“بشت الحساوی” سعودی لباس کی شان

سعودی عرب میں حالیہ امریکی دورے میں سعودی شہزادے محمد بن سلمان نے امریکی صدر جو بائیڈن کا استقبال کرتے وقت سفید رنگ کا بشت (یا مشلح) کیوں پہنا تھا اور اگلے دن مصری صدر عبدالفتاح السیسی کا استقبال کرتے وقت ہلکے بھورے رنگ میں بشت پہنا تھا، عرب اپنی روایات سے آج بھی اتنے ہی جڑے ہوئے ہیں جتنے آج سے صدیوں یا دہائیوں پہلے جڑے ہوئے تھے، بطور ایک سعودی شہزادے کے محمد بن سلطان نے یہ عمل اپنے روایتی سعودی ثقافت کے طور پر  اپنایا تھا، سفید رنگ کا بشت جمعہ کو پہنا جاتا ہے امریکی صدر جو بائیڈن سے ملاقات جمعے کے دن ہوئی تھی، اور ہلکے بھورے رنگ کا بشت ہفتے کے دن پہنا جاتا ہے، اس دن مصری صدر السیسی سے ملاقات ہوئی تھی، اس کے علاوہ ویسے گہرے براؤن رنگ کا بشٹ پیر کے دن پہنا جاتا ہے۔ سعودی عرب میں الاحساء کا علاقہ عربوں کے بہترین لباس بشت کی سلائی کے قدیم ترین علاقوں میں سے ایک ہے، اس لباس کی روایت الحساء کے خاندانوں کو تقریباً ۲۰۰ سال سے وراثت میں ملی ہوئی ہے۔ اسی قابلیت و اہلیت کی بنیاد پر کچھ عرصے تک یہاں کے کچھ خاندانوں کو خانہ کعبہ کے غلاف کی سلائی کا موقع بھی ملا تھا۔

مصنف:منصور ندیم

 

ویسے تو سعودی عرب کا قومی لباس ثوب ہے، جو پورے عرب دنیا میں ٹخنوں کی لمبائی تک کا کرتا ہے، بشت ایک گاؤں ہے جو ایسے ہے مکمل ٹخنوں تک ہے اور ثوپ کے اوپر پہنا جاتا ہے۔ مگر موسم اور اعزاز کے لئے یہاں بطور گاؤن “بشت کی روایت بھی موجود ہے، یہ عرب کا ایسا روایتی سعودی پہناوا ہے جسے امارت، دولت اور تقرب سے بھی وابستہ سمجھا جاتا ہے۔ عرب دنیا میں اس کی تقریبا وہی اہمیت ہے جو کسی روایت پسند مغربی معاشرے میں black tie tuxedo کی ہے۔ بشت جسے یہاں مقامی زبانوں میں مختلف ناموں سے بھی پکارا جاتا ہے۔ بشت کو عربی میں ایک اور معروف نام “مشلح” سے بھی پکارا جاتا ہے، مگر الاحساء میں مختلف ناموں سے بشت تیار کی جاتی ہے۔ اس کے مشہور نام الملکی، المخومس، المتوسع، الطابوق اور المرایا بھی ہیں۔ اس لباس کی رنگت عام طور پر سیاہ، بھوری، سرمئی، خاکستری یا سفید ہوتی ہے۔

’بشت‘ سعودی عرب میں خاص طور پر معروف ہے لیکن یہ تمام خلیجی ممالک میں پہنا جاتا ہے۔ عام طور پر “بشت” کو عرب خاص مواقع جیسے شادیوں وغیرہ پر پہنتے ہیں، لیکن شاہی خاندان کے افراد آپ کو ہمیشہ اسی لباس میں نظر آتے ہیں، ویسے دوسرے اقسام کے لباس کی طرح بشت میں بھی مختلف ورائٹیز ہیں۔ مارکیٹ میں نسبتاً کم قیمت شامی اور اماراتی بشتوں سے لے کر دنیا میں بہترین سمجھے جانے والی الحساوی بشت عرب کے بازاروں میں دستیاب ہے۔ الحساوی بشت الاحساء میں ہی بنائی جاتی ہے، لیکن یہ پورا عرب مانتا ہے کہ بشت الحساوی کے معیار کا لباس کوئی بنا سکتا ہے اور نہ ہی یہ بہت زیادہ دیکھنے میں آتا ہے۔ الحساء میں چونکہ یہ قدیم پیشہ ہے اور یہاں کے کئی خاندان اس کام سے وابستہ ہیں، پہلے بشت کی تیاری بہت زیادہ محنت درکار ہوتی تھی، چونکہ بشت مکمل طور پر بغیر مشینوں  کے بنایا جاتا تھا تو ایک بشت کو ہاتھ سے بنانے میں آٹھ افراد کی ضرورت پڑسکتی تھی جبکہ آج کل ایک فرد ہی مشین سے ایک دن میں بارہ بشت بنا لیتا ہے لیکن ہاتھ سے بشت تیار کرنے میں آج بھی ایک ماہر کاریگر کو پندرہ دن تک لگ جاتے ہیں، ہاتھ سے تیار کردہ بشت کی قیمت زیادہ ہوتی ہے۔

سعودی عرب کے بشت اور خصوصا بشت الحساوی کی ہاتھ سے تیار کردہ بشت کی قیمت ہزاروں ریالوں میں ہے اور اعلیٰ  درجے کی بشت کی قیمت پندرہ ہزار سے بیس ہزار ریال تک ہوتی ہے جبکہ ان کے مقابلے میں شامی اور اماراتی بشت عام طور پر بہت سستی ہیں۔ روایتی بشت الحساوی کی تیاری میں منتخب دھاگے استعمال کئیے جاتے ہیں۔ اس کی کڑھائی کا بھی مخصوص طریقہ کار ہے۔ عموما اچھی بخت الحساوی میں دھاگے چاندی کے ہوتے ہیں، بشت کے لئے خصوصا ًجاپان، جرمنی کے علاوہ نجف اور الوبر کا کپڑا استعمال کیا جاتا ہے۔ صرف کپڑے کی قیمت اندازا ً تین ہزار سے دس ہزار ریال تک ہوتی ہے۔ الحساء میں تاریخی قیصریہ بازار میں بشت سے وابستہ قدیم پیشے کی کئی دکانیں ہیں، مزے کی بات یہ ہے کہ وہاں پر نا صرف بشت پوری روایتی اشیاء کے ساتھ آپ کو نظر آئیں گے، بلکہ جیسے مرد حضرات ثوب کے اوپر بشت پہنتے ہیں ویسے ہی عرب خواتین روایتی برقع (عبایہ) کے علاوہ جو گاؤن استعمال کرتی ہیں وہ خواتین کا بشت کہلاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ : تین ماہ پہلے میں فیملی کے ساتھ عید کی چھٹیوں میں الحساء گیا تھا، وہاں تین دن قیام کیا، الحساء مشرقی سعودی عرب کی ثقافت و روایات کے علاوہ قدیم روایتی کاشتکاری اور ہنر مندوں کا امین شہر ہے، پرانے قلعے نخلستانوں کے علاوہ کئی قدیم ہنر کا گہوارہ شہر، جو آپ کو قدیم عرب ماضی میں لے جاتا ہے۔ یہاں ہم نے قدیم تاریخی بازار “سوق القیصریہ” میں بھی کافی وقت گزارا، جو بخت الحساویکے لئے خاصا مشہور ہے۔ سعودی عرب کے دیگر علاقوں کے برعکس الاحساء  کا علاقہ دستکاری میں اپنی ایک پہچان بنائے ہوئے ہے، ماضی قریب تک یہ پیشہ پورے الاحساء میں رائج تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply