کرتوت(حصَہ چہارم)جناب سامنا کرنا سیکھیے/عارف خٹک

نائن الیون کے بعد جہاں عراق پر امریکی یلغار نے عرب دنیا کیلئے نئی کامیابیوں کے دروازے کھول دیئے وہاں افغانستان پر امریکی یلغار نے پاک فوج اور ان کے ذیلی خفیہ اداروں کو بے تحاشا پیسہ، بے ہنگم طاقت اور زور زبردستی کا وہ کلچر دیا جس کا جواب شاید صدیوں بعد بھی پاک فوج کے کسی ذمہ دار کے پاس نہیں ہوگا۔

سازشی نظریات رکھنے والے یہاں تک کہتے ہیں کہ جمہوری وزیراعظم نوازشریف کا تختہ الٹانا، نائن الیون سے پہلے کی امریکی ریہرسلز کا حصہ تھیں کہ ملک پر فرد واحد کی آمریت میں کوئی جمہوری جماعت سوال و جواب نہ کرسکے۔ جمہوریت کے اس قتل عام میں تقریباً ہر پاکستانی سیاسی جماعت شامل تھی، جس میں سر فہرست عمران خان کی نوزائیدہ جماعت تحریک انصاف، جماعت اسلامی، ایم کیو ایم شامل تھیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور قوم پرست جماعتیں اس شب خون کیلئے بالکل تیار نہ تھیں۔

افغانستان پر امریکی حملے کے بعد پاکستانی فوج کی پھرتیاں دیکھنے والی تھیں۔ لوگوں کو ماورائے عدالت غائب کرنا، کسی بھی داڑھی والے کو پکڑ کر سی آئی اے کے حوالے کرکے رقم ہتھیانا، ان کیلئے ایک معمول بن گیا تھا۔ جبر و زبردستی کی  اس تاریخ میں سب سے خوفناک اور گھناؤنا کردار پاکستانی اداروں نے یہ سرانجام دیا کہ پاکستان میں تعینات افغان طال بان کا سفیر مُلا عبدالسلام ضعیف کو جس بیدردی سے سفارتی آداب کو بالائے طاق کرکے بغیر کپڑوں کے اور زنجیروں میں جکڑ کر پشاور ایئرپورٹ پر امریکی سی آئی اے کی  ٹیم کے حوالے کردیا گیا اس نے دنیا کے سفارتی آداب کو ہلا کر رکھ دیا اور پاکستان نے سفارتی دنیا میں اس تاریک ترین باب کا اضافہ کیا جس کے بعد سفارتی اخلاقیات میں پاکستان کیلئے اس سے زیادہ برا لفظ ممکن ہی نہیں کہ پاکستانی پیسے کیلئے اپنی ماں کو بھی بیچ سکتے ہیں۔

فوج اور خفیہ ایجنسیوں کی دیکھا دیکھی سیاسی جماعتوں نے بھی پر پُرزے نکالنے شروع کئے اور افغانستان پر ایک طریقہ سے عوامی نیشنل پارٹی نے اپنا حق جتلانا شروع کیا۔ سو افراسیاب خٹک نے پل کا کردار ادا کرکے اسفندیار ولی خان کو امریکیوں کے قریب کرنا شروع کیا۔

امریکیوں کو افغان حملے کے بعد پہلی دفعہ کسی سیاسی جماعت کی تائید حاصل ہورہی تھی وہ اس موقع کو ضائع کرنے کیلئے ہر گز تیار نہیں تھے۔ کیونکہ یہی پارٹی مستقبل میں افغانستان کی  پشتون اکائیوں کو مذاکرات کی میز پر لانے میں اہم کردار ادا کرسکتی تھی سو امریکی خفیہ اداروں نے ان کا پُرجوش استقبال کیا۔ بالآخر ان کے دور حکومت میں عوامی نیشنل پارٹی کے حوصلے اتنے بلند ہوگئے کہ انھوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے بیانئے کو کامیاب کروا کر دنیا کے طاقتور ممالک کیساتھ اپنے تعلقات مضبوط کردیئے، اپنے دور حکومت میں نیدرلینڈ کو خیبر پختونخوا  کی  اکتالیس حساس جگہوں کے سرکاری نقشے تک باضابطہ طور پر دیدیئے۔ یاد رہے  ملک نوید نامی آئی جی پولیس ان سب کارناموں میں اے این پی کیلئے ایک سہولت کار کے طور پر کام کرتے تھے۔

سوات میں ایک طرف اے این پی، مسلح تنظیم پاکستان تحریک طا ل بان کا رونا رو رہے تھے اور دوسری طرف ان کیساتھ مک مکا کرکے سوات کا کمشنر جو طالب ان کیساتھ ایک جگہ بیٹھ کر درس قرآن دیا کرتا تھا، طال بان کی ایماء پر ان کو کمشنر سوات تعنیات کردیا جنہوں نے بعد میں مقامی طا ل بان کو اسٹریٹیجک سپورٹ دی۔

اپنے رہنماؤں کے خلاف ممکنہ حملوں کی مد میں امریکہ سے جدیدترین گاڑیوں اور اسلحہ کا مطالبہ کرڈالا۔ امریکہ کو انہیں  جدید ترین گاڑیاں اور اسلحہ دینے میں تامل نہ ہوا مگر انہوں نے گاڑیوں اور اسلحہ کی شکل میں مدد لینے سے انکار کرڈالا اور اس کے بدلے نقد رقم لینے پر اصرار کیا۔ بالآخر امریکہ کو ان کی بات ماننی پڑی اور ایک خطیر رقم ان کے حوالے کردی گئی۔

حیدر ہوتی کے بھائی غزن ہوتی اور اس وقت کے آئی جی پی خیبر پختونخوا  ملک نوید نے اربوں روپے کی  کرپشن کرکے عوامی نیشنل پارٹی کو تاقیامت ایسے داغ سے نوازا جس کا جواب آج بھی پارٹی کے پاس نہیں ہے۔

اس دوران زرداری کی حکومت کا دورانیہ ختم ہوگیا اور مرکز میں نواز شریف کی حکومت آگئی جنہوں نے اسلحہ اسکینڈل کیس پر بڑی تندہی سے کام کیا۔ اس کیس کو خصوصی طور اس وقت کے چیئرمین نیب عمر زمان چوہدری دیکھ رہے تھے جنہوں نے پختہ ثبوتوں کی  بنیادوں پر کارروائی کرکے غزن ہوتی اور ملک نوید کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا اور ان سے کروڑوں روپے کی ریکوری کیساتھ ساتھ مزید ریکوری پر زور دیا۔ حیدر ہوتی بھی اس کیس میں شامل تفتیش تھا۔ سابق وزیراعلی حیدر ہوتی پارٹی کا واحد بندہ ہے جس سے اسفندیار ولی بھی کنی کتراتا ہے کہ گراونڈ پر پارٹی کو جتوانے میں زیادہ ہاتھ اس کا ہوتا ہے۔ انھوں نے مزید ریکوری دینے سے معذرت کردی اور براہ راست اسفندیار ولی کو دھمکی دیدی کہ کرپشن میں ان سب کا مفاد مشترکہ تھا سو باقی ریکوری کے پیسے آپ کو دینا پڑیں گے۔ اسفندیار باچا خان ٹرسٹ سے ریکوری کے پیسے نیب کو دینے کے حق میں نہیں تھا مگر بیگم نسیم ولی خان کو آگے کرکے ہوتی نے یہ بازی اپنے ہاتھ میں کرلی اور غریب کارکنان کے جمع کردہ پیسوں میں سے ساڑھے تین کروڑ روپے ادا کردیئے گئے۔ ان لوگوں کی خوش قسمتی سمجھیں کہ اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان نے اس وقت فوجی ایما پر نواز شریف کے خلاف  سڑکوں پر لاکھڑا کردیا کہ نواز شریف نے فوج کے مزید بجٹ اخراجات اٹھانے سے معذرت کرلی تھی۔ نواز شریف کو دیوار سے لگایا گیا تو اسفندیار ولی خان نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر نواز شریف سے ملاقات کی اور عمران خان کے خلاف اپنی حمایت کا یقین دلایا تو نواز شریف نے اس کے بدلے نیب کی طرف سے دائرکردہ کیسز کو معاف کروا دیئے۔ اس کام کے فورا ًً بعد اسفندیار ولی نیب چیئرمین سے ملے جس میں اس وقت کے نیب ڈائریکٹر خیبر پختونخوا  بھی شامل تھے، مگر نیب چیئرمین اس بات پر شدید ناراض تھے کہ ان کی ساری محنت اکارت گئی مگر وہ بے بس تھے اور اسفندیار ولی نے اس کے سامنے مکا لہرا کر کہا
“میں دیکھتا ہوں نواز شریف کو کون اپنی جگہ سے ہلاتا ہے”۔
بعد میں عدالت نے نوازشریف کو نااہل کرکے شاہد خاقان عباسی کو نیا وزیراعظم بنوا دیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply