اخلاقیات (41) ۔ کھوکھلی روحیں/وہاراامباکر

“Repugnance may be the only voice left that speaks up to defend the central core of our humanity. Shallow are the souls that have forgotten how to shudder.”

-Leon Kass

Advertisements
julia rana solicitors

جرمنی میں میوس نے اشتہار دیا کہ انہیں ایک صحتمند شخص چاہیے تا کہ وہ اسے کھا سکے۔ اس اشتہار کے جواب میں برانڈس نے حامی بھری۔ میوس نے برانڈس کو ذبح کیا، گوشت فریزر میں رکھ کر کھاتا رہا۔ یہ کام باہمی رضامندی سے کیا گیا۔ (اس کی تفصیل پچھلی اقساط میں)۔ ان دونوں نے کسی بھی تیسرے کو کسی بھی طرح گزند نہیں پہنچائی۔ لیکن ہمیں یہ کہنے میں جھجک نہیں ہوتی کہ اخلاقیات کے معیار پر یہ پست ترین حرکت تھی۔ ایسا کیوں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میوس اور برانڈس نے کسی تیسرے شخص کو براہِ راست گزند نہیں پہنچائی لیکن معاشرے کے کئی بنیادی اصولوں کو پامال کیا۔
یہ ہمارا مشترکہ یقین ہے کہ انسانی جان کی قدر بہت زیادہ ہے۔ انسانی جسم محض چلتا پھرتا گوشت نہیں ہے۔ اور اس مقدس چیز کی پامالی کسی ضرورت کے تحت نہیں کی گئی۔ کسی بڑے مقصد کی خاطر نہیں کی گئی۔ صرف ایک ناقابلِ فہم تفریح کے لئے کی گئی تھی۔
باہمی رضامندی سے کئے جانے والے اس عمل کے خلاف قانون بنانے میں کسی اور کو تکلیف پہنچانے کا اصول ہماری کوئی راہنمائی نہیں کرتا۔ (اتنی محدود سوچ اخلاقی کمیونیٹی تشکیل دینے اصول ناکافی ہے)۔ لوگ یہ احساس رکھتے ہیں کہ کچھ چیزیں، اعمال اور لوگ خالص ہیں، پاک ہیں اور بلند ہیں۔ جبکہ کچھ ناپاک ہیں، آلودہ ہیں اور پست ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمیں تقدیس کی بنیاد پر سیاسی نظریات کی تقسیم واضح نظر آتی ہے۔ مثال کے طور پر، کنزرویٹو اور خاص طور پر مذہبی کنزرویٹو جسم کو عبادت گاہ کے طور پر دیکھتے ہیں جو روح کا مسکن ہے۔ یہ کھیل کا میدان نہیں۔
جبکہ اس کے مخالف جیری بنتھام جیسے مفکر ہیں جن کے مطابق ہمارا مقصد لذتوں کو زیادہ سے زیادہ کرنا ہے اور تکالیف کو کم سے کم۔ اگر آپ کی اخلاقیات محض فرد پر اور اس کے شعوری تجربات پر فوکس کرتی ہیں پھر آپ کے لئے جیری بنتھام سے اتفاق رکھنا ممکن ہو گا۔

تقدیس کی اخلاقی بنیاد کنزرویٹو زیادہ استعمال کرتے ہیں لیکن یہی قدر لبرل افکار میں بھی ہے۔ (صرف جسم سے “زہریلے مادوں” کی صفائی کے لئے ہی نہیں)۔ ماحولیات کی تحریک کے پسِ منظر میں اخلاقی جذبات ہیں۔ ماحول کے تحفظ کا خیال کرنے والے بہت سے لوگ صنعت کاری، سرمایہ کاری اور دھواں اڑاتی گاڑیوں کو صرف فزیکل آلودگی نہیں سمجھتے۔ یہ زیادہ بڑی علامت ہے۔ اسے فطرت کی اور انسان کی اصل نیچر کی بے حرمتی کے طور پر دیکھا جاتا ہے جسے صنعتی سرمایہ کاری آلودہ کر رہی ہے۔ یا پھر مادیت پرستی کی اندھادھند دوڑ پر تنقید کی وجہ ہماری یہی بنیادی قدر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت سے اہم اخلاقی تنازعات کی وجہ سمجھنے کے لئے اس اخلاقی بنیاد کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب 1997 میں ایک بھیڑ ڈولی کو کلون کیا گیا تو اس سے اگلے سال فلسفی لیون کاس نے اس پر اظہارِ افسوس کیا کہ کیسے ٹیکنالوجی اخلاقی حدود کو پامال کر رہی ہے اور سب سے پریشانی کی بات یہ ہے کہ یہ اس خطرناک سراب کو مضبوط کر رہی ہے کہ انسان جو چاہے کر سکتا ہے۔
اپنے مضمون “کراہت کی دانائی” میں کاس لکھتے ہیں کہ کراہت کا احساس ایک قابلِ قدر انتباہ ہے کہ ہم حد سے بڑھ رہے ہیں۔ خواہ ہم اس کی وجہ ہم خود نہ بتا سکیں اور اس کا جواز نہ بنا سکیں۔
“کراہت انسان کے حد سے بڑھنے کے خلاف بغاوت ہے۔ یہ ہمیں خبردار کرتی ہے کہ ہم کچھ ایسی جگہ جا رہے ہیں جہاں نہیں جانا چاہیے۔ آج کے دور میں جب ہر شے کی اجازت ہے، جب انسانی فطرت کا احترام مفقود ہو چکا ہے، ہمارے جسموں کو محض ہماری آزاد مرضی کے آلات سمجھا جاتا ہے ۔۔۔۔۔ کراہت شاید ہماری انسانیت کے مرکز کی آخری آواز رہ گئی ہے۔
وہ روحیں کھوکھلی ہیں جو لرزنا بھول گئی ہیں”۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply