پاکستانی کا کھتارسس/بیوروکریسی اور عذاب بزداری۔۔اعظم معراج

پڑھے لکھے تہذیب یافتہ تربیت( شدہ) ذہین فطین پاکستانی بیوروکریسی کے کاٹھا صاحب لوگوں پر پاکستان کی تاریخ میں اکثر عذاب بزداری جیسے عذاب نازل ہوتے رہے ہیں ۔ لیکن وہ اس سے سبق کیوں نہیں سیکھتے۔گورا شاہی کی ترکے میں چھوڑی شاہوں کی نوکر بیوروکریسی جب نکٹائی لگا کر  گلاسوں میں مشروب مغرب یا اطالوی کپوں میں افریقہ کی کالی سیاہ کافی کے گھونٹ بھر کر تقاضا افسری پورے کرتے ہوے گلا کرتی ہے،کہ  ہمیں نواز کے خانساماں،زرداریوں کے محافظوں،عمران کے انویسٹروں کے ذریعے ہانکنے کی کوشش کی جاتی ہے، تو وہ یہ بھول جاتے ہیں،کہ اگر وہ اپنے فرائض آئین قانون کے مطابق انجام دیتے رہے تو شاید  ایسے عذابوں سے بھی بچے رہیں ۔انکی کارکردگیوں پر سینکڑوں کتابیں، ہزاروں لاکھوں مضامین لکھے جاتے  ہیں۔ لیکن انکے رویے دن بدن بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔گو کہ اچھے اور حقیقی عوامی نوکروں کی بھی کمی نہیں، لیکن زیادہ تر شاہوں کی نوکری کے زیادہ عادی ہو چکے ہیں۔

مجھے بھی حالیہ ایک تجربہ ہو ا ہے۔اپنی کتاب شناخت نامہ کے لئے مجھے شوق چرایا کہ اس میں بیوروکریسی میں شامل مسیحیوں کا بھی ڈیٹا ہونا چاہیے۔ جس میں سب سے پہلے میں نے قیام پاکستان کے وقت  اپنی خدمات پیش کرنے والے  انڈین سول سروس کے افسران کی فہرست کے لئے پچھلے تین ادوار کے وزرا ء اعظم کو خطوط لکھے ،کیونکہ سنا ہے۔اسٹبشلمنٹ سیکریٹریٹ سمیت اس طرح کے سارے محکمے وزیراعظم کے انڈر ہی کام کرتے ہیں۔لیکن کسی  کو ہار سمیٹنے ،کسی کو  مالِ  غنیمت ٹھکانے لگانے اور موجودہ صاحب کو لمبے لمبے بھاشن دینے سے ہی فرصت نہیں۔لہذا  پچھلے دس سالوں کی مسلسل خط و  کتابت کے باوجود یہ۔ ۔۔ بال برابر کام نہیں ہوسکا۔ قیام پاکستان کے بعد کی بیورو کریسی کی فہرست کے لئے کسی بیوروکریٹ دوست نے راہنمائی کی کہ  سول سروس اکیڈمی لاہور کے ڈائریکٹر جرنل کو لکھوں۔میں نے فون کیا، اِن دِنوں وہاں ایک خاتون جن کا نام عارفہ صبوحی تھا بطورِ ڈی جی تعینات  تھیں  ۔انھوں نے حقیقی عوامی نوکروں کی طرح دھیان سے میری بات سنی اور کہا تہتر کے بعد جو بیوروکریسی میں ریفارم کی گئی تھی، ان کی بدولت میرے پاس  آپ کو اسی سے بعد کا ریکارڈ ایک دو دن میں مل جائے گا۔ اور پھر واقعی ہی تیسرے دن وہ ای میل کے  ذریعے  2016  تک کی یہ فہرست مجھے مل گئی ،اور وہ بھی کسی  خوشامد  کے بغیر  ۔

میں نے ہلے ہلے نئے ایڈیشن کے لئے حالیہ ڈی جی کو فون کیا انھوں نے بات سنی مقصد جانا اور کہا مسئلہ ہی کوئی نہیں ۔بس آپ مجھے میل کردیں۔میں نے میل کردی۔پھر کچھ دنوں بعد فون کیا۔انھوں نے ڈائریکٹر سی ٹی پی کو ریفر کر دیا۔وہ عموماً  میٹنگ میں ہوتے ہیں ،مل جائیں تو فرماتے ہیں ، بس آپ کا کام تیار پڑا ہے۔کام کیا ہے تین کورسز کے مسیحی شرکاء کے نام جو کہ  اوسط ایک کورس سے زیادہ نہیں ہونگے۔اس دوران ایک دفعہ  ایک خاتون (کمپیوٹر کی انچارج) نے یہ اہم انکشاف بھی کیا کہ یہاں ٹریننگ ہوتی ہے ہم اس میں مصروف ہیں۔ آج کل ٹریننگ چل رہی ہے، عارفہ صبوحی صاحبہ نے چھتیس سال کا ریکارڈ چند دنوں میں بجھوا دیا تھا، لیکن اس دفعہ  صرف تین یا چار نام بتانے کے لئے ڈی جی ڈائریکٹر اور سول سروس اکیڈمی کے کئی لوگ کوشش کررہے ہیں۔ پتہ نہیں کیا چکر ہے۔ میں نے کئی دفعہ  ان خواتین وحضرات کے گوش گزار کیا ہے ، کہ اگر واقعی تیار ہے،تو زبانی نام لکھوا دو لیکن کہاں اتنی تعلیم تربیت لینے کے بعد وہ یہ  کام تو نہیں کرسکتے۔ لہٰذا  دیکھیں کب شاہوں کے نوکروں کو شاہوں کی خدمت سے فرصت ملتی ہے۔بس دعا ہے۔آئندہ  انھیں بزدارسے بھی بھولا اود خان صاحب سے بھی  زیادہ بور کرنے والا وزیراعظم نصیب ہو۔جو انھیں پانچ پانچ گھنٹے ایک ہی بات بار بار بتائے۔پھر انھیں پتہ چلے  کہ جن کی محنت کی کمائی سے انہیں  تنخواہیں اور مراعات ملتی ہیں۔ انکی بددعائیں بھی اثر رکھتی ہیں۔۔لیکن اس سب کے باوجود میں نے کبھی ایسی بددعا کا سوچا بھی نہ تھا کہ ان ذہین اور ہم جیسے معصوموں کو فردوس عاشق اعوان جیسے حکمرانوں کے گماشتوں سے بھی واسطہ پڑ سکتا ہے۔جو اپنی بے عزتی پر تو زرداری حکومت کی رو رو کر کیبنٹ میٹنگ گیلی کر دے۔اور دوسروں کی بے عزتی ٹی وی کلپ میں  سرِعام کرتی پھرے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک تحریک شناخت کے بانی رضا  کار اور سترہ کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply