امام حسنؑ اور امام حسینؑ، باہم(2)۔۔سید ثاقب اکبر

جیسا کہ ہم نے اس مضمون کی پہلی قسط میں اشارہ کیا تھا کہ محرم الحرام کی آمد کے ساتھ ہی بعض کم فہم یا کج فکر افراد یہ بحث بھی چھیڑ دیتے ہیں کہ امام حسنؑ اور امام حسینؑ کا طرز عمل مختلف تھا اور ایسا کیوں تھا۔ امام حسینؑ کے عظیم کردار اور قربانی کے موضوع سے سادہ اندیش مسلمانوں کا رخ موڑنے کے لیے ایسی بحثوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ہم نے قرآن و حدیث سے یہ امر واضح کیا تھا کہ دونوں اماموں کا مقام قرآن و سنت کی نظر میں ایک ہی جیسا بلند ہے اور قرآن و سنت سے بڑھ کر مسلمانوں کے لیے شاہد اور گواہی کی حیثیت کوئی اور چیز نہیں رکھتی۔ ذیل میں ہم یہ امر واضح کریں گے کہ کربلا جو حق و باطل کے مابین سرخ لکیر اور حد فاصل کی حیثیت رکھتی ہے، میں دونوں بزرگوں کا برابر کا حصہ ہے۔

امام حسن علیہ السلام کو مسموم کرنے والے وہی تھے، جو امام حسین علیہ السلام کو شہید کرنے والے تھے۔ کربلا میں جن عظیم الشان ہستیوں کی شہادت ہوئی، وہ دونوں اماموں سے ایک جیسا تعلق رکھنے والی تھیں۔ امام حسین علیہ السلام کے جو بھائی کربلا میں شہید ہوئے اور جن کے سرخیل علمدار کربلا حضرت غازی عباس علیہ السلام تھے، وہ امام حسن علیہ السلام کے بھی بھائی تھے اور جن مخدرات عصمت کی قربانیاں پیام کربلا کی بقاء میں تاریخ کی شہ سرخیوں کی حیثیت رکھتی ہیں، ان کا تعلق دونوں فرزندان رسول ؐسے تھا۔ حضرت ام المصائب زینب کبریٰ علیہا السلام یا حضرت ام کلثوم علیہا السلام دونوں حسنین شریفین کی ہمشیرگان ہیں۔

جس طرح سے امام حسینؑ کی عالی قدر ازواج نے سفر کربلا اختیار کیا اور پھر کوفہ و شام میں اسیری کے دن گزارے، اسی طرح امام حسنؑ کی ازواج بھی اس دور ابتلاء میں شریک رہیں۔ اگر امام حسینؑ کے فرزندوں نے کربلا میں دین کی بقاء کے لیے اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا تو امام حسن علیہ السلام کے پسران ذی وقار بھی ایثار و قربانی کے معرکوں میں پیش پیش رہے۔ کربلا کے واقعے کے ایک محقق جناب مزینانی نے ’’نقش زنان در حماسہ عاشورا‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے، جس میں وہ کہتے ہیں کہ ہم تک جو اسناد پہنچی ہیں، ان کے مطابق امام حسن علیہ السلام کے بیٹوں اور اہل بیت ؑ میں سے ۹ افراد روز عاشورا کربلا میں موجود تھے۔ ان میں سے ایک اُم عبداللہ ہیں، جن کا نام فاطمہ ہے، وہ امام حسن علیہ السلام کی بیٹی ہیں اور امام زین العابدین علیہ السلام کی زوجہ۔ وہ صداقت اور سچائی میں بے مثال تھیں۔

امام صادق علیہ السلام ان کی شان میں فرماتے ہیں: “کانت صدیقۃ لم تدرک فی آل الحسن امراۃ مثلھا۔”، “آپ سچی خاتون اور صدیقہ تھیں، آل حسن میں ایسی خاتون کی مثال نہیں ملتی۔” یہ فاطمہ بنت حسن امام محمد باقر علیہ السلام کی والدہ ہیں، وہ اپنے شوہر امام علی زین العابدین اور بیٹے امام محمد باقر کے ساتھ حادثۂ عاشورا میں موجود تھیں۔(مذکورہ کتاب، ص ۲۲۰)۔ یہ بلند مرتبہ خاتون عالم اسیری میں اپنے بیمار شوہر کو طوق و زنجیر میں جکڑے ہوئے اونٹ پر بیٹھے دیکھتی رہیں۔ دوسری طرف ان کے چار سالہ بیٹے امام محمد باقرؑ بھی روز عاشور دیگر بچوں کے ساتھ بھوک اور پیاس برداشت کرتے رہے۔ انھوں نے خود بھی دیگر مخدرات عصمت کے ساتھ مل کر قیدیوں کے قافلے میں دشمنان دین کے ہاتھوں اذیت و آزار سہی (زنان عاشورای، یزدان پناہ، ص ۴۴ )۔

امام حسن مجتبیٰ ؑ کی زوجہ رملہ بھی واقعہ کربلا میں موجود تھیں۔ ان کے تین بیٹے ابو بکر، قاسم اور عبداللہ تھے۔ حضرت عبداللہ بن حسن اور حضرت قاسم بن حسن واقعہ کربلا میں مقام شہادت تک پہنچے۔ حضرت رملہ بھی دیگر ہاشمی خواتین کے ہمراہ قیدیوں کے قافلے میں موجود رہیں(نقش زنان در حماسہ عاشورا، مزینانی، ص۲۲۱)۔ حضرت قاسم بن حسنؑ کربلا کے وہی نوجوان ہیں، جن سے امام حسینؑ نے کربلا میں پوچھا کہ آپ موت کو کیسا پاتے ہیں تو انھوں نے یہ مشہور جملہ ارشاد فرمایا: “احلی من العسل”، “شہد سے زیادہ شیریں۔” حضرت قاسم ابھی بلوغ کو بھی نہ پہنچے تھے کہ مرتبۂ شہادت پر فائز ہوئے۔(زنان عاشورای، یزدان پناہ، ص ۵۰)
حضرت عبداللہ بن حسنؑ بھی نوجوان تھے، وہ اپنی والدہ کے ساتھ کربلا میں موجود تھے۔ جب انھوں نے اپنے چچا امام حسینؑ بن علی کو دشمنوں کے محاصرے میں دیکھا تو وہ تیز رفتاری سے خیمے سے نکلے اور اپنے چچا کی طرف دوڑے، تاکہ ان کی مدد کرسکیں۔ خواتین نے اس نونہال کو روکنے کی کوشش کی، لیکن انھوں نے کہا کہ خدا کی قسم میں اپنے چچا حسینؑ سے جدا نہیں ہوں گا۔ وہ امام حسینؑ کے پاس پہنچ گئے۔ امام حسینؑ زخمی حالت میں زمینِ کربلا پر تھے، عبداللہ ان سے چمٹ گئے اور کوشش کی کہ دشمن جو وار کرے، وہ ان کے چچا کے بجائے ان پر پڑے۔ بحر بن کعب نے تلوار کھینچی، وہ امام پر حملہ کرنا چاہتا تھا، عبداللہ نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیا، ان کا ہاتھ کٹ گیا۔ امام حسینؑ نے عبداللہ کو اپنے آپ سے چمٹا لیا اور ان کے لیے دعا کی۔ حرملہ نے انھیں اپنے تیروں کا نشانہ بنایا اور وہ شہید ہوگئے(نقش زنان در حماسہ عاشورا، مزینانی، ص۲۲۴)۔

امام حسنؑ کی اولاد میں سے سب سے زیادہ شہرت حضرت حسنؑ بن حسنؑ کو حاصل ہوئی۔ امام حسنؑ کی زیادہ تر اولاد انہی سے ہے۔ انھیں حسن مثنیٰ کہا جاتا ہے۔ کراچی کلفٹن میں حضرت غازی عبداللہ انہی کی اولاد میں سے ہیں۔ حضرت حسن مثنیٰ بھی کربلا میں موجود تھے، انھوں نے اس معرکہ حق و باطل میں حصہ لیا اور شدید زخمی ہوگئے۔ ایک روایت کے مطابق وہ زخمی حالت میں شہداء کے مابین پڑے تھے اور جب دشمن خانوادۂ نبوت کے اسیروں کو وہاں سے لے گئے تو اسماء بن خارجہ انھیں اٹھا کر اپنے ہمراہ لے گئے، ان کا علاج معالجہ کیا اور ان کی رکھوالی کی۔ حضرت حسن مثنیٰ کے بارے میں دیگر تفصیلات ہم شیخ مفید کی معروف کتاب ’’الارشاد‘‘ کی جلد۲ سے ذیل میں پیش کرتے ہیں: “حضرت حسن مثنیٰ کی والدہ کا نام خولہ تھا، وہ منطور فزاریہ کی بیٹی تھیں۔”

Advertisements
julia rana solicitors

شیخ مفید ہی لکھتے ہیں کہ حضرت حسن مثنیٰ ایک گراں قدر، باتقویٰ اور بافضیلت شخصیت تھے، وہ امیر المومنین امام علی ؑ کے صدقات کے مسئول اور متولی تھے۔ وہ عبدالملک بن مروان کی حکومت کے زمانے میں بھی زندہ تھے۔ انھوں نے صدقات کے سلسلے میں حجاج سے اختلاف کیا۔ حضرت حسن مثنیٰ کی ازدواج کے بارے میں منقول ہے کہ امام حسینؑ نے اپنی ایک بیٹی کے بارے میں ان سے خواستگاری کی۔ امامؑ نے ان سے فرمایا میری بیٹیوں میں سے جسے پسند کرو، اسے اپنے لیے منتخب کرلو، لیکن حسن مثنیٰ نے شرم و حیا کی وجہ سے کوئی جواب نہیں دیا۔ امام حسینؑ نے ان کے لیے اپنی بیٹی فاطمہ کو منتخب کیا اور فرمایا: میری یہ بیٹی دوسری تمام بیٹیوں کی نسبت میری ماں حضرت فاطمہ زہراؑ سے زیادہ شباہت رکھتی ہے۔ حسن مثنی 35 سال کی عمر میں رحلت کر گئے۔ ان کی رحلت کے بعد ان کی شریک حیات فاطمہ نے ان کی قبر پر ایک خیمہ نصب کرکے اس میں ایک سال تک اللہ کی عبادت کی۔
ان تفصیلات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کربلا میں امام حسنؑ اور امام حسینؑ کا برابر کا حصہ ہے۔ امام حسن اپنے مقام پر اللہ کی رضا کے مطابق شہادت سرّی پیش کرکے رخصت ہوئے اور امام حسینؑ شہادت جلی پیش کرکے رضائے الٰہی کے ساتھ اپنے نانا بزرگوار کی خدمت میں جا پہنچے۔ دونوں بھائی ایک ہی مشن پر کاربند رہے اور وہ تھا اپنے ناناؐ کے دین کی حفاظت اور آپ کی امت کی اصلاح۔اسلام ٹائمز

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply