محبت ازلی و ابدی ہے/ڈاکٹر شاہد ایم شاہد

کائنات خدا کا لاجواب کرشمہ ہے۔یہ اپنے اندر کئی راز ، عجائب ، معجزے اور دریافتوں کے انبار رکھتی ہے۔اپنی وسعت و کرامات میں پیمائش سے مبرا ہے۔اس میں خدا کی لاثانیت و لافانیت کے  گہرے مکاشفے ہیں۔

دنیا میں بہت کچھ ہے۔بات صرف دریافت اور کچھ کریدنے کی ہے جس میں محسوسات کا نمایاں عنصر شامل ہے۔
آپ جس چیز کو جتنی شدت کے ساتھ محسوس کریں گے،یا دوسرے لفظوں میں آپ اس چیز کی جتنی پرتیں کھولیں گے۔آپ کو اسی تناسب سے شفافیت اور پھل ملے گا۔بغور مطالعہ اور مشاہدہ کے بعد انسان حیرتوں کے جہان آباد کر لیتا ہے۔عرفانی حسن و جمال جب ہماری نظروں سے ٹکراتا ہے تو دل رشک و تحسین پر مجبور ہو جاتا ہے۔

خدا کی قربت و سایہ روزاوّل سے قائم ہے۔اس میں بغیر رنگ و نسل اور مذہب کے ہر کوئی پناہ لیتا ہے۔ ہر کوئی اس کی برکات و فضائل کے شکرانے اور نذرانے ادا کرتا ہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ دنیا میں اَن گنت دریافتیں اور تبدیلیاں وقوع پذیر ہو رہی ہیں۔انسان نے زمین سے آسمان تک سفر کر لیا ہے۔عقل و دانش نے اپنی تعبیر و تفسیر کے محل تعمیر کیے ہیں۔مگر وقت گزرتا جا رہا ہے۔اس کا راز دنوں ، مہینوں اور سالوں اور صدیوں پر محیط ہے۔

وقت مسلسل اپنی کروٹ بدلتا ہے نہ یہ رُکتا اور نہ ٹھہرتا ہے بلکہ یہ اپنا سفر مسلسل جاری و ساری رکھتا ہے ۔ وقت کی آغوش نے کئی کرشمات کو  جنم دیا ہے ۔وہ تاریخی شواہد کے ساتھ موجود ہیں۔وہ حیرتوں کے نور سے منور ہیں۔ اپنے اندر کشش ثقل کا بھید رکھتے ہیں۔زندگی صبح شام تجربات و مشاہدات کی بنیاد رکھتی ہے۔دنیا میں ہر دن اچھے اور بُرے واقعات کی تاریخ رقم کرتا ہے۔کہیں اچھائی کا سورج طلوع ہوتا ہے اور کہیں برائی کا سورج غروب ہوتا ہے۔

جیسے کائنات کی ہر چیز کا اپنا حسن و جمال ہے۔اپنے کرشمات و معجزات ہیں۔ارتقاءو بقا ہے۔اسی طرح انسانوں کے پاس محبت کا کرشمہ ہے۔
یہ ایک فطری صلاحیت اور جذبہ ہے ۔ناقابل یقین کیفیت ہے۔ آسمان و زمین کی ملکہ ہے۔ہر جاندار کے خون میں موجود ہے۔کوئی اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا۔

سب اس کے محتاج اور ضرورت مند ہیں۔اس کا دائرہ کار عالمگیر ہے۔نسلی تضادات سے بالاتر ہے۔نسل انسانیت کی ترجمان ہے۔اپنے اندر زندگی کی پکار رکھتی ہے۔جذبات کی کشش رکھتی ہے۔مقناطیسی قوت سے زیادہ طاقتور ہے۔

اس نے اپنی فضیلت کے باعث تاریخ میں ایسے واقعات رقم کیے ہیں جو دنیا کے لئے داستان بن گئے۔اپنی عالمگیریت اور مقصدیت میں لاجواب ہے۔دنیا میں ہر جگہ موجود ہے۔
قول و قرار کا ورد کرتی ہے۔اپنے اثرات و کرشمات میں عالمگیر درجہ رکھتی ہے۔جہاں سارے حربے فیل ہو جائیں وہاں فتح کا جھنڈا لہرا دیتی ہے۔ہر کوئی اس کے تجسم کا پیروکار ہے۔ اس کی صفات و عادات ناقابل بیان ہیں۔ اخلاقی قدروں کو فروغ دیتی ہے۔نفرت کی دیواریں گرا دیتی ہے۔سب کو اپنا گرویدہ بنا لیتی ہے۔سب کو اپنا سایہ وساتھ فراہم کرتی ہے۔جس گھر کی زینت بن جاتی ہے اسے اتحادویگانگت کی روح میں باندھ دیتی ہے۔اس کی قوت فیصلہ پل بھر میں تقدیر بدل دیتی ہے۔اپنوں اور غیروں کے درمیان فرق مٹا دیتی ہے۔حادثاتی فاصلوں کو سمیٹ لیتی ہے۔دلوں سے نفرت وفرق مٹا دیتی ہے۔

ان باتوں کے ساتھ اگر ہم عصر حاضر کا مطالعہ کریں تو ہمیں بہت سی بدعتیں اور ناچاقیوں کے جال بچھے نظر آتے ہیں۔مادہ پرستی نے دنیا کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔احساسات و جذبات بالکل ختم ہو چکے ہیں۔

دنیا میں روزبروز گناہ کا زور بڑھ رہا ہے۔لوگ نافرمانی کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔فطری صلاحیتوں کو زنگ لگ رہا ہے۔سرشت میں گناہ کا کیڑا ہمارے ضروری نمکیات چاٹ رہا ہے. ہمیں روحانی طور پر بیمار کر رہا ہے۔ہمارے تعلقات و روابط کا پھل کھا رہا ہے۔

جب کہ خدا کی ذات لا فانی اور لاثانی ہے۔وہ کُل کائنات کا خالق و مالک ہے۔وہ تمام امتوں اور قوموں کا مالک ہے۔اس کی تقدیس کا ہر متنفس اقرار کرتا ہے۔وہ بغیر رنگ و نسل کے ہر انسان کو پیار کرتا ہے۔اس نے ہر انسان کے خون میں محبت کا شعلہ رکھا ہے۔اس میں  محسوسات کی چنگاریاں اور میل ملا پ کے وٹامنز اور رغبت کی کشش ہے۔محبت اپنی طاقت میں ایٹم بم سے زیادہ طاقتور ہے۔

وہ مقناطیسی کشش رکھتی ہے۔جہاں سدھار کے سارے راستے بند ہو جائیں وہاں ایک راستہ بچ جاتا ہے جس کا دروازہ دل میں جاکر کھلتا ہے۔وہاں احساس ، فرض ، خوشی ، پاکیزگی ، ملاپ ، وفا ، ملنساری ، ہمدردی ، جذبہ ، عقیدہ ، اور قربانی جیسی صفات کا جنم ہوتا ہے۔یہ سب کچھ استعداد قبولیت کے باعث ممکن ہوپاتا ہے جبکہ نظر اندازی سے مذکورہ صفات روپوش ہو جاتی ہیں۔جب ایسا ممکن ہوتا ہے تو انسان جلتا کڑھتا اور اپنی ذات سے شکوہ کرتا ہے۔اس کے دل سے توہمات کی لہریں اٹھتی ہیں۔کبھی وسوسوں کا جنم ہوتا ہے اور کبھی قسمت پر نوحہ خوانی۔

یہ ہر انسان کی فطری عادات کا مجموعہ ہے۔وہ اپنے اندر فورا ًگلے شکوؤں کا موسم آباد کرلیتا ہےجب کہ اپنی عادات و اطوار اور کردار کا جائزہ نہیں لیتا۔
اگر ہر انسان فطری طور پر اس بات کا فکری جائزہ لے تو اس کی زندگی پر بہت سی باتوں کا راز کھلے گا۔اسے سب سے پہلے خدا کی محبت کا احساس ہوگا۔وہ اس کے کرشموں پر غور و خوض کرے گا۔کائنات کی ایک ایک چیز اس کی آنکھوں میں سمائے گی۔یکسانیت کے عناصر اس پر اثر انداز ہوں گے۔اس کے ذہن سے مثبت سوچ کا چراغ جلے گا جس کی بدولت اسے آگاہی ملے گی۔

اگرچہ انسانیت بشریت اور آدمیت کا سب سے خوبصورت تحفہ محبت ہے جو ہر بشر کے پاس ہے۔وہ اس تحفے کو ایک دوسرے کے ساتھ بانٹ سکتا ہے۔نہ کوئی اس کی قیمت اور نہ کوئی اس کا فاصلہ ہے۔وقت قبولیت اور برتاؤ ہے۔یہ ہماری عقلی بصیرت ہے کہ ہم دوسروں پر کیسے اثر انداز ہوتے ہیں۔بلاشبہ ہم آہنگی فطرت کا خوبصورت تحفہ ہےجو اسے قبول کر لیتا ہے، وہ اپنی زندگی کو خدا کی قربت میں ڈھال لیتا ہے۔وہ بہت سی الجھنوں، پریشانیوں اور ناچاقیوں سے بچ جاتا ہے۔زمین پر لوگ اس سے رشتہ استوار کرتے ہیں اور آسمان پر بڑی خوشی ہوتی ہے۔کیونکہ ہم خدا کی مرضی پوری کرتے ہیں۔ اور جب کوئی فرمان بجا لایا جاتا ہے تواس سے خوشی   حاصل ہوتی ہے۔وہ جسمانی بھی ہو سکتی ہے اور روحانی بھی۔اس کی اثر انگیزی اور اثرات دائمی خوشی کا باعث بنتے  ہیں۔

الغرض ہم حقائق کی روشنی میں کہہ سکتے ہیں۔محبت آسمان کی ملکہ اور زمین کی وارث ہے۔اسے زوال نہیں کیونکہ یہ اپنے اندر مکا شفائی بھید رکھتی ہے۔کیونکہ نہ اس کا شروع ہے اور نہ آخر ہے۔بلکہ نسل در نسل ایک بہاؤ ہے۔جو روز اول سے چلا آ رہا ہے اور جب تک دنیا کا شیرازہ بکھر نہیں جاتا یہ اپنے بھرم وستائش میں فاتح رہے گی۔اپنی مقبولیت کے جھنڈے لہرائے گی۔دوسروں کو احساس فراہم کرے گی۔سب پرتازگی کے دن آئیں گے۔جھجک اور خوف کو دور کرے گی کیونکہ کامل محبت خوف کو دور کر دیتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

آئیں اگر ہم نفرت کی آگ میں جل رہے ہیں ، ہمارے وجود کے اردگرد کدورتوں کی مکھیاں بھنبھناتی ہیں ،ہمارے دماغ کو حسد کا کیڑا چاٹ رہا ہے، ہماری روح اداس اور بیمار ہے تو پھر ہمیں روح پرور احساس کو بیدار کرنا ہوگاجس کا لافانی ،لاثانی ، اور ازلی اور ابدی نام محبت ہے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
مصنف/ کتب : ١۔ بکھرے خواب اجلے موتی 2019 ( ادبی مضامین ) ٢۔ آؤ زندگی بچائیں 2020 ( پچیس عالمی طبی ایام کی مناسبت سے ) اخبار و رسائل سے وابستگی : روزنامہ آفتاب کوئٹہ / اسلام آباد ، ماہنامہ معالج کراچی ، ماہنامہ نیا تادیب لاہور ، ہم سب ویب سائٹ ، روزنامہ جنگ( سنڈے میگزین ) ادبی دلچسپی : کالم نویسی ، مضمون نگاری (طبی اور ادبی) اختصار یہ نویسی ، تبصرہ نگاری ،فن شخصیت نگاری ، تجربہ : 2008 تا حال زیر طبع کتب : ابر گوہر ، گوہر افشاں ، بوند سے بحر ، کینسر سے بچیں ، پھلوں کی افادیت

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply