پاکستان میں ہزارہ نسل کشی۔ اسحاق محمدی ہزارہ

اگرچہ پاکستان میں آباد ہزارہ قوم پر پہلا دہشتگرد حملہ 6 اکتوبر 1999 میں ہوا جس کا نشانہ اس وقت کے صوبائی وزیر ہائیرایجوکیشن سردارنثارعلی خان ہزارہ  تھے جس میں ان  کا ڈرائیور صفدرعلی جان بحق جبکہ وہ خود اپنے باڈی گارڈ منظورحسین کے ساتھ زخمی ہوئے، تاہم ان کی منظم نسل کشی کے بھیانک سلسلے کا آغاز 6 جون 2003،       ولی جیٹ سریاب میں ہزارہ پولیس کیڈٹس پر دہشتگردانہ حملے سے سے ہوا جو تاحال جاری ہیں۔ حکومت بلوچستان کی21 جون 2015 کی سنیٹ کمیٹی کو پیش کی گئی۔

ایک رپورٹ (1) کے مطابق اس دوران کل 1456 ھزارہ، خودکش حملوں یا ٹارگٹ کلینگ میں جان بحق ہوئے ہیں جن میں بچے تا بوڑھے ہر عمر جنس اور طبقے کے لوگ شامل ہیں۔ رپورٹ میں زخمیوں کے اعداد وشمار کا ذکرنہیں تاہم دستیاب دستاویزات کے مطابق ان کی تعدا چارہزار کے لگ بھگ ہیں۔ چلیے  یہ مان لیتے ہیں کہ حکومت بلوچستان کی یہ رپورٹ 21 جون 2015 تک مکمل ہے اور اس تناظر میں اب تک کل ہزارہ مقتولین کی تفصیل اس طرح بنتی ہے:

 

سال تعداد مقتولین
1999 تا  جون 2015 1456
جولائی تا دسمبر 2015 7
جنوری تا دسمبر 2016 8
جنوری تا  نومبر 2017 8
کل تعداد تا نومبر 2017 1479

 

بات آگے بڑھانے سے قبل چند بڑے دہشتگردانہ حملے کی تفصیلات درج ذیل ہیں جن میں دس یا اس سے زیادہ لوگ جان بحق ہوئے :

تاریخ مقام تعداد مقتولین
6 جون 2003 ولی جیٹ سریاب روڑ،  پولیس کڈیٹس پر حملہ 12
4 اگست 2003 پرنس روڑ،ھزارہ امام بارگاہ کلان پر خودکش حملہ 47
2 مارچ 2004 لیاقت روڑ جلوس عاشورا پر خودکش حملہ 42
3ستمبر 2010 میزان چوک، جلوس یوم القدس پر خودکش حملہ 73
30 جولائی 2011 اسپینی روڑ، مسافر سوزوکی وین پر حملہ 11
31اگست 2011 گلستان روڑ،ھزارہ عیدگاہ خودکش حملہ 12
20 ستمبر 2011 مستونگ، کویٹہ- تفتان قومی شاہراہ، مسافر بس پر حملہ 29
28 جون 2012 اخترآباد غربی بائی پاس، ھزارہ سبزی فروش بس پر حملہ 14
10 جنوری 2013 علمدار روڑ دھرا حملے، خودکش و بم 106
16 فروری 2013 کرانی روڑ ھزارہ ٹاون خودکش ٹینکر حملہ 110
29 جون 2013 بلخی چوک ھزارہ ٹاون خودکش حملہ 33
21 جنوری 2014 درینگڑھ، کویٹہ- تفتان قومی شاہراہ، زائرین بس پر خودکش حملہ 25

 

نوعیت (پیٹرن) کے حوالے سے دیکھا جائے تو ھزارہ قوم پر98 فیصد دہشت گردانہ حملے کویٹہ شہر کے حدود میں ہوئے ہیں۔ ان 1479 ہزارہ مقتولین میں سے صرف 100 کے قریب لوگ کوئٹہ سے باہر جیسے مستونگ (29 افراد)، درینگڑھ (25 افرد)، نوشکی، قلات، خضدار، مچھ میں دہشت گردی کا نشانہ بنے ہیں، باقی 1379 لوگ کوئٹہ جیسے چھوٹے شہر کے حدود میں اور ان میں بھی اکثریت کوئٹہ  کے مصروف تجارتی مرکز جناح روڑ، میکانگی روڑ اور پرنس روڑ، سرکلر روڑ کے چھوٹے سے احاطے  کے اندر یا پھرہزارہ ٹاؤن  کو جانے والی تین سڑکوں اسپینی روڑ، جوائینٹ روڑ اور ارباب کرم خان روڑ (آگے جاکر کرانی روڑ کہلاتا ہے)   پر دن کے اجالے میں دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں ۔ حیرت کا مقام ہے کہ ان دونوں خونی بلاکس میں کل ملا کر سات بڑی سڑکیں اور زیادہ سے زیادہ پچاس گلیاں ہیں جنکا مجموعی رقبہ چند مربع کلومیٹر اور کویٹہ کے محض 10 فیصد حصہ سے زیادہ نہیں۔ لیکن گذشتہ 18 سال کے طویل عرصے کے دوران یہاں اتنی بڑی تعداد میں بیگناہ لوگ صرف اپنی نسلی شناخت اورعقیدے کی بنیاد پر قتل کردی گئی ہیں جنکی ذمہ داریاں سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی نامی دہشت گرد تنظیمیں لیتی آئی ہیں لیکن ایک بھی قاتل یا ان کا سہولت کار گرفتار نہیں ہوا ہے جوکہ سرے سے غیرممکن ہے، کیونکہ:

الف۔  یہ دونوں علاقے کم از کم چھ پولیس اسٹیشنز کے دائرے میں آتے ہیں (2) جہاں 24 گھنٹے سینکڑوں پولیس اہلکار تعینات رہتے ہیں جن کی مدد کے لئے مزید سینکڑوں انسداد دہشتگردی پولیس (اے ٹی ایف) اور کئی ہزار بلوچستان ریزرو پولیس (بی آر پی) کے اہلکار ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ۔

ب۔ جنوری 2013 سے پیراملٹری فورس فرنٹیئرکارپس (ایف سی) کے کئی ہزاراہلکار بھی پولیس اختیارات کے ساتھ پورے کوئٹہ  شہر میں تعینات ہیں. یوں کل ملاکر کویٹہ شہر کے اندر سیکوریٹی اہلکاروں کی تعداد دس ہزار سے زائد ہوجاتی ہے۔ اسی لیے سابقہ وفاقی وزیر داخلہ چوھدری نثارعلی خان نے کہا تھا کہ “کوئٹہ سب سے زیادہ سکیوریٹی والا شہر ہے جہاں ہر سو میٹر کے فاصلے پر ایک سکیوریٹی چیک پوسٹ ضرور ہے” (3)۔

کوئٹہ میں مقیم  پاکستان آرمی کی ایک مکمل ریگولر ڈویژن کو ایک طرف رکھ کر یہ بہت سیدھا سادہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ کیا یہ دس ہزار سے زائد تربیت یافتہ اہلکار جن میں سے کم از کم نصف یعنی ایف سی اور اے ٹی ایف تمام ضروری جدید اسلحہ بشمول بھاری اسلحہ بکتربند گاڑی، ہیلی کاپٹر و دیگر ضروری آلات سے لیس ہیں، جب چھ لاکھ کی ہزارہ آبادی کو گیٹوز میں قید رکھ سکتے ہیں (یعنی وہ روزگار، تعلیم، اور سماجی مل میلاب کے حقوق سے محروم ہیں) کیا صرف چند سو دہشت گردوں کو ہزارہ نسل کشی سے  روک نہیں سکتے اور وہ  بھی شہر کے صرف 10 فیصد علاقے میں، یا معاملہ کچھ اور ہے؟

ہزارہ نسل کشی کے بارے میں وفاقی و صوبائی حکومتیں اور ریاستی سیکوریٹی ادارے کچھ اس طرح ردعمل ظاہر کررہے ہیں جو غفلت سے کہیں آگے ہے۔ اس کا ایک اور بین ثبوت، محض چند کروڑ روپے کی لاگت سے کوئٹہ شہر کے1400 ان مقامات پر سکیوریٹی کیمروں کے  تنصیبی منصوبے میں قصداً تاخیرہے جہاں ھزارہ نسل کشی کے واقعات زیادہ ہوتے ہیں۔ دراصل ھزارہ قوم کواصل تشویش بھی اسی نکتہ پرہے۔ ان کا ایک طبقہ اب یہ سوچنے پر  مجبور ہوگیا ہے کہ شاید ریاست اپنی بنیادی ذمہ داری یعنی اپنے شہریوں کی جان ومال کی حفاظت کے ضمن میں، پاکستانی ہزارہ کی جان ومال کی حفاظت نہ کرکے وہ ان دہشت گردوں کی خاموش حمایتی کا کردار نبھا رہی ہے جنہوں نے 2012 میں ہزارہ قوم کو پاکستان چھوڑنے کی اعلانیہ دھمکی دے رکھی ہے۔

سورس:

  1. http://tribune.com.pk/story/924110/protecting-minorities-senate-committee-to-recommend-new-laws/

2۔ پولیس اسٹیشنز (تھانوں) کے نام

قایدآباد، سٹی، گوالمنڈی، سول لاین، سریاب اور بروری

Advertisements
julia rana solicitors

http://zeenews.india.com/news/south-asia/civilian-control-over-intelligence-agencies-pak-senators_855791.html#.Uh3V-qrcrhQ.email

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply