نابغہِ روزگار فنکار ” ششی کپور”۔۔ذوالفقار علی زلفی

 1965 کے ہنگامہ خیز ماہ و سال تھے ـ کپور خاندان کے تینوں اہم اراکین پرتھوی راج کپور  ،  راج کپور اور شمی کپور اپنے منفرد فن کے باعث اپنا آپ منوا چکے تھے ـ پرتھوی راج کپور “مغلِ اعظم” کے شہنشاہ اکبر کی صورت خود کو زندہ جاوید بنا چکے تھے ـ راج کپور کو تخلیق و اداکاری کے میدان کا ماہر تسلیم کیا جاچکا تھا ـ ناکامیوں سے لڑتے لڑتے شمی کپور بھی “راجکمار” کا منصب فتح کرکے کامیابی کا جشن منارہے تھے ـ ایسے میں سینما اسکرین پر پیش ہوا “جب جب پھول کھلے” ـ
مدھر موسیقی،  رس بھرے نغمے،  کشمیر کے جنت نظیر مناظر،  پُرکار ہدایت کاری اور سب سے بڑھ کر ایک معصوم کشمیری نوجوان کے کردار میں کپور خاندان کے چوتھے رتن ششی کپور کی دلآویز مسکراہٹ اور فطری اداکاری ـ یقیناً اس فلم کی ہیروئن نندا بھی سراہے جانے کی مستحق ہے ـ ان سب عوامل نے مل کر ششی کپور کو ایک منفرد رومانوی اداکار کے تخت پر فروکش کردیا ـ
یہ ان کا نقطہِ عروج تھا ـ آغاز تو کئی سال قبل جب وہ محض پانچ سال کے تھے تھیٹر پر ہوچکا تھا ـ پرتھوی تھیٹر سے کم سنی میں آرٹ کی دنیا میں قدم رکھنے والے ننھے ششی کپور نے تقریباً دس سال کی عمر میں کیمرے کا سامنا سب سے پہلے 1948 کو اپنے بڑے بھائی اور ہندی سینما کے لیجنڈ فنکار راج کپور کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم “آگ” سے کیا جس میں انہوں نے راج کپور کے بچپن کا کردار نبھایا ـ بعد ازیں وہ راج کپور کی شہرہِ آفاق فلم 1951 کی “آوارہ” میں بھی ان کے بچپن کے کردار میں جلوہ گر ہوئے ـ قبل ازیں  وہ 1950 کو دادا منی اشوک کمار اور نلینی جیونت کی سپرہٹ فلم “سنگرام” میں بھی بطورِ چائلڈ آرٹسٹ کاسٹ ہوئے ـ
1961 وہ سال ہے جب انہوں نے مرکزی کردار ادا کرنے کا آغاز کیا ـ عام طور پر سمجھا جاتا ہے ششی کپور کی پہلی فلم “دھرم پتر” ہے ـ مقبولیت اور شناخت کے لحاظ سے یہ بات درست ہے مگر ریکارڈ کی درستگی کے لئے یہ کہنا ضروری ہے کہ ان کی پہلی فلم “چار دیواری” ہے اور یہ دونوں فلمیں ایک ہی سال یکے بعد دیگرے ریلیز ہوئیں ـ ہندو انتہا پسندی اور مسلمانوں کو نشانہ بنائے جانے کے حساس مسئلے پر بنی فلم “دھرم پتر” میں انہوں نے خاندانی روایت کا سلسلہ برقرار رکھتے ہوئے نہ راج کپور کا سایہ بننا گوارا کیا،  نہ شمی کپور کا راستہ اختیار کیا اور نہ ہی پرتھوی راج کپور کا انداز اپنایا ـ انہوں نے اداکاری میں ایک نئے انداز کو متعارف کیا جو رفتہ رفتہ ان کی شناخت بنتی گئی ـ آج کا بھارت جہاں مودی ازم سینما کے لئے خطرہ بنتا جارہا ہے وہاں اب شاید ہی کوئی بی.آر چوپڑہ “دھرم پتر” جیسی فلم بنانے کی جرات کرسکے اور شاید ہی کسی ششی کپور میں انتہا پسند ہندو بننے کی ہمت ہو ـ
فلمی کیریئر اپنانے سے قبل وہ برطانوی ڈرامہ کمپنی “شیکسپیئرین” سے منسلک تھے ـ اس کمپنی کے ہمراہ مختلف شہروں میں اداکاری کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں کمپنی سے وابستہ نوخیز انگریز لڑکی جنیفر کینڈل سے محبت ہوگئی ـ دوطرفہ محبت 1960 کو شادی پر منتج ہوئی ـ
1961 سے لے کر 1965 تک ششی کپور مختلف فلموں میں اداکاری کا جوہر دکھاتے رہے جن میں سے کچھ کامیاب اور کچھ ناکام ہوئیں مگر وہ اپنی شناخت بنانے اور منوانے میں ناکام رہے تھے ـ انہیں اس کا موقع 1965 کو سورج پرکاش کی ناقابلِ فراموش فلم “جب جب پھول کھلے” سے ملا ـ یہ بلاشبہ ان کا دوسرا جنم تھا،  پہلا جنم 08 مارچ 1938 کو اس وقت ہوا جب انہوں نے بلبیر راج کپور کے نام سے کلکتہ میں پرتھوی راج کپور کے سب سے چھوٹے بیٹے کی حیثیت سے دنیا میں قدم رنجہ فرمایا ـ
“جب جب پھول کھلے” نے ہندی سینما کو رومانوی اداکاری کے ایک نئے انداز سے روشناس کروایا ـ یہ انداز دلیپ کمار ، منوج کمار ، دھرمیندر اور راجیندر کمار جیسے رومانوی اداکاروں سے یکسر مختلف ایک شوخ ، بے تکلف اور چلبلے نوجوان کا انداز تھا ـ 1969 کو راجیش کھنہ نے دھماکہ خیز فلم “ارادھنا” کے ذریعے رومانس کو ایک نیا اور توانا آہنگ دیا ، راجیندر کمار اور منوج کمار بدلتے موسم کا مقابلہ نہ کرپائے جبکہ دھرمیندر ایکشن کی جانب نکل چکے تھے ایسے میں صرف ششی کپور اپنے مخصوص اور منفرد انداز کے ساتھ قائم رہے ـ ان کی مسکراہٹ کے سحر کو راجیش کھنہ بھرپور رومانوی قوت کے باوجود توڑنے میں کامیاب نہ ہوسکے ـ
“جب جب پھول کھلے” کے بعد تو جیسے گاڑی سیٹی بجاتی اسٹیشن سے نکل پڑی ـ  “کنیادان” ، “حسینہ مان جائے گی” ، “پیار کئے جا” ، “اک شریمان،  اک شریمتی” ، “پتنگا” سمیت متعدد خوبصورت فلموں نے ان کی پوزیشن کو مزید مستحکم کردیا ـ
1972 کو البتہ وہ ایک گرداب میں پھنس گئے ـ امریکی ہدایت کار کونرڈ روکس نے ششی کپور اور سیمی گریوال کو لے کر جرمن ناول نگار ہرمن ہیسے کے شہرہِ آفاق ناول “سدھارتھ” پر فلم “سدھارتا” بنائی ـ اس فلم میں ششی کپور اور سیمی گریوال کے درمیان جنسی اختلاط کے بے باک مناظر اور سیمی کی ننگی چھاتیوں نے قدامت پسند بھارتی معاشرے میں طوفان کھڑا کردیا ـ سیمی گریوال گوکہ قبل ازیں 1970 کو راج کپور کی فلم “میرا نام جوکر” میں بھی الف ننگی سین کرچکی تھی مگر چونکہ مزکورہ فلم میں سین کو ڈریم سیکوینس میں دکھا کر ان کا چہرہ چھپایا گیا تھا اس لئے اس وقت تنازع پیدا نہ ہوا مگر “سدھارتا” میں تمام “حدیں” پار ہوچکی تھیں ـ بھارتی سینسر بورڈ کو بھی فلم کی عوامی نمائش پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ـ تنازع اپنی جگہ “سدھارتا” بہرحال ایک اچھی اور متاثرکن فلم ہے ـ
اس تنازع  کے سرد ہوتے ہی ششی کپور دوبارہ پرانی ڈگر پر چل پڑے ـ 70 اور 80 کی دہائیوں میں ان کا فلمی کیریئر دو حصوں میں منقسم ہوگیا ـ ایک حصہ وہ تھا جہاں پوری فلم کا بار ان کے کندھوں پر تھا جیسے “فقیرا” ، “دیوانگی” ، “ہیرا اور پتھر” وغیرہ جبکہ دوسرے حصے میں وہ امیتابھ بچن،  سنجیو کمار،  راجیش کھنہ،  ونود کھنہ اور دیگر کے ساتھ نظر آئے ـ ان کی بہترین جوڑی امیتابھ بچن کے ساتھ رہی جنہوں نے مل کر “دیوار” ، “ترشول” ، “سلسلہ” ، “کبھی کبھی” ، “شان” ، “دو اور دو پانچ” ، “ایمان دھرم” ، “نمک حلال” اور “کالا پتھر” جیسی سپرہٹ فلموں کی قطار لگادی ـ ان فلموں میں ششی کپور نے خود کو ایک ہمہ جہت فنکار کے طور پر منوایا ـ کسی میں وہ مزاحیہ کردار ادا کرتے نظر آئے،  کسی میں ایکشن اور کہیں سنجیدہ ـ ان فلموں میں “دیوار” کو یہ خاصیت حاصل ہے کہ اس فلم کے ایک سیکوینس میں جب امیتابھ بچن کہتے ہیں “میرے پاس گاڑی ہے،  بنگلہ ہے،  پیسہ ہے،  تمہارے پاس کیا ہے؟” تو وہ مستحکم لہجے یہ کہہ کر “دیوار” ڈھا دیتے ہیں “میرے پاس ماں ہے” ـ ان کا یہ ڈائیلاگ ایک ضرب المثل بن چکا ہے ـ
 70 کی دہائی کے اواخر میں انہوں نے ایک اور جست لگاکر پروڈکشن کے پرخطر میدان میں قدم رکھا ـ یہاں ان کی کم از کم دو فلمیں ایسی ہیں جنہیں کتاب کا درجہ دیا جاسکتا ہے ـ ان میں سے ایک ہے 1978 کو 1857 کی جنگِ آزادی کے پسِ منظر میں بنائی گئی “جنون” جس میں ان کی اہلیہ و بچوں سمیت نصیرالدین شاہ نے بھی ان کا ہاتھ بٹایا ـ یہ ہر لحاظ سے ایک بہترین اور لاجواب فلم ہے ـ دوسری ہے “کلیوگ” ـ اس فلم میں متوازی سینما کے باصلاحیت فنکاروں جیسے اننت ناگ،  کلبھوشن کھربندا،  سپریا پاٹک وغیرہ نے ان کے ساتھ اداکاری کا مظاہرہ کیا ـ ان فلموں نے ششی کپور کی فلمی مہارت،  ذہانت اور خلاقیت پر مہرِ تصدیق ثبت کردی ـ
ان کی پروڈکشن میں بنائی گئیں دیگر دو فلمیں “Utsav” اور “وجیتا” بھی قابلِ قدر ہیں مگر یہ فلمیں مزکورہ بالا فلموں کی مانند حددرجہ متاثر کن نہیں ہیں ـ اسی طرح ان کی پروڈکشن و ہدایت کاری میں 1991 کی فلم “عجوبہ” بھی مہنگے سیٹ اور امیتابھ بچن و ان کے ہونہار بھتیجے رشی کپور جیسے میگا اسٹارز کی موجودگی کے باوجود ایک بور کردینے والی فلم ثابت ہوئی ـ
اگر 1986 کی فلم “نیو دہلی ٹائمز” کا الگ سے ذکر نہ کیا جائے تو یقیناً زیادتی ہوگی ـ کارپوریٹ میڈیا کی گندگی اور سیاہ کاریوں سے پردہ اٹھاتی اس فلم میں ششی کپور نے اداکاری کے دریا بہا دیے ہیں ـ میڈیا سے منسلک صحافیوں یا صحافت میں دلچسپی رکھنے والے افراد کو یہ فلم ضرور دیکھنی چاہیے ـ ششی کپور کی فن کی بلندی اور عظمت کو سمجھنے کے لئے یہی ایک فلم کافی ہے ـ بلاشبہ وہ ایک لیجنڈ فنکار ہیں جن پر ہندی سینما کو ہمیشہ ناز رہے گا ـ
ہندی سینما کے لئے ان کی آخری فلم مرچنٹ آیوری پروڈکشن کی “محافظ” ثابت ہوئی ـ 1993 کی اس فلم میں انہوں نے مرتی ہوئی اردو زبان کے زندہ شاعر کا کردار نبھایا ـ
ان کی آخری فلمیں انگریزی زبان میں 1998 کو ریلیز ہوئیں جن میں سے ایک بانیِ پاکستان محمد علی جناح کی زندگی پر مبنی “جناح” ہے جس میں انہوں نے کرسٹوفر لی کے ساتھ ضمنی کردار نبھایا جبکہ دوسری ان کے عزیز ترین دوست اسماعیل مرچنٹ کی مرچنٹ آیوری پروڈکشن کی پیشکش “سائیڈ اسٹریٹس” ہے ـ ان دونوں فلموں میں ان کی نقاہت اور معذوری عیاں ہے ـ
ان کے بعد انہوں نے فلمی دنیا سے کاملاً کنارہ کشی اختیار کرلی ـ اکیسویں صدی کے آغاز سے ہی ان پر بیماریوں نے حملہ کردیا مگر وہ لڑتے رہے ـ بیماری نے ان کو ویل چیئر اور گھر تک محدود کردیا ـ 2015 کو وہ ہندوستانی سینما کے سب سے بڑے اعزاز “دادا صاحب پھالکے ایوارڈ” سے سرفراز کئے گئے ـ
انہوں نے اپنے بچوں کنال کپور اور سنجنا کپور کو بھی فلمی دنیا سے متعارف کروایا مگر ان کے بچے اداکاری نہ کرپائے ـ حقیقت پسند فنکار نے اپنے بچوں میں صلاحیت کا فقدان دیکھ کر انہیں کچھ اور کرنے کا مشورہ دیا ـ یہ ان افراد کے لئے مثال ہے جو ہر قیمت پر اپنے بچوں کو اداکار بنوانے پر تلے ہوئے ہیں ـ
ہندی سینما کا یہ عظیم فنکار 04 دسمبر 2017 کی شام برصغیر سمیت دنیا بھر میں پھیلے اپنے پرستاروں کو اداس کرگئے ـ کپور خاندان کا دوسرا عہد ان کے ساتھ ہی اختتام پذیر ہوا ـ ،فنکار مرتے ہیں مگر فن زندہ رہتا ہے،  ششی کپور بھی صدیوں تک آنے والی نسلوں کے لئے مشعلِ راہ بنتے رہیں گے ـ
“پردیسیوں سے نہ اکھیاں ملانا
پردیسیوں کو ہے اک دن جانا!

Facebook Comments

ذوالفقارزلفی
ذوالفقار علی زلفی کل وقتی سیاسی و صحافتی کارکن ہیں۔ تحریر ان کا پیشہ نہیں، شوق ہے۔ فلم نگاری اور بالخصوص ہندی فلم نگاری ان کی دلچسپی کا خاص موضوع ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply