بدحال محکمے کے خوشحال پالیسی ساز۔۔محمد سعید

جب کوئی بھی ادارہ تیزی سے تنزلی کا شکار ہو رہا ہو اور مستقبل قریب میں اس کے شیرازہ بکھرنے کے واضح آثار نظر آ رہے ہوں تو اس ادارے سے وابستہ مخلص ذمہ داران سرجوڑ کر ایک ایسی پالیسی مرتب کرتے ہیں کہ آخری ہچکی سے پہلے ڈوبتے ہوئے ادارے کی جان میں جان آ جائے۔

ریلوے کے پالیسی سازوں کا الگورتھم کم از کم ہر اس شخص کے لئے پریشان کُن ہے جو میری،آپکی طرح ریلوے نامی ادارے سے مخلص ہے۔

ویڈیو کلپ میں آٹھ کنال سے زائد وسیع وعریض رقبہ پر بنے ہوئے ریلوے پرائمری سکول فیصل آباد ہے، جو اب بھوت بنگلہ کی مجسم صورت بنا ہوا ہے،کی ازسرنو محض فلاحی تنظیم سازی کے تحت آبیاری کے لئے ہم نے اپنے طور پر کوشش کی۔

ایک لوکل مستحکم پارٹی جس کا مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس سے وابستہ لوگوں کے بچوں کو کوالٹی ایجوکیشن فراہم کرنے میں وسیع تجربہ ہے، نےجگہ کا وزٹ کیا،کسی حد تک مطمئن ہو گئےاور انہوں نے پروپوزل اپنے مالکان تک پہنچانے کی یقین دہانی بھی کروادی۔

یہ چونکہ تعلیمی ادارہ ہے لہٰذا پارٹی کے مطمئہ نظر نو پرافٹ نو لاس کے تحت اردگرد بسنے والے سینکڑوں ملازمین کے بچوں کو کوالٹی ایجوکیشن کی فراہمی ہی بنیادی مقصد ٹھہرا۔

اب ذرا ریلوے کی پالیسی ملاحظہ فرمائیں،ریلوے انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس جگہ کی مارکیٹ ویلیو بہت زیادہ ہے لہذا ہم اسے کمرشل بنیادوں پر پچیس سے تیس سال کے لئے آؤٹ سورس کریں گے۔

پارٹی پہ لازم ہوگا کہ ریلوے ملازمین کے بچوں کو پچاس فیصد رعایت کے ساتھ تعلیم فراہم کرنے کے مجاز ہوں حالانکہ میری گزارش پہ پارٹی بالکل مفت سہولت دینے پہ بھی بآسانی راضی ہو جاتی۔

ریلوے کے پالیسی سازوں کی اولین ڈیمانڈ یہ ہے کہ پارٹی خستہ حال بلڈنگ کی تزئین و آرائش جو کم از ایک کروڑ کے قریب بنتی ہے خود برداشت کرے،اور اس کے ساتھ ساتھ ریلوے کو ماہانہ بنیادوں پر جگہ کی کمرشل ویلیوز کے حساب سے تین لاکھ سے زائد کرایہ بھی ادا کرے۔

آپ خود اندازہ لگائیں ایک ایسی جگہ جسے پچیس سے تیس سال کی لیز پر دیا جا رہا ہو،پہلے پارٹی اس پہ ایک کروڑ پلے سے لگائے،پھر سٹاف کی تنخواہوں اور دیگر اخراجات کے ساتھ ریلوے کو چالیس سے ساٹھ لاکھ سالانہ کرائے کی مد میں ادا کرے اور پڑھانا کسے ہے فقط پرائمری کلاس کے بچوں کو۔؟

او جناب بحریہ یونیورسٹی نہیں بنانی تھی پرائمری سکول کو اس کی پرانی حالت پہ واپس لانے کی درخواست کی گئی تھی آپ کے حضور۔
اس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ شرائط ایسی رکھو جو ناقابل عمل ہوں کہ جو سنے آپ کی پڑھی لکھی قابلیت اور پالیسی سازی پہ چار حروف کی اضافی خصوصیات کے ساتھ ہنستے ہنستے ہوئے نکل جائے۔
اتنی کڑی شرائط یا تو بھیک دیتے ہوئے آئی ایم ایف متعین کرتی ہے یا پھر ہمارے پڑھے لکھے لوگوں کی بابو کلاس۔

حالانکہ سالہا سال پہلے جس وقت عمارت اس قدر مخدوش نہیں تھی تب میں نے ریلوے حکام کو تجویز پیش کی تھی کہ جناب بچوں کی فری تعلیم و تربیت کے ساتھ دیگر تمام اخراجات میرے یعنی ڈونرز کے ہوں گے ہمیں صرف تین سے پانچ سال کے لئے عمارت دے دی جائے ہم ادارے کو اس کی پہلی والی حالت میں لاکر ریلوے کے سپرد کر دیں گے۔لیکن جناب عمل درآمد کے وقت ایسی قیامت صغریٰ برپا ہوئی کہ خدا کی پناہ۔

دوسری طرف المیہ ملاحظہ فرمائیں کہ خستہ حال بلڈنگز تو ٹھہری دوسری طرف ایسے اسٹیشنز پر جو پہلے ہی اچھی حالت اور قابل استعمال تھے ان کی تزئین و آرائش پہ کروڑوں روپیہ بےدریغ لٹا کر بربادکر دیا گیا۔بات جب تعلیمی ادارے کی تنظیم نو پہ آئی تو پالیسی میکرز کو ریوینیو جینریٹ کرنے کا شدید دورہ پڑنے لگا۔

یہ ادارے کی تنزلی کی فقط ایک مثال ہے ،میں اسکو سامنے رکھتے ہوئے جب دوسرے شعبہ جات کا مستقبل دیکھتا ہوں تو روز روشن کی طرح تباہی و بربادی یقینی نظر آتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ سب پڑھنے کے بعد اگر آپ کی نظر میں کوئی بیوقوف کروڑوں پتی انویسٹر ہو تو مجھے آگاہ کر دیجئے گا کیونکہ اس طرح کے حاتم طائی مجھے مارکیٹ سے مل نہیں پا رہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply