• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • قیام عدل کی جدوجہد نے ایک اور مرحلہ سر کر لیا۔۔سید ثاقب اکبر

قیام عدل کی جدوجہد نے ایک اور مرحلہ سر کر لیا۔۔سید ثاقب اکبر

علیؑ امام عادل ہیں، جن کے بارے میں نبی پاکؐ صاحب لولاک نے فرمایا کہ ’’علی حق کے ساتھ ہے اور حق علی کے ساتھ ہے، اے اللہ! حق کو ادھر موڑ دے جدھر علی مڑے۔‘‘ 18 ذوالحجہ کو یہ سطور رقم کی جا رہی ہیں، جسے عید کی حیثیت حاصل ہے۔ 18 ذوالحجہ آخری حج کے بعد نبی کریمؐ نے غدیر خم کے مقام پر ایک منفرد سٹیج تیار کرکے اپنے بھائی علی ؑکا ہاتھ بلند کرکے یہ اعلان کیا: “من کنت مولاہ فعلی مولاہ۔” یہ اعلان کرنے سے پہلے نبی کریم ؐ نے یہ پوچھ کر مولا کا معنی واضح فرما دیا۔ الست اولی بکم من انفسکم “کہ کیا میں تمھاری جانوں پر حق اولویت نہیں رکھتا۔؟”صحابہ نے کہا: “بلی بلی یا رسول اللہ، آپ نے بجا فرمایا یا رسول اللہ ؐ’ اس کے بعد آپ نے یہ جملہ کہا، جو ہم نے اوپر لکھا کہ جس کا میں مولا ہوں، اس کے یہ علی مولا ہیں۔ سیاق و سباق سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریمؐ جس معنیٰ میں ہمارے مولا ہیں، علیؑ اسی معنی میں ہمارے مولا ہیں۔ یہ واقعہ چونکہ مقام غدیر خم پر پیش آیا، چنانچہ اس کی یاد میں ہر سال 18ذوالحجۃ کو عید غدیر منائی جاتی ہے۔ ائمہ اہل بیت ؑکی مصدقہ روایات اور احادیث کے مطابق انھوں نے اس عید کو سب سے افضل عید قرار دیا ہے۔

تاریخ شہادت دیتی ہے کہ علیؑ بہترین قاضی، بہترین عادل اور بہترین امام ہیں۔ رسول اللہؐ کی بیٹی حضرت فاطمہ الزہراء ؑنے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ اگر حکومت علی ؑکے ہاتھ میں ہوتی تو وہ عدل قائم کرتے۔ حضرت علی ؑ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ شدت عدل کی وجہ سے مارے گئے۔ (قتل علی فی محراب عبادتہ لشدۃ عدلہ)۔ افسوس ان کا ساتھ نہ دیا گیا، لیکن علی ؑ پھر بھی عدل کے پرچم برداروں کے لیے ہمیشہ نمونہ عمل اور مثال لازوال قرار پائے۔ جوں جوں انسان دنیا کے ظلم پیشہ حکمرانوں اور منافق نقاب پوشوں کی حقیقت سے آشنا ہوتا چلا جاتا ہے، عدل کی اہمیت اور ضرورت اس پر کھلتی چلی جاتی ہے۔ عدل کے ساتھ انسانوں کی پیوستگی اور وابستگی جتنی باشعور، گہری اور محکم ہوتی چلی جائے گی، اتنا ہی اس کے وجود میں عدل الہیٰ کے پرچم بردار علی ؑکی حکومت کی ضرورت کا احساس بڑھتا چلا جائے گا۔ جو آخرکار امیر المومنین علی بن ابی طالبؑ ہی کے ایک فرزند جنھیں تاریخ اور حدیث امام مہدیؑ کے نام سے یاد کرتی ہے، کے ہاتھوں ظہور میں آئے گی۔

دنیا میں رونما ہونے والی حالیہ تبدیلیاں اس امر کی غماز ہیں کہ انسان بیدار ہو رہا ہے، کہیں ظلم کا مقابلہ شروع ہوچکا ہے اور کہیں ظلم سے معرکے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ دنیا کے طاغوت کی حقیقت اور اس کے آلہ کاروں کی ماہیت لوگوں پر کھلتی چلی جا رہی ہے۔ آزادی، جمہوریت، مساوات اور انسانی حقوق کے نام پر صدیوں سے انسانوں کو جو فریب دیا جا رہا ہے، لوگ اس سے آگاہ ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ حقیقی آزادی کی تمنا انسانی سینوں میں انگڑائی لے رہی ہے۔ لوگ خوف کے بت پاش پاش کر رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے رات کی تاریکی کا زور گھٹنے لگا ہے۔ روشن سحر کی امید سینوں میں جگمگانے لگی ہے۔ علامہ اقبال نے پہلے ہی اس امید کا نور سینوں میں بو رکھا ہے:
آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی

ظلم کے سب سے بڑے دیو امریکہ کو یکے بعد دیگرے مختلف محاذوں پر شکست ہو رہی ہے۔ وہ اپنی ترکش کے آخری تیر آزما رہا ہے۔ پاکستان میں رجیم چینج آپریشن کو اسی کے زہر آلود تیروں میں سے ایک تیر کہا جاسکتا ہے، لیکن اب کے عالم اسلام کی دوسری بڑی آبادی والے اس ملک میں عوام اس کی حقیقت کو جاننے کے بعد میدان میں نکل آئے اور انھوں نے علاج کے نام پر اس کی لائی گئی درد آور تبدیلی کو مسترد کر دیا ہے۔ عوام کو ڈرایا گیا، ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے، پراپیگنڈہ کیا گیا، نظام طاغوت کے سارے مہرے یکے بعد دیگرے بے نقاب ہونے لگے۔ لوگوں نے بھی سازش کے تانے بانے کو خوب اچھی طرح سمجھ لیا اور رجیم چینج آپریشن کو پوری قوت سے رد کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

گذشتہ روز پنجاب میں ضمنی انتخاب کے معرکے میں عوام نے جو فیصلہ دیا، وہ دراصل رجیم چینج آپریشن کے خلاف ایک عوامی فیصلہ ہے۔ یہ فیصلہ دراصل ظلم کے خلاف اور حقیقی عدل کے حق میں فیصلہ ہے۔ یہ فیصلہ بیت المال میں لوٹ مار کرنے والے اور عوامی اقتدار پر ڈاکہ ڈالنے والے عناصر کے خلاف فیصلہ ہے۔ بحیثیت مجموعی یہ حقیقی عدل اور حقیقی آزادی کی حمایت میں ایستادگی کا فیصلہ ہے۔ یہ بیک وقت فرعون، قارون اور بلعم باعور کے خلاف فیصلہ ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ عمران خان جرات اور ہمت کا امتحان وجد آفریں اور ولولہ انگیز جدوجہد سے پاس کر رہا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سب اس کی قدرت لا یزال و با جلال کا ظہور ہے، جو مقلب القلوب ہے اور جس نے وعدہ کر رکھا ہے: “وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ” ‎﴿٥﴾ “اور ہمارا ارادہ ہے کہ ہم ان لوگوں پر احسان کریں کہ جنھیں زمین پر کمزور کر دیا گیا ہے اور انھیں ہم پیشوا بنائیں اور وارث قرار دیں۔‏”

اس بظاہر چھوٹی سی کامیابی نے ایک روشن مستقبل کی بنیاد رکھی ہے، لیکن اس کے لیے عوام اور اس کی قیادت کو بیدار بھی رہنا ہوگا اور اللہ کے ساتھ اپنے تعلق کو محکم سے محکم تر کرنا ہوگا۔ غریب اور مقہور عوام کی نجات، قانون کی بالادستی اور عدل و انصاف کی حکمرانی کو اپنا نصب العین بنائے رکھنا ضروری ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ ظلم اور استبداد کے خلاف عالمی سطح پر جاری حقیقی آزادی کی تحریکوں سے وابستگی اختیار کی جائے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ شیطانی قوتیں پھر سے اپنے کسی نئے جال میں اس قوم کو اسیر کر لیں۔ شیطان سے سو فیصد مایوسی کے بغیر یہ مقصد حاصل نہیں ہوسکتا۔ وہ لوگ جو اقتدار کے گرد منڈلاتے رہتے ہیں، ان سے بھی خبر دار رہنا ہوگا۔ وقتی ضرورت کے نام پر حریص اور ہوس پرست افراد کا تعاون حاصل کرنے سے بہتر ہے کہ حکومت ہی کی باگ ڈور نہ سنبھالی جائے۔ وقت نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ یہ دور بندوق کی طاقت کا نہیں، ووٹ کے صندوق کی طاقت کا ہے۔ بندوق والے اپنے کام سے کام رکھیں اور اپنا فریضہ ادا کرنے کی طرف متوجہ رہیں اور عوام کی منتخب حکومت اس ملک اور ملت کی بہتری کے لیے کوشاں رہے۔ البتہ ہم جانتے ہیں کہ
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply