• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • شیعہ روایات میں حضورﷺ کی صاحبزادیوں کی تعداد۔ سید علی اصدق نقوی

شیعہ روایات میں حضورﷺ کی صاحبزادیوں کی تعداد۔ سید علی اصدق نقوی

رسول الله ﷺ کی بیٹیوں کی تعداد کتنی؟

عموماً ہمارے ہاں پاک و ہند میں یہ تصور عام ہے کہ رسول الله ﷺ کی ایک ہی بیٹی تھی یعنی سیدة النساء العالمين فاطمہ سلام اللہ علیہا۔ مگر یہ بات پاک و ہند سے باہر اتنی عام نہیں ہے، بلکہ ہمیں اس کے برعکس معلوم ہوتا ہے۔ ہم کچھ صحیح الإسناد احادیث نقل کریں گے اور قرآن سے بھی بات کریں گے اس کے متعلق۔

قرآن کہتا ہے:يا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗوَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا

اے نبی اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنےچہروں  پر نقاب ڈالا کریں یہ اس سے زیادہ قریب ہے کہ پہچانی جائیں پھر نہ ستائی جائیں اور الله بخشنے والا نہایت رحم والا ہے۔

ادھر ہم دیکھتے ہیں کہ لفظ آیا ہے بناتك یعنی اپنی بیٹیوں، ادھر الله ﷻ نبی کریم ﷺ سے مخاطب ہوکر یہ فرما رہا ہے۔ تو یہ ایک سے زیادہ کا ذکر ہے، کچھ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ ادھر بھی الله ﷻ نے فاطمہ سلام اللہ علیہا کا ذکر جمع سے کیا جیسے مباہلہ کے متعلق کیا نساءنا یعنی ہماری عورتوں سے کہہ کر، مگر ہمارے پاس نص قطعی موجود ہے کہ رسول الله ﷺ مباہلہ میں حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو ساتھ لے کر گئے تھے جبکہ ہمارے پاس کوئی نص قطعی نہیں کہ نبی کریم ﷺ کی باقی بیٹیوں کو مختلف نام سے بلایا گیا بنت محمد کے علاوہ۔ اور مباہلہ جس وقت ہوا تب تک باقی بیٹیاں وفات پا چکی تھیں۔ علاوہ ازیں کچھ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ یہ رسول الله ﷺ کی دیگر بیویوں سے بیٹیاں مراد ہیں، مگر اگر اس طرح سے ذکر کرنا ہوتا تو الله ﷻ اس کا ذکر ایسے کرتا جیسے اس آیت میں کیا: وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُم مِّن نِّسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُم بِهِنَّ، تمہاری پروردہ عورتیں جو تمہاری آغوش میں ہیں اور ان عورتوں کی اولاد, جن سے تم نے دخول کیا ہے ہاں اگر دخول نہیں کیا ہے۔ اگر اس طرح سے ذکر کرنا ہوتا تو ربائب کا لفظ آتا بنات کی جگہ۔

اب کچھ احادیث دیکھتے ہیں:

 

أحمد بن محمد عن ابن أبي عمير عن حماد عن الحلبي عن أبي عبد الله عليه السلام ان أباه حدثه ان امامة بنت أبي العاص بن الربيع وأمها زينب بنت رسول الله صلى الله عليه وآله فتزوجها بعد علي عليه السلام

احمد بن محمد، جنہوں نے روایت کی ابن ابی عامر سے اور انہوں نے حماد سے جنہوں نے حلبی سے اور انہوں نے امام الصادق علیہ السلام سے جنہوں نے فرمایا کہ ان کے والد (امام الباقر ع) نے ان سے بیان کیا تھا امامہ بنت ابی عاص بن ربیع جن کی والدہ زینب بنت رسول الله ﷺ تھیں نے علی علیہ السلام کے بعد شادی کی۔۔۔ الخ

اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زینب بھی رسول الله ﷺ کی بیٹی تھیں۔

تهذيب الأحكام، ج 8، ص 258

اس کے علاوہ یہ روایت ہے:

وَ إِنَّ زَيْنَبَ بِنْتَ النَّبِيِّ ص تُوُفِّيَتْ وَ إِنَّ فَاطِمَةَ ع خَرَجَتْ فِي نِسَائِهَا فَصَلَّتْ عَلَى أُخْتِهَا

زینبت بنت نبی ﷺ کی وفات ہوئی تو فاطمہ علیہا السلام اپنی  عورتوں کے ساتھ نکلیں اور اپنی بہن پر نماز پڑھی۔

اس کی بھی سند معتبر ہے۔

تهذيب الأحكام، ج 3، ص 333

ایک اور حدیث:

قال: وحدثني مسعدة بن صدقة قال: حدثني جعفر بن محمد، عن أبيه قال: ” ولد لرسول الله صلى الله عليه وآله من خديجة: القاسم، والطاهر، وأم كلثوم، ورقية، وفاطمة، وزينب. فتزوج علي عليه السلام فاطمة عليها السلام، وتزوج أبو العاص بن ربيعة – وهو من بني أمية – زينب، وتزوج عثمان بن عفان أم كلثوم ولم يدخل بها حتى هلكت، وزوجه رسول الله صلى الله عليه وآله مكانها رقية. ثم ولد لرسول الله صلى الله عليه وآله – من أم إبراهيم – إبراهيم، وهي مارية القبطية۔۔۔

اور اس نے کہا کہ مجھ سے بیان کیا مسعدہ بن صدقہ نے، اس نے کہا مجھ سے جعفر بن محمد عليه السلام نے بیان کے اپنے والد (امام الباقر عليه السلام) سے کہ رسول الله ﷺ کی خدیجہ سلام اللہ علیہا سے اولاد تھی قاسم، طاہر، ام کلثوم، رقیہ، فاطمہ، اور زینب۔ پھر علی علیہ السلام نے فاطمہ علیہا السلام سے شادی کی، اور زینب کی شادی ہوئی ابو العاص بن ریبعہ سے، اور وہ بنی امیہ سے تھا۔ اور عثمان بن عفان کی شادی ہوئی ام کلثوم سے اور وہ ان میں داخل نہ ہوا حتی کہ وہ وفات پا گئیں۔ پھر اس کی جگہ رسول الله ﷺ نے اس کی شادی رقیہ سے کردی، پھر رسول الله ﷺ کو اولاد ملی ام ابراہم سے، اور وہ ماریہ قبطیہ تھیں۔۔۔ الخ

اس کی سند موثق کے درجے سے نہیں گرتی اکثر علماء کے نزدیک۔

قرب الإسناد، رقم الحديث: 29

نہج البلاغہ:

وَمَا ابْنُ أَبِي قُحَافَةَ وَلاَ ابْنُ الْخَطَّابِ بِأَوْلَى بِعَمَلِ الْحَقِّ مِنْكَ، وَأَنْتَ أَقْرَبُ إِلَى رَسُولِ اللهِ(صلى الله عليه وآله) وَشِيجَةَ رَحِم مِنْهُمَا، وَقَدْ نِلْتَ مَنْ صَهْرِهِ مَا لَمْ يَنَالاَ.

امام علی علیہ اللسام نے حضرت عثمان کو مخاطب کرکے کہا: ابو قحافہ کا بیٹا اور خطاب کا بیٹا زیادہ افضل نہیں تھے نیک عمل کے لحاظ سے تم سے، اور تم ان دونوں سے زیادہ قریب تھے رسول الله ﷺ کے بطور نسبت، اور تم شادی کی وجہ سے بھی ان سے تعلق رکھتے ہو جو کہ وہ دونوں نہیں رکھتے تھے۔

نهج البلاغة، رقم الخطبة: 164

ہمیں بعض روایات میں ملتا ہے کہ فاطمہ سلام اللہ علیہا نے امام علی علیہ السلام کو وصیت کی تھی کہ میرے بعد میری بہن زینب کی بیٹی امامہ سے شادی کرنا، اور پھر بعد ازاں شادی کی تھی آپ علیہ السلام نے۔ اس کے متعلق ایک روایت:

مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیَی عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ فَضَّالٍ عَنِ ابْنِ بُکَیْرٍ عَنْ زُرَارَةَ عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ع قَالَ: أَوْصَتْ فَاطِمَةُ ع إِلَی عَلِیٍّ ع أَنْ یَتَزَوَّجَ ابْنَةَ أُخْتِهَا مِنْ بَعْدِهَا فَفَعَلَ

زرارہ سے روایت ہے کہ امام جعفر الصادق علیہ السلام نے فرمایا کہ فاطمہ (ع) نے امام علی علیہ السلام کو وصیت کی کہ وہ ان کی بہن کی بیٹی سے شادی کرلیں ان کے بعد، تو امام علی علیہ السلام نے ایسا ہی کیا۔

سند معتبر ہے اور تمام راوی ثقہ ہیں۔

الكافي، ج 5، ص 555

اس کے علاوہ کلینی سے لے کر خمینی تک کثیر تعداد میں علماء تشیع کا یہی موقف رہا ہے کہ رسول الله ﷺ کی چار بیٹیاں تھیں، رقیہ، زینب، ام کلثوم اور فاطمہ سلام الله علیهن۔

امام مہدی عج کے نائب کا بیان:

كم بنات رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم؟ فقال: أربع، قال (4): فأيهن أفضل؟ فقال: فاطمة

حسین بن روح (نائبِ امام عج) سے پوچھا گیا کہ رسول الله ﷺ کی کتنی بیٹیاں تھیں؟ انہوں نے کہا چار۔ پوچھا گیا کہ سب سے افضل کون سی تھیں؟ انہوں نے کہا فاطمہ سلام اللہ علیہا۔

الغيبة للطوسي، ج 1، ص 409

ایسے ہی شیخ الكليني الكافي میں لکھتے ہیں:

وَ تَزَوَّجَ خَدِیجَةَ وَ هُوَ ابْنُ بِضْعٍ وَ عِشْرِینَ سَنَةً فَوُلِدَ لَهُ مِنْهَا قَبْلَ مَبْعَثِهِ ع الْقَاسِمُ وَ رُقَیَّةُ وَ زَیْنَبُ وَ أُمُّ کُلْثُومٍ وَ وُلِدَ لَهُ بَعْدَ الْمَبْعَثِ الطَّیِّبُ وَ الطَّاهِرُ وَ فَاطِمَةُ ع وَ رُوِیَ أَیْضاً أَنَّهُ لَمْ یُولَدْ بَعْدَ الْمَبْعَثِ إِلَّا فَاطِمَةُ ع

اور آپ ﷺ کی شادی خدیجہ سلام اللہ علیہا سے ہوئی جب آپ ﷺ کی عمر بیس اور کچھ سال تھی، تو بعثت سے قبل ان کو ان سے اولاد میں قاسم اور رقیہ اور زینب اور ام کلثوم ملے اور بعثت کے بعد طیب اور طاہر اور فاطمہ علیہا السلام، اور روایت کی گئی ہے کہ ان کی کوئی اولاد نہ ہوئی بعثت کے بعد سوائے فاطمہ علیہا السلام۔۔۔ الخ

الكافي، ج 1، ص 439

ایسے ہی شیخ مفید نے لکھا ہے:

أن زينب ورقية كانتا ابنتى رسول الله صلى الله عليه وآله والمخالف لذلك شاذ بخلافه

زینب اور رقیہ رسول الله ﷺ کی بیٹیوں میں سے دو ہیں اور اس بات کا مخالف شاذ ہے اپنی مخالفت میں۔

المسائل العكبرية، ص 120

ایسے ہی شیخ طوسی نے مبسوط میں اور ابن شہر آشوب نے مناقب آل أبي طالب میں، شیخ عباس قمی نے منتهي الآمال میں، علامہ مجلسی نے حیات القلوب میں اور بحار الأنوار میں بہت سی مختلف روایات اس ضمن میں جمع کی ہیں، اور ایسے ہی دیگر علماء نے یہی ذکر کیا ہے۔

ایک بیٹی کی بات جو آج پاک و ہند میں رائج بھی ہے یہ سب سے پہلے علی بن احمد کوفی نے ایجاد کی کہ یہ خدیجہ س کی بہن ہالہ کی بیٹیاں تھیں، اس کو ابن شہر آشوب نے بدعت کہا ہے:

والبدع أن رقية وزينب كانتا ابنتي هالة أخت خديجة

یہ بات بدعت ہے کہ رقیہ اور زینب دونوں ہالہ کی بیٹیاں تھیں جو کہ خدیجہ کی بہن تھیں۔

مناقب آل أبي طالب، ج 1، ص 138

ایسے ہی شیخ تستری نے نقل کیا ہے:

لا ريب أن زينب ورقية كانتا ابنتي النبي (صلى الله عليه وآله). والبدع الذي قال هو كتاب أبي القاسم المذكور

اس بات میں شک نہیں کہ زینب اور رقیہ دونوں نبی ﷺ کی بیٹیاں تھیں۔ اور یہ بات بدعت ہے جو کہ ابو القاسم (الكوفي) کی کتاب میں مذکور ہے۔

قاموس الرجال، ج 9، ص 450

ابو القاسم الکوفی علی بن محمد کے متعلق رجال کی کتب میں ملتا ہے کہ وہ ایک غالی تھا اور کذاب تھا، وہ چوتھی صدی ہجری میں وفات پاگیا تھا۔ دیکھیے الفهرست للطوسي، رجال النجاشي، معجم رجال الحديث وغیرہ۔

ہم یہی نتیجہ نکالتے ہیں کہ قرآن نے بھی بنات یعنی جمع کا لفظ استعمال کیا ہے جب رسول الله ﷺ کی بیٹیوں کا ذکر کیا ہے، اور ایسے ہی ہمیں کثرت سے احادیث ملتی ہیں دیگر بیٹیوں کے متعلق جس میں سے ہم نے چند نقل کردیں باقی بھی کتب احادیث میں موجود ہیں اور علامہ مجلسی نے بحار کی جلد 2، صفحہ 151 پر باب باندھا ہے “عدد أولاد النبي (صلى الله عليه وآله) وأحوالهم” یعنی نبی ﷺ کی اولاد کی تعداد اور ان کے احوال۔ ام کلثوم اور رقیہ بنا کسی اولاد کے فوت ہوگئی تھیں رسول الله ﷺ کی زندگی میں اور ایسے ہی زینب بنت محمد ﷺ کی بھی وفات رسول الله ﷺ کی زندگی میں ہوگئی، آپ ﷺ کی اولاد کا سلسلہ صرف فاطمہ سلام اللہ علیہا سے ہی چلا۔ اب اگر کوئی اس بات سے اعتراض کرتا ہے تو وہ احادیث پیش کر سکتا ہے جس میں ذکر ہو کہ فاطمہ سلام اللہ علیہا واحد بیٹی تھیں، ہم نے بعض افراد سے سنا ہے جو کچھ ریاضیات کے ذریعے نتیجہ نکالنا چاہتے ہیں کہ چونکہ رسول الله ﷺ کی شادی کے وقت عمر تھی 25 سال اور بعد ازاں چار سال تک اولاد نہ ہوئی پھر ان کے بیٹے قاسم کی ولادت ہوئی، پھر باقی اولاد۔۔۔ الخ،

Advertisements
julia rana solicitors

مگر یہ باتیں درست نہیں ہیں کیونکہ ان تواریخ میں ویسے ہی اختلاف ہے تو ان کو بنیاد بناکر ہم کوئی کیلکیولیشن نہیں کر سکتے جس سے کسی نتیجے پر پہنچ جائیں۔ کچھ لوگ کہیں گے کہ مباہلہ کے موقع پر صرف سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کو لے کر گئے رسول الله ﷺ لہذا وہی اکلوتی بیٹی ہیں۔ مگر مباہلہ کا واقعہ دس ہجری میں ہوا جبکہ باقی بیٹیاں تب تک وفات پا چکی تھیں۔ تو یہ اعتراض درست نہیں۔ کچھ لوگ یہ کہیں گے کہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کے متعلق احادیث میں بہت کچھ روایت کیا گیا ہے مگر باقی تین بیٹیوں کے متعلق کچھ خاص نہیں ملتا تو وہ کیوں، تو اس کی بھی وجہ یہ ہے کہ وہ کم سنی میں وفات پا گئیں مگر اس وجہ سے وجود کا انکار نہیں کر سکتے۔ کیونکہ اس ہی طرح رسول الله ﷺ کی بیٹے تھے جن کے نام قاسم، طیب، طاہر اور ابراہیم تھے ان کے متعلق بھی ہمیں کچھ خاص نہیں ملتا روایات میں، مگر کیا ہم اس وجہ سے وجود کا انکار کر دیتے ہیں، نہیں بلکہ ان کے وجود کو ہم پھر بھی قبول کرتے ہیں۔ ہم تو صرف معتبر احادیث و روایات کے مطابق چل سکتے ہیں جو ہم تک پہنچی ہیں۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply