کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(قسط 54)۔۔گوتم حیات

ملک بھر میں جیسے جیسے سوشل میڈیا کا استعمال بڑھ رہا ہے اسی رفتار سے لوگوں کی ذہنی سطح پستی کی جانب گِر رہی ہے، رہی سہی کسر اُن لوگوں نے پوری کر دی ہے جو ملک سے باہر جا کر بیٹھ گئے ہیں۔۔۔ ملک سے باہر جا کر بیٹھنے والوں میں ایسے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جو کام تو کچھ نہیں کرتے، بس یہ لوگ سارا دن اور ساری رات سوشل میڈیا پر بیٹھ کر پاکستان میں رہنے والی مفلوک الحال عوام کے غموں میں دبلے ہونے کی ناکام ایکٹنگ کیے جارہے ہیں۔ لمحہ بہ لمحہ سماجی رابطوں کی سائیٹ پر ان کے  سٹیٹس پاکستان کی عوام کو یہ باور کروا رہے ہوتے ہیں کہ اس دنیا میں ہر جگہ امن و سکون اور عافیت کی بانسریاں بج رہی ہیں سوائے پاکستان کے، دنیا کے کسی خطے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نہیں ہو رہیں، اگر ایسا کچھ ہو رہا ہے تو وہ صرف پاکستان میں ہو رہا ہے۔

ایک منظم طریقے سے ملک کے معزز سیاستدانوں کی کردار کشی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جا رہا۔ موجودہ حکومتی نمائندوں کو چھوڑ کر سب ہی کو چور، ڈکیت ثابت کیا جا رہا ہے۔ کچھ نام نہاد ایکٹیوسٹوں نے پاکستان کو دنیا کی سب برائیوں کی جڑ قرار دے دیا ہے، یہ لوگ اُن ریاستوں کی غیر جمہوری پالیسیوں پر ایک لفظ نہیں کہتے جنہوں نے پاکستان سمیت بہت سے ممالک کو غربت اور جنگ زدگی میں دھکیلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، کیونکہ اگر انہوں نے ایسی ریاستوں پر تنقید شروع کر دی تو انہیں امن کے بیش قیمت انعامات نہیں مل سکیں گے اور نہ ہی انہیں ان ممالک کی شہریت ملے گی جس کے لیے یہ مختلف حیلے بہانوں سے اپنے آپ کو نمایاں کرنے کے جتن میں مصروف ہیں۔ بہت سے لوگ دوسرے ممالک کی شہریت لے کر اب مزے سے وہ زندگی گزار رہے ہیں جو شاید کوئی باضمیر انسان ایک لمحہ بھی گزارنا پسند نہ کرے۔ ایسے لوگ جو بیرونی ممالک کی شہریت اختیار کر چکے ہیں اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے والے انگنت لوگ جو ابھی پاکستان میں ہی مقیم ہیں لیکن ان کی منزل کسی بھی طریقے سے باہر ہی جا کر بسنے کی ہے، سب کے سب اپنے آپ کو عالم فاضل ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔

یہ لوگ سماجی رابطوں کی سائیٹ پر بڑے فخر سے “اقبال” کو گالیاں اور چور کہنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ اقبال کی شاعری کی کسی کتاب کو کھول کر پڑھنا انہیں منظور نہیں ہے، کیونکہ کتاب کھول کر پڑھنا ایک مشکل مرحلہ ہے جبکہ سماجی سائیٹ پر کوئی بھی “گھٹیا پوسٹ” اندھوں کی طرح اپنی وال پر سجانا ایک آسان کام ہے اور یہ ٹھہرے بند دماغوں اور کاہلی و نالائقی کا شکار کہ انہیں “ماخوذ” اور “اخذ” کے لغوی معنی بھی نہیں معلوم۔۔۔ انہیں یہ تک نہیں معلوم کہ “ایڈاپٹیشن” اور “چوری” میں کیا فرق ہے، ان کو لفظ “متاثر” سے بھی شناسائی نہیں ہے، آخر شناسائی ہو بھی کیسے کہ یہ تو کتابوں کی ورق گردانی کو گناہ عظیم سمجھتے ہیں۔ انقلاب کے نام پر لینن اور اسٹالن کے غیر اخلاقی و غیر انسانی کاموں پر ہر دم لبیک کہنے والے، لیکن پاکستان میں پھیلی ہوئی غیر انسانی صورتحال پر مگرمچھ کے آنسو بہا کر شورشرابہ کرنے والے یہ لوگ آخر کب تک کنویں کے مینڈک بنے رہیں گے۔۔۔ ظلم تو ظلم ہوتا ہے چاہے وہ مذہب کے نام پر ہو یا جمہوریت کے نام پر ہو، کمیونزم کے نام پر کیا جائے یا آمریت کے نام پر روا رکھا جائے، اس ظلم کا کسی بھی صورت میں دفاع نہیں کیا جانا چاہیے۔ اسی طرح جبری طور پر لوگوں کو غائب کر دینا ایک جرم ہے، یہ جرم چاہے سابقہ سوویت یونین نے کیا ہو یا موجودہ پاکستان و ہندوستان، چائنہ اور ترکی کی حکومتوں نے کیا ہو، ہمیں اس طرح کے جرائم کی بھرپور طریقے سے مذمت کرنی چاہیے۔۔۔ مگر افسوس کہ کچھ لوگ آج بھی اسٹالن و لینن کی جابرانہ حکومتوں کا دفاع کرنے میں سرگرمِ عمل ہیں لیکن انہیں پاکستان ایسا چاہیے جہاں ظلم کا کوئی نام و نشان تک نہ ہو۔۔۔ یہ دوہرے رویے کیا کوئی سوچنے سمجھنے والا شخص برداشت کر سکتا ہے؟؟؟

میرے خیال میں اگر ایسے رویوں کو کوئی برداشت کر رہا ہے تو وہ اس دنیا کا سب سے بڑا مجرم ہے۔۔۔ مصلحت پسندی کے نام پر جب چاہو خاموش ہو جاؤ اور جب چاہو مظلوم بن کر، کوئی تماشا لگا کر، عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر بیرونِ ملک کی شہریت اختیار کرنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آؤ۔۔۔ جی ہاں یہ ہے ہمارا آج کا پاکستانی معاشرہ اور اس کے تعلیم یافتہ لوگ۔۔۔ جنہیں یہ بالکل بھی منظور نہیں کہ اقبال نے انگریزوں کی طرف سے دیا جانے والا “سر” کا خطاب کیوں لیا۔۔۔ لیکن انہیں اپنے لیے یہ منظور ہے کہ بس کسی بھی طریقے سے یورپ یا امریکہ کی شہریت مل جائے، چاہے اس کے لیے انہیں پاکستان کی شہریت منسوخ ہی کیوں نہ کروانی پڑے۔۔۔

ایسے بےضمیر لوگوں کے لیے میں اپنے دل میں کسی بھی قسم کی کوئی ہمدردی نہیں رکھ سکتا، اپنی کرونا ڈائری کی اس قسط کا سہارا لیتے ہوئے میں آج ان کو اقبال کی کچھ ایسی نظموں کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں جو دوسرے شاعروں کے کلام سے متاثر ہو کر لکھی گئیں تھیں اور ان نظموں پر “ماخوذ” درج تھا بلکہ کچھ نظموں پر تو اصل شاعر کا نام بھی درج کیا گیا تھا اور یہ کام اقبال کی اپنی زندگی میں ہی شائع ہو چکا تھا۔ اس وقت میرے پاس کلیاتِ اقبال کا جو نسخہ موجود ہے وہ انیس سو ستتر میں شائع ہوا تھا، مجھے یہ قیمتی نسخہ ہمارے شہر کی ایک اہم اور سینیئر ایکٹیوسٹ “محترمہ صالحہ اطہر” نے دیا تھا جنہیں ہم سب پیار سے “صالحہ آپا” کہتے ہیں۔
“کلیات اقبال” کے اس نسخے کے “حصہ اؤل” کے مطابق جو نظمیں انیس سو پانچ تک “سر محمد اقبال” نے تخلیق کیں وہ اس میں شامل ہیں، اتفاق سے اس حصے کے شروع کے چند صفحات کو چھوڑ کر کچھ نظمیں “ماخوذ” ہیں، ایک ترجہ شدہ ہے اور کچھ نظموں پر اصل شعراء کے نام بھی درج ہیں۔ ایسی تمام ماخوذ شدہ اور تراجم والی نظمیں عنوان کے ساتھ میں مندرجہ ذیل میں نقل کر رہا ہوں۔

بچوں کے لیے نظم بعنوان “ایک مکڑا اور مکّھی” (ماخوذ)،
“ایک پہاڑ اور گلہری” (ماخوذ از ایمرسن)،
“ایک گائے اور بکری” (ماخوذ)،
“بچّے کی دعا” (ماخوذ)،
“ہمدردی” (ماخوذ از ولیم کوپر)،
“ماں کا خواب” (ماخوذ)،
“آفتاب” (ترجمہ گایتری)،
“پیامِ صبح” (ماخوذ از لانگ فیلو)،
“عشق اور موت” (ماخوذ از ٹینی سن)،
“رخصت اے بزمِ جہاں!” (ماخوذ از ایمرسن)۔
اس حصے میں دو نظمیں ایسی بھی ہیں جو اقبال نے دو عظیم ہستیوں کی یاد میں تخلیق کی تھیں۔ ان میں سے ایک ہے “نالہ فراق” (آرنلڈ کی یاد میں) اور دوسری نظم کا عنوان ہے “داغ” جو کہ ہندوستان کے عظیم شاعر اور اقبال کے استاد “داغ دہلوی” کی یاد میں تخلیق کی گئی۔
ملک بھر میں کچھ لوگ پنجاب دشمنی میں “اقبال” کو بنگال کے “ٹیگور” سے کمتر ثابت کرنے کے لیے بھی آئے روز اپنی سماجی رابطوں کی وال پر ایسی ایسی باتیں لکھ رہے ہوتے ہیں جن کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ تعصب و نفرت کی دیمک ان کے دماغوں کو اندر سے کھوکھلا کر چکی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹیگور ایک عظیم شاعر تھا جو کچھ معاملوں میں اقبال سے بھی بلند تھا لیکن ٹیگور نے اقبال کی موت پر جو اہم بیان جاری کیا وہ معنی خیز تھا جس کو بےشرمی سے یہ لوگ چھپا جاتے ہیں، ہمارے نزدیک تو ٹیگور کے اس بیان کی بہت اہمیت ہے کیونکہ یہ الفاظ اپنے زمانے کے ایک عظیم شاعر کے دوسرے عظیم شاعر کے بارے میں تھے۔۔۔ شاید ان “تعلیم یافتہ، بےضمیر جاہل لوگوں”کی نظر سے ٹیگور کا وہ بیان گزرا ہی نہ ہو کیونکہ کتابوں کو کھول کر پڑھنا تو ان کے نزدیک گناہِ عظیم ہے۔
ٹیگور نے اقبال کی وفات پر جو فرمان جاری کیا وہ کچھ یوں ہے؛

The Death of Sir Muhammad Iqbal creates a void in our literature that, like a mortal wound, will take a very long time to heal. India, whose place today in the world is too narrow, can ill afford to miss a Poet whose Poetry had such Universal Value.
برصغیر پر برطانوی راج کے زمانے کے دو عظیم شاعر اقبال اور ٹیگور اپنی علمی و فکری صلاحیتوں کی بنا پر ہمیشہ کے لیے امر ہو چکے ہیں، ان دونوں ہستیوں کی جسمانی موت کو کئی دہائیاں گزر چکی ہیں مگر اس کے باوجود ان کی شاعری کی معنویت ابھی بھی آفتاب کی مانند روشن ہے۔ علم و ادب کے لاکھوں چراغ بھی آپ ان کے سامنے رکھ دیجیے لیکن ان دونوں شاعروں کی منفرد شناخت کے سامنے کسی کی آنچ نہیں ٹھہر سکتی۔۔۔ کیونکہ ان دونوں شخصیات کے روحانی استادوں نے اپنے لافانی علم کی روح ان کے لفظوں میں تحلیل کر دی تھی۔ یہ کتنی مسحورکن بات ہے کہ اقبال کا روحانی استاد فارسی زبان کا “مولانا رومی” تھا اور ٹیگور کا گرو فارسی زبان کا “حافظ شیرازی” تھا۔

کیا ہم حافظ و رومی کو ایک دوسرے سے کمتر اور بلندتر کر سکتے ہیں۔۔۔ حافظ و رومی، اقبال و ٹیگور اپنے علم و عمل سے لافانیت کا روپ دھار کر امر ہو چکے ہیں۔ ان کی کتابیں ہم جیسے علم دوستوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں مگر افسوس کہ اس ملک کے کچھ “تعلیم یافتہ جاہل لوگوں” کی منزل بس اتنی سی ہے کہ کسی طریقے سے یورپ و امریکہ کی شہریت اختیار کرنے کے لیے عظیم لوگوں کی کردار کشی کی جائے، پروپیگنڈہ کر کے ملک کی سادہ لوح عوام کو یہ باور کروایا جائے کہ اقبال تو کچھ تھا ہی نہیں، وہ تو دوسرے شاعروں کی نظمیں چرا کر اپنے نام سے شائع کرواتا تھا، جو کچھ ہیں بس ہم ہی ہیں، ہمارے علم پر بھروسہ کر کے اقبال کو فراموش کر دیا جائے۔ ان کا بس چلے تو یہ لوگ دنیا بھر کی لائبریریوں میں موجود اقبال کی کتابوں کو جمع کر کے آگ لگا دیں اور پھر کتابوں کی دکانوں پر پابندی لگا دیں کہ اقبال کی کسی بھی کتاب کو شائع یا فروخت نہ کیا جائے۔۔۔ ایسے ہی “لوگوں” کے لیے “ڈاکٹر شہناز شورو” نے کیا خوبصورت بات کہی ہے کہ
“اقبال کے ساتھ معاملہ یہ ہے کہ ایسا بے مثال شاندار شاعر بونوں کے ہاتھ آ گیا، جو سیڑھیاں رکھ رکھ کر بھی اس کے قد کے برابر پہنچنے کی کوشش میں ناکام ہوتے ہیں تو دشنام طرازی پر اتر آ تے ہیں”۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments