بلا عنوان۔۔یاسر قریشی

کچھ دن پہلے لگ  بھگ چالیس پنتالیس سال قبل  بیتے اس واقعے کا میرے ابو حضور نے اک نجی محفل میں کچھ ان الفاظ کے ساتھ ذکر کیا۔۔۔
جب ملک میں ایوب خان کی حکومت تھی،
من و عن پیش کرنے کی کوشش کررہا ہوں شاید ہم اس واقعے سے کچھ اخلاقی سبق ہی سیکھ سکیں۔والد صاحب کہتے ہیں میں اپنے والد صاحب ، مطلب میرے دادا جی، کی دکان پر بیٹھا ہوں۔۔ایک بابا جی ہماری دکان کے سامنے ہوتے تھے اچانک کہیں سے آئے السلام علیکم کہا۔۔میں نے جواباً  وعلیکم السلام کہا۔چھوٹتے ہی بابا جی نے سلور کا لمبا چوڑا گلاس ہاتھ میں پکڑا ،مٹی کے گھڑے کو اک سائیڈ پر گلاس کے اوپر جھکایا، پانی سے گلاس بھرا غٹا غٹ تین گلاس پانی کے چڑھا گئے۔
قدرے پرسکون ہوئے ،بیٹھے اور اپنے کندھے سے رومال کھینچا’ منہ لگا پانی اور منہ پر آیا پسینہ صاف کیا ،گہرا سانس لیا اور لکڑی کے بنچ پر کمر سیدھی کرکے بیٹھ گئے۔۔میں ان کو بغور دیکھ رہا تھا مگر ان کی اس ساری اضطراری  کیفیت کو سمجھ نہیں پارہا تھا۔بابا جی ادھر ادھر دیکھ کر کہتے ہیں بھائی صاب کدھر ہیں؟
میں نے کہا، ابا جی تو گاؤں گئے ہوئے ہیں،
مگر مجھے بتائیے تو سہی آپ اتنے پریشان کیوں ہیں؟ آپ کی طبعیت تو ٹھیک ہے نا؟
کل آپ پنڈی گئے تھے اپنی دکان جنرل سٹور کا سامان لانے۔۔۔میرے سوال کے جواب پر بابا جی یوں گویا ہوئے،بیٹا آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں کل میں اپنی دکان کا سامان لینے پنڈی گیا تھا۔
رات راجہ بازار مشہور زمانہ مری ہوٹل میں قیام کیا، آج صبح سویرے اٹھا مارکیٹ پہنچا اور اپنی لسٹ کے مطابق پچاس پچپن ہزار روپے کا سامان خریدا،مارکیٹ میں سے مختلف جگہوں سے سامان خرید کر ایک دکان پر جمع کیا کافی سارا سامان تھا ایک ڈھیر سا لگ گیا اس دکان  پر، گھڑی پر ٹائم دیکھا گیارہ بج رہے تھے ۔اسی سوچ وچار میں تھا کہ ریڑھے والا مزدور بلاؤں  تاکہ پنڈی مری بس  اڈے تک سامان لے کر جا سکوں،باہر گلی میں ریڑھے والا مزدور تلاش سکوں ‘اس لیے  میں باہر گلی میں نکل آیا،
ایک آدمی سامنے سے آتا ہے، قریب پہنچتے ہی زور دار آواز میں   مجھے السلام علیکم کہتا ہے،
اور نہایت  گرمجوشی سے مجھ سے لپٹ جاتا ہے جیسے برسوں کا شناسا ہو۔ چاچا جی کیا حال ہے جی؟
میں قدرے حیرانگی سے اس کو سرسے  پاؤں تک دیکھتا ہوں اور کہتا ہوں،معاف کیجیئے گا میں نے آپ کو پہچانا نہیں!
وہ آدمی زور دار قہقہ لگاتا ہے اور کہتا ہے، جناب! پہچاننے کی ضرورت ہی کیا ہے،
آپ مری سے ہیں اور میں بھی ۔مری کے مضافات کے ایک چھوٹے سے بازار کا نام لیتا ہے ۔ ۔اور کہتا ہے فلاں بازار میں میری بھی  دکان ہے ۔میں بھی پنڈی آتا رہتا ہوں سامان وغیرہ خریدنے کے لئے، آپ کو دیکھتا رہتا ہوں۔۔ساتھ ہی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے۔۔کیا کیا خریدا ہے آپ نے؟
بابا جی یہاں پہنچ کر تھوڑی دیر کے لئے رک جاتے ہیں اور کہتے ہیں، میں قدرے مطمئن ہوگیا’ چلو، میں نہیں جانتا اسے یہ تو کم ازکم مجھے جانتا ہے۔۔
بابا جی کہتے ہیں میں نے اسے اب بتانا شروع کیا، فلاں فلاں سامان لیا ہے اور اب ایک ہی  د کان میں فلاں جگہ رکھا ہے،اب ریڑھے والا مزدور کو ڈھونڈنے نکلا ہی تھا کہ  آپ سے ملاقات ہوگئیاب آگے وہی شخص کہتا ہے اچھا اچھا، بہت خوب’ ریڑھے والا مزدور تو ابھی مل جائے گا، مسئلہ ہی نہیں۔ آئیے مجھے دکھائیے کہاں رکھا ہے آپ نے سامان اور کتنا ہے۔
میں بھی اس اجنبی کو ساتھ لے کر اسی  دکان پر پہنچ گیا۔ سامان کا ڈھیر لگا دیکھ کر کہتا ہے ماشاءاللہ، اچھا خاصا سامان خریدا آپ نے میں بھی خوش ہوگیا۔
اور اب وہ اس دکاندار سے ازخود ہی مخاطب ہوتا ہے۔۔معاف کیجیے  جناب! آپ کو تکلیف تو ہوگی۔انشاءاللہ تھوڑی ہی دیر میں ہم سامان آ پ کی  دکان سے اٹھا لیتے ہیں۔

بابا جی کہتے ہیں اب ہم دونوں باہر آتے ہیں۔وہ اجنبی شخص مجھے کہتا ہے چاچا جی گھی کی بڑی شارٹیج ہے آپ نے گھی خریدا کہ  نہیں ؟میں نے کہا یار سوچ تو رہا ہوں گھی خریدنے کا میں بھی مگر گھی تو     ملنے سے رہا، جھٹ سے کہتا ہے، بزرگو! ایہہ   تے مسئلہ  ہی کوئی نہیں۔۔۔کتنے پیسے ہیں آپ کے پاس ؟میں نے بلا سوچے سمجھے کہا، یار میرے پاس   پندرہ ہزار روپے تو ہوں گے، وہ چلتے چلتے رک جاتا ہے۔۔
اپنی جیب میں ہاتھ ڈالتاہے، دس ہزار روپے گنتا ہے اور میرے ہاتھ میں پکڑا دیتا ہے، میں بھی گن کر وہ پیسے اپنی جیب میں رکھ لیتا ہوں اور اس کے کہنے کے مطابق گھی کی خریداری کے لیے اس کے پیچھے پیچھے چل پڑتا ہوں، مختلف گلیوں میں گھماتا پھراتا اک بلڈنگ کے آگے جاکر رک جاتا ہے، جس کے دروازے پر موٹا سا تالا لگا ہوتا ہے،
کہتا ہے، گھی تو یہاں سے ملے گا مگر پتہ نہیں یہ کہاں چلا گیا۔۔واپسی کے لیے مڑتا ہے اور کہتا ہے چلو کوئی گل نئیں میں کچھ کرتا ہوں،باہر مین سڑک پر پہنچ کر ایک ریڑھے والے مزدور کو روکتا ہے اور کہتا ہے
اوئے فلاں دکان سے،پنڈی مری کے اڈے تک چار پھیرے ہوں گے کتنے پیسے لو گے؟
ریڑھے والا کچھ دیر سوچتے ہوئے کہتا ہے چار پھیروں کے بنتے تو بیس روپے ہیں آپ پندرہ دے دینا،
وہ اجنبی غصے سے اسے کہتا ہے بنتے بارہ ہیں تم بیس روپے بتا رہے ہو ،مزدور بے چارہ  دائیں بائیں کرتا ہے، مگر بارہ پندرہ کی بحث چل پڑتی ہے۔

اب وہ اجنبی میری طرف مڑ کر مخاطب ہوتا ہے اور کہتا ہے آپ اس سے سودا کریں،اور وہ اپنے والے اور میرے پیسے مجھے دیں میں گھی لے کر آتا ہوں ،اسی ریڑھے والے کے ساتھ رکھ کر چلتے ہیں،

میں نے بھی بغیر سوچے سمجھے دس ہزار اس کی رقم پندرہ ہزار اپنی جیب سے نقد نکال کر اسے دیے، دیکھتے ہی دیکھتے بائیں طرف ایک گلی میں مڑ گیا۔۔میں اس ریڑھے والے مزدور کے ساتھ اپنے سامان کو بس اڈے تک پہنچانے کا سودا طے کرنے میں مشغول ہوجاتا ہوں۔

دس پندرہ دس پندرہ کی کافی دیر رٹ چلتی رہی کوئی آدھا گھنٹہ تو اسی طرح گزر گیا۔۔آدھے گھنٹے بعد وہ مزدور مجھے کہتا ہے،

او  میرے باپ، مجھے دس روپے ہی دے دینا، سامان کدھر ہے؟ لاؤ ،میں چھوڑ آتا ہوں، مزدور کو میں نے تسلی دی۔۔ تھوڑا صبر تو کرو یار بڑے بے صبرے آدمی ہو۔۔میرا دوست گھی لے کر آتا ہی ہوگا،
مگر آدھ گھنٹہ، ایک گھنٹہ بعد بھی جب نہیں آیا تو مجھے تشویش لاحق ہوگئی، ریڑھے والے مزدور کو تو میں بھول ہی گیا۔۔
دیوانہ وار آس پاس کی تمام گلیوں میں گیا مگر وہ تو جاچکا تھا،
اب میں تھک ہار کر یہی سوچا، چلو اب اپنا سامان لے کر ہی چلتا ہوں۔
واپس دکان پر آیا اور دکان والے سے پوچھا بھائی، یہاں میں سامان خرید کر چھوڑ گیا تھا۔ وہ کدھر ہے؟
دکان والا   مجھے کہتا ہے بزرگو !کون  سا سامان وہ تو ہم لدوا کر کب کا بھیجوا چکے ہیں،
میں نہایت  حیرت سے ۔۔ بھائی کب ؟ گیا کون لے کر گیا؟
دکاندار،بزرگو !جو آدمی آپ کے ساتھ آیا تھا، وہی چار ریڑھے والے مزدور لے کر آیا تھا، وہی لے  گیا۔
بابا جی یہ کہتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رو دیے ۔۔
میں بھی دم بخود بابا جی کی کتھا سن رہا تھا!

Advertisements
julia rana solicitors london

Save

Save

Facebook Comments

یاسر قریشی
لکھنے لکھانے کا شوق والد سے ورثے میں منتقل ہوا۔ اپنے احساسات و جذبات کو قلم کی نوک سے لفظوں میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply