بچوں کی رہنمائی

بچوں کی رہنمائی
زینی سحر
کوئی بھی معاشرہ جب ارتقاء کی منازل طے کررہا ہوتا ہے توکچھ چیزیں اتھل پتھل کا شکار ہو ہی جاتی ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہوتی ہے کے اتھل پتھل دیر پا نہ ہواور اسکے نقصانات کم سے کم ہوں ۔یہ ساری چیزیں پلاننگ سے ہو سکتی ہیں ۔ہمارےیہاں آج کل ایک بحث بہت زیادہ ہو رہی ہے کہ والدین بچوں کو انکی جسمانی یا جنسی لائف کے بارے میں آگاہ نہیں کرتے۔ بچوں سے ڈسکس نہیں کرتے. بچے یہ باتيں باہر سے سیکھتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی زندگی پرابلم کا شکار ہو جاتی ہے ۔آج انٹرنیٹ کا دور آپ کے ایک کلک سے دنیا کا ہر موضوع تحرير ،تصویر اور ويڈيو کی صورت میں آپ کے سامنے کھل جاتا ہے ۔
آج کا چودہ پندرہ سالہ پچہ وہ باتيں ايک کلک سے دیکھ اور جان لیتا ہے جو ہماری پچھلی نسلیں دس دس بچے پیدا کرنے کے بعد بھی نہیں جان پائی تھیں. ميڈيکل سائنس کہتی ہے ڈھائی سال کا بچہ اگر اس کے کچھ مخصوص جسمانی اعضاء کو ٹچ کیا جاۓ تو وہ ایک ري ایکشن ديتا ہے،یعنی وہ بچپن میں ہی اس کے جسمانی اور جنسی لائف کے بارے میں جاننا شروع ہو جاتا ہے ۔اور يہ آگہی اسے قدرت دیتی ہے ۔ہر پیدا ہونے والا بچہ يہ آگہی لے کر آتا ہے۔ والدين کا کام صرف اسے درست سمت دکھانا ہوتا ہے۔میں جب يہ تھیوری پڑھ رہی تھی تو میرے ذہن میں قرآن پاک کے يہ الفاظ گونجے کے مائيں اپنے بچوں کو دو سال تک اپنا دودھ پلائیں۔ نہ ڈھائی نہ تين واضح طور پہ دو سال .
اس کے بعد ہمیں مزید کچھ گائيڈنس، دی جاتی ہیں ۔مثلا ًان کے بستر علیحدہ کر دو ،سات سال کی عمر میں انہیں،نماز کا کہو، جب وہ بالغ ہو جائيں تو انکی شادیاں کر دو ،وغیرہ وغیرہ آج کا دور معاشی طور پر بہت سخت دور ہے۔ انسان کی روزمرہ کی ضروریات بڑھ گئی ہیں جس کے لیے بچوں کو بہت زیادہ پڑھنا پڑتا ہے اور پھر کوئی بہتر نوکری بھی ڈھونڈنی پڑتی ہے۔ جس کی وجہ سے بالغ ہونے کے باوجود ماں باپ انکی شادیاں کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔اس سارے مرحلے میں بچہ مختلف ادوار سے گزرتا ہے…… کچھ نئے در اس پہ وا ہوتے ہیں جسمانی جنسی اور معاشی… وقت کے ساتھ ساتھ اسکی ضرورتيں بھی بدل جاتی ہیں اور بڑھتی رہتی ہیں جنھیں پورا کرنے کے لیے کبھی وہ جائز اور کبھی نا جائز راستہ اختیار کرتا ہے۔اس ساری کہانی میں ماں باپ کا رول یہ ہوتا ہے کہ
بچوں کی رہنمائی کريں ۔
جب بچہ ڈھائی سال کا ہو تو اسے تب سے يہ بتانا شروع کريں کے اسے کسی کے سامنے اپنے کپڑے نہیں اتارنے،اگر کوئی يہ کام کرے تو فورا ًآ کر ہمیں بتاو ۔
اس طرح بچپن میں ہی بچے کو اپنی حفاظت کرنی آ جاتی ہے اور اسے پتہ چل جاتا ہے کہ اس کے لیے درست راستہ کونسا ہے۔پھر جوں جوں اسکی عمر بڑھتی ہے اس عمر کے حساب سے اسکی رہنمائی کريں ۔دین اسلام نے انسان کی ہر طرح کی رہنمائی کر دی ہے اب ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ بچوں تک اس بات کو کیسے پہنچاتے ہیں ۔آپ انٹرنیٹ کے اس دور میں بچوں کو ہر طرح کی چیزيں دیکھنے سے نہیں روک سکتے ۔لیکن آپکی رہنمائی اسے اچھائی برائی کی تمیز سیکھا دے گی وہ ایک دفعہ کوئی غلط کام کرے گا دوسری دفعہ اسے یہ احساس ہو گا کہ يہ کام نہ کرے بڑھتے ہوئے بچوں پر اپنی خصوصی توجہ رکھیں ان کے دوست کو جانیں ان کی نیچرل جانیں۔کيونکہ يہی وہ عمر ہوتی ہے جب يہ فيصلہ ہو جاتا ہے کے انہیں آگے کہاں جانا ہے/جنسی بے راہ روی بھی ایک لت کی طرح انسان کے ساتھ چمٹ جاتی ہے خواہ وہ ہم جنس پرستی ہی کیوں نہ ہو۔آپ بچوں کو ہر رشتے اور تعلق کی لمٹس بچپن میں ہی سمجھا ديں تو بعد میں پچھتانا نہیں پڑتا۔بچوں کو پڑھائی کے سلسلے میں ہوسٹلز میں بھی رہنا پڑتا ہے۔آپ ہر وقت انکے ساتھ نہیں رہ سکتے ۔آپ کی غیر موجودگی میںآپکی دی ہوئی رہنمائی ہی ان کے کام آتی ہے۔
بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہے کےجنسیت ایک پیچیده موضوع ہے اور اس سمجھنا دشوار ہے۔لیکن میرا ماننا ہے کے دین اسلام انسانی زندگی کی ہر پیچیدگی کو نہ صرف سمجھتا ہے،بلکہ اس سے نکلنے کی آپکو گائیڈنس بھی دیتا ہے۔کوئی چیز انسانی زندگی میں چاہے کتنی صدیوں سے رائج ہو اگر وہ غلط ہے تو اسے غلط ہی کہیں ۔اور اگر مذہب نے اسے غلط کہا ہے تو يقیناً کوئی بڑی قباحت ہو گی۔یہ ساری باتيں آپ کو از خود اپنے بچوں کو سمجھانی ہیں بجاۓ اسکے وہ باہر سے سیکھ کر آئيں۔
آپ بچوں کے دوست نہیں بننا چاہتے ،ایک احترام کی دیوار اپنے اور بچوں کے درمیان رکھنا چاہتے ہیں تو ضرور رکھیے ،لیکنآپ رہنما تو بن سکتے ہیں ناں ،سو اپنے بچوں کے رہنما بنيے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply