بدن (60) ۔ برداشت کی حد/وہاراامباکر

زمین ہمیں ایک مہربان جگہ لگتی ہے، لیکن اس کا بڑا حصہ ہمارے رہنے کے قابل نہیں۔ یا تو بہت سرد ہے یا بہت گرم۔ بہت خشک یا بہت اونچا۔ لباس، پناہ گاہ اور اپنی بے انتہا ذہانت کے باوجود انسان زمین کی خشکی کے صرف بارہ فیصد علاقہ پر رہ سکتے ہیں۔ اور اگر سمندر ملا لئے جائیں تو صرف چار فیصد علاقے پر۔ یہ ہمارے لئے سنجیدہ سوچ ہے کہ ہمارے اپنے سیارے کا 96 فیصد ہمارے لئے رہائش کے قابل نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہماری فضا کا غلاف بڑا باریک ہے۔ اس کی وجہ سے اونچائی پر رہنے کی بھی حد ہے۔ سب سے اونچی انسانی آبادی چلی میں کوہِ انڈیس پر ماونٹ اوکانقلچا پر ہے۔ اس کی بلندی 17500 فٹ ہے۔ یہ کانکنوں کی بستی ہے۔ اور یہ انسانی برداشت کی حد ہے۔ کان 19000 فٹ کی بلندی پر ہے اور اس بلندی پر سونے کے بجائے انہوں نے روزانہ ڈیڑھ ہزار فٹ نیچے کا سفر کرنے کا انتخاب کیا ہے۔ موازنے کے لئے: ماونٹ ایورسٹ کی بلندی 29000 فٹ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت بلندی پر کوئی بھی جسمانی کام مشکل اور تھکا دینے والا ہو جاتا ہے۔ چالیس فیصد لوگ تیرہ ہزار فٹ سے زیادہ کی بلندی پر طبیعت ٹھیک محسوس نہیں کرتے۔
سطحِ سمندر پر، خون کا چالیس فیصد حصہ سرخ خلیات پر مشتمل ہوتا ہے۔ لیکن بلندی پر اس میں پچاس فیصد تک اضافہ ہو جاتا ہے تا کہ ماحول سے مطابقت بنائی جا سکے۔ لیکن اس کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ زیادہ سرخ خلیات کا مطلب یہ ہے کہ خون گاڑھنا ہو جاتا ہے اور اس کا بہاو سست پڑ جاتا ہے۔ دل کو پمپ کرنے کیلئے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔
بولیویا میں لا پاز کا علاقہ ساڑھے گیارہ ہزار فٹ کی بلندی پر ہے۔ یہاں پر مونگے بیماری عام ہے جس میں ہونٹ نیلے ہو جاتے ہیں اور انگلیاں جڑ جاتی ہیں۔ کیونکہ مستقل طور پر گاڑھا ہو جانے والا خون ٹھیک طرح سے نہیں بہتا۔ اس مسئلے کا شکار ہو جانے والوں کو مستقل طور پر نیچے وادی میں بھیج دیا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ہوائی جہاز کے کیبن میں عام طور پر پریشر اتنا رکھا جاتا ہے جو پانچ سے آٹھ ہزار فٹ کی بلندی کا ہے۔ اگر بلندی پر اڑنے والے جہاز کا کیبن اچانک ڈی پریشرائز ہو جائے تو مسافر اور عملہ کے حواس باختہ ہونے میں آٹھ سے دس سیکنڈ لگیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسان کی سروائیول کی صلاحیت کے بارے میں جتنا ہم جانتے ہیں، بدقسمتی سے اس کا بڑا حصہ جنگی قیدیوں یا بیگار کیمپوں میں کئے گئے تجربات ہیں جو دوسری جنگِ عظیم کے دوران ہوئے۔
جرمنی میں صحت مند قیدیوں کے ہاتھ یا پیر کاٹ دئے جاتے تھے یا ہڈیوں اور اعضا کو دوسروں میں لگانے کے تجربات کئے جاتے تھے۔ مقصد یہ تھا کہ ایسے طریقے بنائے جا سکیں جن کی مدد سے زخمی فوجیوں کا بہتر علاج کیا جا سکے۔ روسی قیدیوں کو یخ بستہ پانی میں پھینک کر یہ معلوم کیا جاتا تھا کہ سمندر میں جہاز گرنے سے پائلٹ کتنی دیر زندہ رہ سکتا ہے۔ سخت سردی میں لوگوں کو گھنٹوں تک بھگایا جاتا تھا تا کہ انسانی سٹیمنا کی حد تلاش کی جا سکے۔ جبکہ سب سے ظالمانہ تجربات وہ تھے، جو محض تجسس کی خاطر کئے گئے تھے۔ کیا رنگوں کی ڈائی کے انجیکشن کی مدد سے آنکھ کا رنگ تبدیل کیا جا سکتا ہے؟ مختلف اقسام کی گیسوں کے کیا اثرات ہوتے ہیں؟ ملیریا، زرد بخار، ٹائفس، چیچک وغیرہ کی انفیکشن کیسے لگائی جا سکتی ہے۔
اور جنگ کے بعد جاری کردہ معذرتی بیان کے برعکس، ایسے تجربات کرنے والے سائنسدانوں کو کبھی اس کے لئے مجبور نہیں کیا گیا۔
سائنس ہمیشہ خوبصورت نہیں ہوتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تجربات جیسے بھی تھے، ان کی ہولناکی جاپان کی طرف سے کئے گئے تجربات کے سامنے ماند پڑ جاتی ہے۔ ڈاکٹر شیرو ایشی کی زیرِ قیادت جاپانیوں نے مینچوریا میں ڈیڑھ ہزار ایکڑ پر 150 عمارتوں پر مشتمل تجربہ گاہ بنائی۔ اس کا مقصد انسانی فزیولوجی کی حدود پر تحقیق تھا۔ یہ یونٹ 731 تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک تجربے میں چینی قیدیوں کو مختلف فاصلوں پر باندھ دیا جاتا تھا۔ اور درمیان میں بم پھوڑا جاتا تھا۔ سائنسدان نوٹ کرتے تھے کہ کتنے فاصلے اور زاویے پر کس طرح کے زخم آتے ہیں اور مرنے میں کتنی دیر لگتی ہے۔
کچھ قیدیوں پر ایسے تجربات آگ، بھوک، برف اور زہر کی مدد سے کئے گئے۔
ناقابلِ فہم وجوہات کی بنا پر کچھ کو چیرا پھاڑا گیا جب وہ ہوش میں تھے۔ ان تجربات کا شکار ہونے والے زیادہ تر چینی فوجی تھے۔ لیکن کچھ دشمن فوجیوں کو بھی شامل کیا گیا تا کہ اس کی تصدیق کی جا سکے کہ ہونے والے اثرات ایشیائی اور یورپیوں پر ایک سے ہوتے ہیں۔ جب یہ تجربات چھوٹے بچوں یا حاملہ خواتین پر کرنا ہوتے تو اس کام کے لئے انہیں ہاربن شہر کی گلیوں سے پکڑ لایا جاتا۔
کسی کو ٹھیک معلوم نہیں کہ اس یونٹ میں کتنی لوگوں سے ان کی زندگی چھینی، لیکن یہ ایک بہت بڑی تعداد تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب جنگ ختم ہوئی تو جاپان اور جرمنی مائیکروبائیولوجی، غذائیت، فراسٹ بائیٹ، ہتھیاروں سے زخم کے علاوہ اعصابی گیس، متعدی بیماریوں، زہریلے مادوں کی سائنس کی سمجھ میں سب سے آگے تھے۔
جنگ ختم ہوئی تو جاپانیوں کے ساتھ اس پر کچھ نہیں ہوا۔ یونٹ 731 کے بارے میں کوئی بات نہیں کی جاتی تھی۔ اور یہ سب خفیہ رہا۔ 1984 میں ٹوکیو کی یونیورسٹی کے ایک سٹوڈنٹ کو پرانی کتابوں میں اس بارے میں دستاویزات ملیں اور یہاں سے اس نے توجہ حاصل کی۔
ان دلدوز تجربات کے ماسٹرمائنڈ ڈاکٹر شیرو ایشی کا انتقال 1959 میں ہوا تو ان کی عمر سرسٹھ سال تھی۔ انہوں نے جنگ کے بعد پندرہ سال کی پرامن زندگی بسر کی اور نیند میں انہیں پرسکون موت آئی۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply