اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی کائنات میں قدرت کے بنائے اصولوں کے سوا کوئی قاعدہ اور قانون سو فیصد درست نہیں۔ انسان کے بنائے قوانین میں ہمیشہ تبدیلی کی گنجائش موجود رہتی ہیں۔ بعض اوقات انسان متاثرین اور مستفید ہونے والے تمام طبقات کی رائے کو شامل نہیں کرتا تو بعض قوانین تیزی سے بدلتی دنیا سے مطابقت نہ رکھنے کی وجہ سے بے اثر ہو جاتے ہیں۔
ارسطو نے ارتقاء کی جو تھیوری دی انسان اسے صدیوں تک درست سمجھتا رہا۔ انیسویں صدی میں ان تھیوریز کو چیلینج کیا گیا اور پھر ارتقاء کے حوالے سے انسان کا نظریہ تبدیل ہوگیا۔ بچپن میں ہم نے ایٹم کے تین اہم حصوں کے بارے میں پڑھا۔ لیکن اب ایٹم کے مزید اہم حصے دریافت کیئے جاچکے ہیں۔ ہمیں پڑھایا گیا تھا کہ نظام شمسی نو سیاروں پر مشتمل ہے۔ لیکن اب پلوٹو کو برف کا ٹکرا قرار دے دیا گیا ہے۔
بحث، مباحثہ اور تنقید انسانی معاشرے کی خوبصورتی ہے۔ جو معاشرے ان تین چیزوں کی اہمیت کو نہ جان سکے ان کا شمار آج بھی ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے۔ وطن عزیز قدرتی وسائل، چار موسموں، محنتی قوم اور اہم ترین بندر گاہوں کی دولت سے مالا مال ہونے کے باوجود بدترین حالات کا شکار ہے۔ اسکی اہم ترین وجہ یہی ہے کہ ہم مکالمے کو فروغ دینے میں ناکام رہے ہیں۔ ہم انڈیا اور بنگلہ دیش کے آگے نکلنے کا رونا تو روتے ہیں لیکن وجوہات جاننے کی کوشش نہیں کرتے۔ آج سے بیس پچیس برس قبل میں انڈیا کے معاشرتی مسائل پر ایک پروگرام دیکھا کرتا تھا اس پروگرام میں جن موضوعات پر بحث ہوا کرتی تھی ہم شائد آج بھی نہیں کرسکتے۔ دس بارہ برس قبل عامر خان نے بھی انڈیا کے معاشرتی مسائل پر ایک پروگرام شروع کیا۔ جسے بہت پذیرائی ملی۔ میں نے اس سلسلے کے بہت سے پروگرام دیکھے۔ مجھے یہ پروگرام ریٹنگ کے عنصر سے آزاد لگے۔ عامر خان کا مقصد انڈیا کو درپیش اہم ترین مسائل کو زیر بحث لانا اور انکے حل تلاش کرنا تھا جس میں وہ کامیاب بھی رہا۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں کہا گیا کہ خواجہ سراؤں کا قانون نئے سماجی مسائل کا سبب بن سکتا ہے، جس میں حقیقی انٹر جنس لوگوں کے حقوق کے تحفظ کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
اجلاس کے اعلامیہ میں کہا گیا کہ خواجہ سراؤں سے متعلق موجودہ ایکٹ کا جائزہ لینے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل، علمائے کرام، قانونی ماہرین اور طبی ماہرین پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائے۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ کمیٹی خواجہ سراؤں سے متعلق موجودہ قانون کا تفصیلی جائزہ لے تاکہ اس معاملے کے ہر پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک جامع قانون سازی کی جاسکے۔ اس کمیٹی کو دو ہفتے کا وقت دیا گیا ہے۔ بل پر کسی دینی جماعت نے اگر سیاست نہیں کی تو ہم امید کرتے ہیں کہ دو ہفتے بعد قابل قبول حل نکال لیا جائے گا۔
73کے آئین کو قابل قبول بنانے کیلئے سیاست دانوں اور تمام مکاتب فکر کے علماسے رائے لی گئی۔ لیکن آئین میں تبدیلی کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اسی کا نام جمہوریت ہے۔ خواجہ سراؤں کے حقوق کے ایکٹ میں کہیں کوئی جھول نظر آ بھی رہا تھا تو اسکے لیئے قانونی طریقہ کار موجود تھا۔ پھر اس پر سیاست کرنے کی کیا ضرورت تھی۔
جماعت اسلامی نے مذہب کے نام پر جس طرح سیاست چمکائی ہے اس سے ہمارے معاشرے، اسلام اور خواجہ سراء کمیونٹی کی خدمت کے بجائے شدید نقصان پہنچنے والا ہے۔
قوم لوط اور ہم جنس پرستی کا لفظ ہمیں زندگی میں کم ہی سننے کو ملتا تھا۔ ہمارے معاشرے میں نہ اس موضوع کی کوئی اہمیت تھی اور نہ ہی اس پر بات کی جاتی تھی۔ مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی جماعت نے اسے اتنا اچھالا کہ آج ہر بچہ نا صرف اس لفظ سے واقف ہوگیا ہے بلکہ اس پر بات بھی کر رہا ہے۔ دوسری طرف ہم جنس پرستی کو سپورٹ کرنے والے اس کے حق میں دلائل دے رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں بل میں ہونے والی ترامیم ہم جنس پرستی کا قانونی طور پر راستہ روک لیں گی۔ لیکن دوسری طرف ہم جنس پرستی کے واقعات میں اضافہ ہوگا اور یہ دوسرے طریقے ڈھونڈنا شروع کر دیں گے۔
ہماری ہمیشہ سے خواہش رہی ہے کہ ہماری قوم، ملک کو درپیش مسائل، خواتین کے حقوق، بچوں، بزرگوں، معذور افراد اور خواجہ سراؤں کے حقوق پر بات کرے۔ کاروبار، جدید صنعتوں، صفائی، پانی کی اہمیت وغیرہ جیسے مسائل پر بحث کرے۔ نوجوانوں میں تعمیری سوچ پروان چڑھ سکے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے ہم نے قلم کے ذریعے کلمہ حق بلند کرنے کی کوشش کی۔ ایک دینی جماعت نے من گھڑت پروپیگنڈے کے ذریعے برائی کو اتنا عام کر دیا کہ پورا ماحول آلودہ ہوگیا۔ اب ہر طرف مایوسی ہی مایوسی ہے اور اسکے کم ہونے کے آثار نظر نہیں آرہے۔
وطن عزیز میں خواجہ سراء کے حقوق کی تحریک مثبت انداز میں آگے بڑھ رہی تھی۔ بہت سے خواجہ سراء اعلی ڈگریاں حاصل کر کے پوری قوم سے محبتیں اور دعائیں سمیٹ رہے تھے۔ دینی جماعت کو انسانی حقوق کا فروغ پسند نہیں آیا اس لیئے اس نے بل کو سیاسی کارڈ کے طور پر استعمال کیا۔ جس کی وجہ سے خواجہ سراؤں کی زندگی خطرے میں پڑ چکی ہے۔ خواجہ سراؤں پر حملوں کیلئے پرتشدد گروپس وجود میں آ چکے ہیں۔ گزشتہ برس ملک بھر میں بیس خواجہ سراء قتل ہوئے جبکہ اس برس اب تک بارہ خواجہ سراء قتل ہوچکے۔ رہی بات تشدد کی تو اسکا حساب نہیں۔ خواجہ سراء کمیونٹی شدید مایوسی اور عدم تحفظ کا شکار ہے جسکی ذمہ داری مذہبی حلقوں پر عائد ہوتی ہے۔

تاریخ اور انسانی حقوق کے ناقص مطالعے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مذہبی جماعتوں کے انسانی حقوق کے بل پر سیاست سے ہم جنس پرستی مزید عام ہوگی اور پانچ سال سے بھی کم عرصے میں ہم جنس پرست سڑکوں پر نکل کر اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے نظر آئیں گے۔ جس کی ذمہ داری مذہبی جماعتوں پر عائدہوگی۔
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں