تحریک انصاف کی حکومت اور طاقت کا کھیل۔۔عبدالحنان ارشد

اگلے چند ایک ماہ عمران خان کے لئے نہایت مشکل   ثابت ہونے والے ہیں۔وفاق میں مسائل بڑھ رہے ہیں۔ تمام اتحادی جماعتیں حکومت سے نالہ ہیں۔ جہانگیر کا جہاز انہیں منانے میں تو سرگرم ہے لیکن ابھی اونٹ کسی کروٹ بیٹھتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔

وزیراعظم کی ان ہاؤس تبدیلی کا چرچہ شہرِ اقتدار کی فضا میں سنا جا سکتا ہے۔جلد باز آنکھیں اس انتظار میں رہتی ہیں کہ دربار سے رخصتی کا پروانہ کبھی بھی آتا ہی ہو گا۔

پنجاب میں بیس سے زیادہ لوگوں پر مشتمل پریشر گرم سرگرم ہے۔ جن کی دن بہ دن تعداد بڑھتی جا رہی  ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے بزدار کو وزارت ِ اعلیٰ سے الگ کرنے کی باتیں ہو رہی تھیں ۔ جنوبی پنجاب کے سیدھے سادھے پُتر نے ہی یہ پریشر گروپ بنایا ہے تاکہ تحریک انصاف بزدار کو ہی وزیراعلی رکھنے پر قائم رہے۔

گورنر سرور جو اکثر اوقات بلندوبانگ دعوے کرتے پائے جاتے ہیں کہ وہ سیاست انگلینڈ سے سیکھ کر آئے ہیں۔ گاہے گاہے ہمیں یہ باور کرواتے رہتے ہیں کہ ایسا تو جمہوریت میں بالکل بھی نہیں ہوتا۔ پھر وہ پنجاب  میں اپنی مرضی کا آئی جی لگا کر یا پھر ضلعی آفیسر سے ناراض ہو کر کیونکہ وہ ان کے بھائی کو ضلعی معاملات میں شامل نہیں کرتا تھا، بتاتے ہیں جمہوریت میں ایسا ہوتا ہے۔ سرور صاحب بھی آج کل اپنی حکومت سے کچھ اکڑے اکڑے ہیں۔ جس کی وجہ ان کے پاس اختیارات کا نہ ہونا ہے۔ انگلینڈ سے سیاست سیکھ کر آ کر بھی انہیں نہیں معلوم پاکستان میں گورنر وفاق کا نمائندہ ہوتا ہے۔ یہ ایک آنریری عہدہ ہوتا ہے۔ جس کا کام اختیارات رکھنا نہیں ہوتا۔ لیکن ادھر اپنے سرور صاحب کو اختیارات چاہئیں ۔ آخر تحریک انصاف کی پنجاب میں حکومت بنانے میں ان کا بھی پیسہ میرا مطلب پسینہ شامل ہے۔ وہ بھی تو ن لیگ کے دس بیس کے قریب بندے توڑ کر اپنی جماعت میں لے کر گئے تھے۔ اب کچھ اختیارات تو ہونا ان کا حق بنتا ہے۔ ورنہ ان کے دوست انہیں طعنے ماریں گے۔ اب ان کی عزت کا کچھ خیال تو رکھنا بنتا ہے۔ اصول اور آئین تو بنتے ہی ٹوٹنے کے لیے ہیں۔

ادھر کے پی کے میں تین سینئر وزیروں کو ہٹا دیا گیا ہے۔ ان تینوں وزیروں کو وزارت سے ہٹانے کی وجہ نوٹیفکیشن میں بری خراب کارکردگی کو بتایا گیا ہے۔ جبکہ عاطف خان جو کہ تحریک انصاف کے گزشتہ دورِ حکومت میں وزیرِ صحت رہ چکے ہیں۔ تحریک انصاف نے الیکشن میں لوگوں کو دکھانے، مخالفین کو لتاڑنے اور پنجاب میں شہباز شریف کی کارکردگی کا مقابلہ کرنے کے لیے عاطف خان کی وزارت کو ہی رول ماڈل کے طور پر پیش کیا تھا۔ لیکن اب وقت کی ستم ظریفی کہ اسی عاطف خان کو بری کارکردگی کا بہانہ بنا کر نکالا گیا ہے۔ سیانے ایسے  ہی تو نہیں کہہ گئے دشمنی کرنی ہو تو  وار تو بتا کر کرنا چاہیے ۔

وافقانِ حال جانتے ہیں پرویز خٹک کے وفاق میں جانے کے بعد عاطف خان وزارتِ اعلی کے لیے مضبوط امیدوار تھے۔ لیکن آخر میں قرعہ فال محمود خان کے نام نکلا جو کہ پرویز خٹک کے گروپ کے بندے ہیں۔ اب تقریباً ڈیڑھ سال کی حکومت کے بعد  پرویز خٹک اور عاطف خان کا گروپ آمنے سامنے آ گئے تھے۔ عاطف خان گروپ نے تو پشاور میں باقاعدہ ناراض کارکنوں کی ایک میٹنگ رکھی تھی۔ اس کے اگلے ہی دن محمود خان کا گروپ جیت گیا اور عاطف خان کا گروپ گھر کا ہو کر رہ گیا۔ انہیں گھر بھیجنے کا فیصلہ وزیراعظم عمران خان اور محمود خان کی ملاقات کے بعد ہوا تھا۔ دیکھنے والوں نے دیکھا عمران خان نے اسی عاطف خان کو گھر بھیج دیا۔ جن کو عمران خان گزشتہ حکومت میں کارکردگی پر خوب داد  تحسین  سے بھی نوازا کرتے تھے اور انہیں اپنا پیرو قرار دیا کرتے تھے۔ سچ کہتے ہیں سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔

Advertisements
julia rana solicitors

بلوچستان میں تحریک عدمِ اعتماد کی آمد آمد ہے۔
تحریک عدم اعتماد کے لیے اپوزیشن جماعت نہیں بلکہ حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کی جماعت کے اپنے ہی سپیکر جناب عبدالقدوس بزنجو صاحب پَر تول رہے ہیں۔ موصوف اس سے قبل جناب ثناء اللہ زہری کے خلاف بھی تحریک عدم   اعتماد   دے چکے ہیں اور اسے کامیاب بھی کروا چکے ہیں۔ لیکن پچھلی دفعہ تحریک عدم اعتماد کے پیچھے کچھ غیر سیاسی عناصر بھی کارفرما تھے۔ لیکن اس دفعہ بظاہر تو غیر سیاسی افراد بزنجو صاحب کے ساتھ نظر نہیں آ رہے۔ باقی ہونے کو تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ عدم اعتماد کی تحریک اسمبلی میں  لانے کے لیے 33 ووٹ درکار ہوں گے۔ اس وقت حکومت اور اس کے اتحادیوں کے ووٹ ملا کر حکومت کے پاس اکتالیس اور اپوزیشن کے پاس بائیس ووٹ ہیں۔ بظاہر دیکھنے میں ایسا لگ رہا ہے شاید عبدالقدوس بزنجو تحریک لانے میں کامیاب ہو جائیں۔ کیونکہ پاکستانی سیاست میں کچھ ناممکن نہیں ہے۔ جبکہ اس کے برعکس چئیرمین سینٹ کے بقول جو خود بلوچستان عوامی پارٹی کے ہی ممبر ہیں کہ وزیراعلی بلوچستان اور سپیکر کے مابین معاملات حل ہو چکے ہیں۔ کون جانتا ہے کب پرانی شراب نئی بوتلوں میں بکنے کی صدا لگ جائے۔

Facebook Comments

عبدالحنان ارشد
عبدالحنان نے فاسٹ یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ ملک کے چند نامور ادیبوں و صحافیوں کے انٹرویوز کر چکے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ آپ سو لفظوں کی 100 سے زیادہ کہانیاں لکھ چکے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply