عمران خان کے ایک ووٹ کو مسئلہ فیثا غورث بنا دیا گیا ہے ۔ آفرین ہے الیکشن کمیشن پر جو اونٹ نگل رہا ہے اور مچھر چھان رہا ہے ۔ پہلے لوگ صحرا کے جہاز سے پوچھا کرتے تھے : اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی ؟ آج کل وہ یہی سوال الیکشن کمیشن سے پوچھ رہے ہیں۔
سب سے پہلے تو الیکشن ایکٹ کی دفعہ 185 کو دیکھتے ہیں ۔ اس میں ووٹ کی رازداری کی بات کی گئی ہے ۔ اس کی خلاف ورزی پر تین قسم کی سزا ہو سکتی ہے ۔ پہلی یہ کہ مجرم کو قید کر دیا جائے ۔ قید کی یہ سزا زیادہ سے زیادہ چھ ماہ تک ہو سکتی ہے ۔ دوسری یہ کہ جرمانہ عائد کر دیا جائے ۔ زیادہ سے زیادہ ایک ہزار روپے جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے ۔ اور تیسری صورت یہ ہے کہ قید میں بھی ڈال دیا جائے اور ساتھ ہی جرمانہ بھی عائد کر دیا جائے ۔ اس سیکشن کو پڑھ کر ایک عام آدمی کو حیرت ہوتی ہے کہ سزاؤں میں اتنا فرق کیوں؟ ایک طرف چھ ماہ تک تک قید کی گنجائش ہے اور دوسری جانب صرف ایک ہزار روپے تک جرمانہ ۔ پھر تیسری صورت زیادہ سخت کہ بھلے قید میں بھی ڈال دو اور جرمانہ بھی عائد کر دو۔
لیکن آپ اس کی ’’ جورسپروڈنس ‘‘ کو سمجھیں تو حیرت نہیں ہوتی ۔ ووٹ کی رازداری کو پامال کرنے کی مختلف شکلیں ہو سکتی ہیں ۔ آپ ووٹ ڈالنے گئے اور آپ کو خوف ہے کسی بد معاش اور جرائم پیشہ گروہ کو ووٹ نہ ڈالا تو وہ آپ کا جینا حرام کر دے گا ۔ ایسے میں آپ اس گروہ کی تسلی کے لیے یا اس سے پیسے لینے کے لیے اپنے ووٹ کی ویڈیو بنا لیتے ہیں یاآپ تو ووٹ ضمیر کے مطابق دیتے ہیں لیکن الیکشن سٹاف میں سے کوئی آپ کو دیکھ لیتا ہے اور آپ کا راز فاش کر دیتا ہے تو یہ ایک سنگین معاملہ ہے ۔ایک صورت یہ ہے کہ آپ خود ایک پارٹی کے سربراہ ہیں اور ووٹ ڈالتے وقت سب نے آپ کو دیکھ لیا ۔ اب یہ کوئی ایسا جرم نہیں ۔ زیادہ سے زیادہ اسے بے احتیاطی کہہ سکتے ہیں ۔اسی لیے قانون نے کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ سزا رکھ دی تا کہ حالات و واقعات کے مطابق اس کا اطلاق کیا جا سکے۔ عمران خان کا معاملہ ایسا نہیں تھا کہ اسے اتنا لٹکا دیا جاتا ۔ اسے اسی روز ایک ہزار روپے جرمانہ کے ساتھ نبٹایا جا سکتا تھا۔کیا ہم پوچھ سکتے ہیں کہ الیکشن کمیشن نے اسے اتنا طول کیوں دیا؟
عمران خان کی ووٹ ڈالنے کی ویڈیو کو غور سے دیکھیے۔اس ویڈیو کا حاصل چند سوالات ہیں۔
عمران خان جب بیلٹ پیپر وصول کر رہے ہیں تو صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ مہر بھی وہیں پڑی ہے ۔ انہوں نے وہیں سے مہر اٹھائی اور لگا دی ۔ جب آپ نے یہ طے کر دیا تھا کہ باری باری ایک ایک آدمی اندر جائے گا ، اسے بیلٹ پیپر ایشو کیے جائیں گے اور وہ الگ ایک کونے میں جا کر ان پر مہر لگا کر میز پر رکھے ڈبوں میں انہیں ڈال دے گا ۔ جب مہر لگانے کے لیے الگ سے ایک کارنر مخصوص تھا تو مہر کو اسی مخصوص کارنر میں پڑا ہونا چاہیے تھا۔ کیا الیکشن کمیشن بتائے گا کہ مہر کا وہاں کیا کام تھا؟
عملے نے عمران کو بیلٹ پیپر ایشو کیا ۔ عمران نے وہیں مہر لگائی ۔ کیا یہ عملے کا کام نہیں تھا وہ عمران خان کو اس سے منع کرتے ؟ وہ انہیں کہتے یہاں مہر لگا نا خلاف قانون ہے ۔ کسی نے عمران خان کو اس کام سے کیوں نہیں روکا؟
یہ کیسے ممکن ہوا کہ عمران خان ووٹ ڈال رہے ہیں اور ایک ہجوم ان کے ہمراہ ہے ۔ اس ہجوم کو کس نے روکنا تھا ؟ عمران خان کے ساتھ اتنے سے لوگ کیسے اندر جانے دیے گئے؟ یہ الیکشن کمیشن کی کوتاہی ہے یا یہ بھی عمران خان کا جرم ہے؟
عمران کے دائیں بائیں لوگ کھڑے ہیں اور عملے نے عمران کو بیلٹ پیپر جاری کر دیے ۔ کیا عملے کا کام نہیں تھا وہ غیر متعلقہ لوگوں کو وہاں سے ہٹ جانے کا حکم دیتا اور جب وہ ہٹ جاتے تب عمران خان کو بیلٹ پیپر جاری کیا جاتا ؟
یہ بات بھی اہم ہے کہ ایسا ہر گز نہیں ہوا کہ عمران نے بیلٹ پیپز پر مہر لگا کر اسے لوگوں کو دکھایا ہو ۔ انہوں نے صرف مہر لگائی ۔ اس کے ابلاغ کا کام ویڈیو کیمروں نے کیا۔ یہ کیمرے کس کے تھے ؟ اندر کیا کر رہے تھے ؟ اور ووٹ ڈالنے کے عمل کی ویڈیا بنانے پر بھی کیا دفعہ 185کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں؟مت بھولیے کہ بالکل اسی طرح سب کے سامنے محترمہ کلثوم نواز صاحبہ نے بھی2008 میں ووٹ ڈالا تھا اور اس کی ویڈیو یو ٹیوب پر آج بھی موجود ہے۔
اس سارے منظر نامے میں چند چیزیں واضح ہیں ۔ عمران کے ساتھ غیر متعلقہ لوگ اندر آئے جنہیں روکا جانا چاہیے تھا لیکن نہیں روکا گیا ۔ غیر متعلقہ لوگوں کی موجودگی میں بیلٹ پیپر نہیں دیا جانا چاہیے تھا جو دیا گیا ۔ مہر وہیں پڑی تھی۔ مہر لگانے سے انہیں کسی نے نہیں روکا ۔اب سوال یہ ہے کہ کیا دفعہ 185کا اطلاق صرف عمران خان پر ہوگا یا ان سب پر؟ دفعہ 185 میں تو صاف لکھا ہے کہ ووٹ کی رازداری کے خلاف جو کوئی بھی کام کرے گا چاہے وہ ووٹر ہو ، چاہے انتخابی عملہ ہو ، چاہے کوئی پولنگ ایجنٹ ہو، اس کے خلاف کارروائی ہو گی ۔ کیا ہم جان سکتے ہیں ابھی تک کسی اور کے خلاف کیا کارروائی کی گئی؟
اک تماشا لگا دیا گیا ہے ۔ کبھی عمران خان کی جیت کا نوٹی فیکیشن روک دیا جاتا ہے اور کبھی جاری تو کیا جاتا ہے لیکن مشروط طور پر ۔ ملک میں انتقال اقتدار ہو رہا ہے ۔ آئے روز سفرائے کرام بنی گالہ جا کر عمران خان سے مل رہے ہیں ۔ کیا یہ قابل تحسین بات ہے کہ ایسے میں غیر یقینی کی کیفیت پیدا کر دی جائے کہ خدا جانے عمران خان وزیر اعظم بنے گا یا نا اہل ہو جائے گا ۔معمولی سا معاملہ تھا الیکشن کمیشن ایک دن میں فیصلہ کر سکتا تھا ۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ اسے اس قدر الجھا دیا گیا۔
مجھے یاد آ رہا ہے گاؤں میں جب ہم کرکٹ کھیلتے تھے تو ہم اپنے میں سے ایک کو امپائر بنا لیا کرتے تھے ۔ ایک امپائر صاحب فیصلہ بہت تاخیر سے دیتے تھے ۔اپیل کر کر کے کھلاڑی تھک جاتے تب صاحب انگلی اٹھاتے ۔ایک روز ان سے میں نے شکوہ کیا کہ فیصلہ جلدی کیوں نہیں کرتے۔ فرمانے لگے ، مجھے بہت اچھا لگتا ہے جب آپ سب میری طرف دیکھ رہے ہوتے ہیں اور میں نے فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ میں اس لمحے کو پہلے انجوائے کرتا ہوں پھر فیصلہ دیتا ہوں ۔کہیں ایسا تو نہیں کہ الیکشن کمیشن بھی ان لمحوں کو انجوائے کر رہا ہو ۔اتنے دن گزر گئے ابھی تک حتمی نتائج نہیں آ رہے۔روز خبر آتی ہے فلاں حلقے کا نتیجہ روک لیا گیا ۔ اب تو نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ تحریک انصاف کو جناب چیف جسٹس سے درخواست کرنا پڑی ہے کہ نتائج کو التوا میں ڈالے جانے پر نوٹس لیں۔
آر ٹی ایس کی ناکامی سے لے کر اساتذہ کو ذلیل کرنے تک کتنے ہی معاملات ہیں جو الیکشن کمیشن کی توجہ چاہتے ہیں ۔ قوم کے اکیس سو کروڑ روپے انتخابات کے چولہے میں غرق کرنے والے الیکشن کمیشن کا محاسبہ ہونا چاہیے ۔ پانچ سال مراعات کے مزے لوٹنے کے بعد انہیں ایک انتخاب کرانا ہوتا ہے اور ان کا آر ٹی ایس بیٹھ جاتا ہے۔ یہ سارے انتخاب کا مذاق بنا دیتے ہیں ۔ پوری قوم کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں۔اور جب ان سے سوال پوچھا جائے تو یہ قوم کو عمران خان کے ووٹ جیسے نان ایشوز میں الجھا دیتے ہیں ۔ان کی کار کردگی کا عالم یہ ہے کہ سپریم کورٹ کو بھی کہنا پڑ گیا ’’ پتا نہیں الیکشن کمیشن کیسے چل رہا ہے‘‘۔ جناب چیف جسٹس فرماتے ہیں’’ الیکشن کی رات سسٹم بیٹھ گیا ۔ اچھا بھلا انتخابی عمل جاری تھا لیکن الیکشن کمیشن نے مہربانی کر دی ، الیکشن کی رات تین بار رابطے کی کوشش کی شاید چیف الیکشن کمشنر سو رہے تھے ۔ انہوں نے جواب دینا بھی مناسب نہیں سمجھا‘‘
سوال یہ ہے کیا چیف الیکشن کمشنر ابھی تک سو رہے ہیں؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں