذرا باریک نوعیت کا ہے۔ اسلامی دنیا میں کالونیل دور اٹھارہویں صدی کا ہے۔ اور کالونیل آقاؤں کے لئے تاریخ میں ترمیم کرنا ضروری تھا۔ عباسیوں کے بغداد یا امویوں کے قرطبہ کے کارناموں کی نئی ترتیب دی گئی تاریخ میں اہمیت کم کی گئی۔ اس کی وجہ امپریل طاقتوں کی برتر تاریخ کی وجہ افریقہ اور ایشیا پر قبضے کا جواز دینا تھا۔ لیکن ایسا نہیں تھا کہ کالونیل دور نے عقلی انکوائری کی راہ میں رکاوٹ ڈالی ہو یا کسی نئے ابن الہیثم یا البیرونی تخلیقی ذہن کے جینئس کو روکا ہو۔ سادہ سچائی یہ ہے کہ ایسے وقتوں کو گزرے عرصہ ہو چکا تھا۔ علم کی روشنی کی چکاچوند باقی نہیں رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اہم فیکٹر جس نے مسلمان دنیا میں کردار ادا کیا (اور خاص طور پر عثمانی سلطنت میں)، چھاپہ خانے کی قبولیت میں تاخیر تھی۔ برطانیہ میں چھپنے والی پہلے کتاب “فلسفیوں کے اقوال” 1477 میں تھی۔ یہ ایک عربی کتاب کا ترجمہ تھا جو گیارہویں صدی کے آخر میں لکھی گئی تھی۔ سوال یہ ہے کہ اسلامی دنیا میں چھاپہ خانے کی قبولیت کیوں نہیں ہوئی؟
۔۔۔۔۔۔۔
ایک وجہ تو یہ ہے کہ عربی کا رسم الخط چھاپے کی ابتدائی ٹائپ سیٹنگ کے لئے مسئلہ تھا۔ لاطینی رسم الخط کے جدا حروف کے لئے یہ ٹیکنالوجی آسان تھی۔ عربی کی خمیدہ گولائی والی نیچر ہے اور حروف آپس میں مل کر شکل تبدیل کر لیتے ہیں۔ ٹائپ کے ڈئزائن اور کاسٹ کے لئے یہ پیچیدہ مسئلہ تھا۔ ابتدائی ٹائپ سیٹ کرنے والوں نے خطاطی کو بھی نقل کرنے کی کوشش کی۔ زیر، زبر یا شد کا اضافہ ایک اور چیلنج تھا۔ (یہ بعد میں ترک کر دیا گیا اور آجکل عموماً نہیں کیا جاتا)۔
ایک اور مسئلہ خطاطی کی کامیابی تھا۔ مسلمان دنیا میں خطاطی کا فن اہمیت اور احترام رکھتا تھا۔ یہ آرٹ اور جمال ہی نہیں بلکہ کلچرل شناخت بھی تھی۔ پرنٹنگ اس خوبصورت روایت کو میکانیکی پراسس میں بدل دیتی تھی اور اس کے خلاف مزاحمت سخت رہی، اور ایسا سترہویں صدی تک رہا۔
ابتدائی یورپی چھاپہ خانوں کو بزنس کا موقع درکار تھا۔ انہوں نے شروع کی کتابوں کو عربی مین چھاپہ۔ 1537 میں قرآن کی چھپائی وینس میں پاگانینیی نے کی۔ یہ ایک بڑا پراجیکٹ تھا۔ اس کی ایک ہی کاپی باقی ہے جو 1980 کی دہائی میں انجیلا نووو نے وینس کی لائبریری میں دریافت کی تی۔ اور عربی سے واقفیت والے کم ہی لوگوں نے اسے دیکھا ہے۔ اس کے گرد پرسراریت کا حلقہ رہا ہے، اس وجہ سے مجھے اسے دیکھنے میں دلچسپی تھی۔
اسے دیکھتے ساتھ ہی اس میں چھپائی کی غلطیاں نظر آئیں۔ مثال کے طور پر عربی لفظ “ذٰلِکٗ” ہے جس کے معنی “وہ” کے ہیں۔ اس کو “ذٰلٰکٰ” لکھا گیا تھا جس کے کوئی معنی نہیں۔ یہ معمولی سی غلطی لگے لیکن مسلمانوں کیلئے ایسا نہیں۔ اور اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ جب عثمانیوں کو وینس کے چھاپہ خانے والوں نے اس کی سینکڑوں کاپیاں دیں تو ان کو مسترد کر دیا گیا۔
جب وینس کے تاجر عثمانیوں کو چھاپہ خانے کی افادیت دکھانے میں ناکام رہے تو اس کا نتیجہ یہ رہا کہ یہ استنول سے نکل کر دوسرے علاقوں میں بھی نہیں گیا۔ اور جب عربی چھپائی ترکی میں 1727 میں متعارف ہوئی تو اس میں جغرافیہ، تاریخ اور لسانیات کی کتابیں تو شائع ہوئیں لیکن مذہبی کتابوں کی ممانعت رہی۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply