دعا زہرا کیس، سو باتوں کی ایک بات۔۔بیت اللہ

دانشور حضرات الگ جذباتی ہو رہے ہیں اور نوجوان طبقہ تو خیر ہوتا ہی جذباتی ہے. کوئی دعا زہرا کے والدین کے ساتھ آنسو بہا رہا ہے تو کسی کی ہمدردیاں دعا زہرا اور اس کے شوہر کے ساتھ ہیں.

ہر شخص اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق تبصرہ کرنے لگا ہے مگر مجال ہے جو کوئی ٹھنڈے دماغ کے ساتھ معاملے پر غور کرنے کو تیار ہو. سب جذباتی بچے بن گئے ہیں.

سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ اگر دعا زہرا نے اپنے والدین کو بتا دیا تھا کہ میں نے یہاں شادی کرنی ہے تو بھائی صاحب آرام سے کروا دیتے وہاں شادی. اگر عمر کم تھی تو ایک دو سال تک انتظار کرنے پر راضی کر لیتے۔ اگر لڑکے کے مالی حالات کمزور تھے تو آپ مدد کر دیتے. کسی اچھی جگہ نوکری لگوا دیتے یا چھوٹا موٹا کاروبار شروع کروانے میں مدد کرتے. ایک ہزار ایک طریقے تھے معاملات کو آرام سے سنبھالنے کے.

بچے اس عمر میں جذباتی ہوتے ہیں اور اگر انہیں محبت ہو جائے تو ان کے سامنے اپنی محبت کا حصول سب کچھ ہوتا ہے.

یاد رکھیں کہ والدین بچوں کا ساتھ دینے کے لئے ہوتے ہیں. ان پر اپنی مرضی مسلط کرنے کے لیے نہیں. کمپرومائز کرنا پڑتا ہے. ورنہ بچے ٹوٹ جاتے ہیں اور پھر وہی ہوتا ہے جو حال ہی میں ہوا.

دعا زہرا کے والدین دعا کے سامنے ڈٹ گئے تو بچی گھبرا کر بھاگ گئی. اپنے ہی گھر میں اسے عدم تحفظ کا احساس ہوا.

ہم پاکستانیوں کا قومی المیہ ہے کہ ہم آرام سے شروع میں معاملات ٹھیک نہیں کرنا چاہتے ہیں جب تک پانی سر سے گزر نہ جائے. پھر چیختے چلاتے ہیں اور پوری دنیا کی ہمدردیاں حاصل کرنا چاہتے ہیں

Advertisements
julia rana solicitors

اب اس تماشے کے بعد دعا زہرا کے والدین کے ساتھ آنسو بہائے جائیں یا پھر ان بچوں سے ہمدردی کیجئے۔ اب کوئی فائدہ نہیں. اللہ ہم سب پر رحم فرمائے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply