منڈی بہاوالدین ؛مسیحا کا منتظر۔۔آغر ندیم سحر

گزشتہ ہفتے گجرات کو ڈویژن بنا دیا گیا اور اس کے اضلاع میں گجرات کے علاوہ منڈی بہاء الدین اور حافظ آباد کو شامل کر دیا گیا۔گجرات کے لوگوں کے لیے یہ یقیناً بڑی پیش رفت ہے مگرکیا گجرات کو ڈویژن بنانے سے منڈی بہاء الدین کے عوام کو بنیادی سہولیات میسر آ سکیں گی؟۔یہ تاریخی ضلع جو پاکستان کا چالیسواں بڑا شہر ہے‘جس کی کل آبادی 1,593,292ہے۔اس شہر کو 2001ء میں پنجاب لوکل گورنمنٹ آرڈیننس کے نفاذ کے بعد میونسپل کمیٹی کا درجہ ملا اور یکم جولائی 1993ء میںوزیر اعلیٰ پنجاب منظور وٹو کے دور میں اسے گجرات سے الگ کر کے ضلع کا درجہ دے دیا گیا۔اب تین تحصیلوں اور 80 یونین کونسلز پر مشتمل یہ پنجاب کا سب سے اہم ضلع ہے ۔ میں اس ضلع کی حالتِ ناگفتہ بہ پربات کرنے سے قبل آپ کو اس علاقے کی مختصر تاریخ سے آگاہ کرتا چلوں۔ 326قبل مسیح میں سکندر اعظم اور راجہ پورس کے درمیان جنگ‘ دریائے جہلم کے جنوبی کنارے پر واقع موضع مونگ میں لڑی گئی(اس حوالے سے نسیم حجازی کا ناول ’پورس کے ہاتھی‘ اہم ہے)‘یہ جنگ سکندر کے کے دور کی آخری بڑی لڑائی ثابت ہوئی۔اس جنگ کے نتیجے میں سکندر نے مونگ کے مقام پر دو شہروں نیکیا(فتح)کی بنیادی رکھی‘اسی جنگ میں سکندر کا گھوڑا بوسیفلاس شدید زخمی ہوا‘جس مقام پر یہ گھوڑا مرا اس مقام کو بوسیفلا کہا جانے لگا‘یہ مقام اب پھالیہ کے نام سے مشہور ہے جو منڈی بہاء الدین کی تحصیل بھی ہے۔ایک اور اہم جنگ 1849ء میں سکھوں اور انگریز کے درمیان چیلیانوالہ میں لڑی گئی جو منڈی بہاء الدین کا ایک معروف قصبہ ہے‘اس قصبے کو تاریخ میں اینگلو سکھ جنگ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے،اس جنگ سے پورا پنجاب برطانوی راج کی زد میں آ گیا‘اس جنگ کی یادگار اب بھی اس قصبے میں ’’گورا قبرستان‘‘کے نام سے موجود ہے۔چیلیانوالہ کے نزدیک رکھ مینار میں اس جنگ میں شریک ہونے والے کئی انگریزی افسر اور سپاہی دفن ہیں۔1506ء میں صوفی بہاء الدین(ملک محمد الدین اعوان) نے پنڈی شاہ جہانیاں میں ایک بستی کی بنیاد رکھی جسے پنڈی بہاء الدین کہا جاتا تھا‘ معروف ادبی مجلہ ’’صوفی‘‘ (اجرائ: 1908) بھی اسی بستی سے نکلتا تھا جس کے مدیر صوفی محمد الدین اعوان تھے۔اس زمانے میں ہندوستان کے دو پرنٹنگ پریس مشہور تھے‘ایک کلکتہ پریس (انڈیا) اور دوسرا صوفی پریس (پنڈی بہاء الدین) تھا۔مجلہ صوفی میں ہندوستان کے درجنوں اکابرین لکھتے رہے جن میں علامہ اقبال اور خواجہ حسن نظامی قابلِ ذکر ہیں۔مجلہ’’صوفی‘‘1940ء تک شائع ہوتا رہا۔مجلہ صوفی کو پانچ دفعہ وارننگ لیٹر بھی ملا ‘ دو دفعہ اس کی اشاعت بند ہوئی‘ایک دفعہ انگریز نے اس کا ڈیکلریشن بھی ختم کیا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد انگریز نے ریلوے کا ایک وسیع نیٹ ورک بچھایا‘آمدنی اور دفاعی مقاصد کے لیے کینال کالونیوں کی بنیاد رکھی۔اس علاقے کے کچھ علاقے جنھیں گوندل بار کہا جاتا ہے‘خشک اور بنجر پڑے تھے۔ان بنجر علاقوں کو قابلِ کاشت بنانے اور محصولات میں اضافے کے لیے ایک عظیم آب پاشی منصوبہ شروع کیا گیا ‘ نہر لوئر جہلم کا مرکزی راستہ 1902ء میںکھودا گیا اور گوندل بار کے بنجر علاقے کو سیراب کرنے کے لیے اس میں پانی چھوڑا گیا۔اسی زمانے میں علاقے کی چک بندی کی گئی اور ٹوٹل اکاون چک بنائے گئے۔ان علاقوں کی زمین ان لوگوں کو تقسیم کی گئی جنھوں نے برطانوی سامراج کے لیے کام کیا تھا۔چک نمبر اکاون کو مرکزی چک قرار دیا گیا ‘اسی جگہ آج شہر منڈی بہاء الدین آباد ہے۔پلان کے مطابق چک اکاون کی تعمیر کی گئی‘بیسویں صدی کے آغاز میں مسلمان‘ہندو‘سکھ تاجر و زمیندار یہاں آ کر آباد ہوئے۔1916ء میں یہاں ریلوے اسٹیشن قائم ہوا‘1920ء میں چک اکاون کو منڈی بہاء الدین (مارکیٹ بہاء الدین) کا نام دیا گیا‘1923ء میں اس قصبے کی گلیوں اور سڑکوں کو سیدھا اور کشادہ کیا گیا‘1924ء میں پنڈی بہاء الدین ریلوے اسٹیشن کا نام منڈی بہاء الدین رکھ دیا گیا‘1937ء میں اس قصبے کو ٹائون کمیٹی کا درجہ ملا‘1941ء میں یہاں میونسپل کمیٹی بنائی گئی‘1946ء میں نو دروازے اور قصبے کی چار دیواری عمل میں آئی۔ تقسیم کے بعد مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد اس شہر میںآکر آباد ہوئی‘1960ء میں اس شہر کو سب ڈویژن کا درجہ دے دیا گیا اور1963ء میںسندھ طاس آب پاشی منصوبے کے تحت رسول بیراج اور قادر آباد لنک کینال منصوبے کا آغاز ہوا جو 1968ء میں مکمل ہوا۔آب پاشی کے اس عظیم منصوبے سے شہر کو تجارتی طور پر بہت فائدہ دیااور آخر کار 1993ء میں اسے ضلع کا درجہ مل گیا۔ اس شہر کی سب سے اہم شناخت گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی ‘رسول ہے جس کی ابتداء پنجاب یونیورسٹی کے تحت اورینٹل کالج لاہور میں سروئنگ کلاس کے اجراء کے ساتھ ہوئی۔1985ء میں یہ کلاس میو سکول آف آرٹس لاہور میں منتقل کر دی گئی جہاں 1906ء میں سکول آف انجینئری قائم ہوا۔یہ نظام کچھ عرصہ قائم رہا لیکن ورکشاپ کی سہولتوں اور عملی تربیت کے لیے جگہ ناکافی ہونے کے سبب 1912ء میں سکول کو رسول ضلع منڈی بہاء الدین میں منتقل کر دیا گیا۔1962ء تک یہ ادارہ (PWD)کے زیر انتظام رہا اور ابتدائی پچاس سال کے عرصے میں بطور سکول آف انجینئرنگ نہایت اہم خدمات سرانجام دیں۔ 1962ء میں ہی اس ادارے کو نظامت فنی تعلیم مغربی پاکستان کے تحت کر دیا گیااور ساتھ ہی تین سالہ ڈپلومہ کورس کا آغاز ہوا۔1972ء کی تعلیمی پالیسی کے تحت یہ ادارہ اکتوبر 1974ء کو گورنمنٹ آف ٹیکنالوجی بنا دیا گیا اور یہاں ڈگری کورسز کا بھی آغاز ہوا۔1999ء میںیہ ادارہ محکمہ تعلیم سے منتقل ہوکر ٹیوٹا کے زیر انتظام کر دیا گیا۔2014ء میں اس تاریخی درسگاہ کو یونیورسٹی کا درجہ مل گیا اور یہاں پانچ مضامین(فکیلٹیز)کی منظوری ہوئی۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply