• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • مسلمان محنت کش اشرف سےہندو پوجا کماری تک۔۔حیدر جاوید سید

مسلمان محنت کش اشرف سےہندو پوجا کماری تک۔۔حیدر جاوید سید

سیاست کے رولے گولے ویسے ہی ہیں، نئی بات یہ ہوئی ہے کہ قائد حزب اختلاف اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے بتایا ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے مجھے کہا”سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے ہمیشہ میری عزت کی اور افواج کے کام سے کبھی انکار نہیں کیا”۔ شہباز شریف کے اس بیان سے حظہ اٹھائیں مرض کی تفسیر کریں اور سر دھنتے رہیں شہباز شریف نے گواہ کے طور احسن اقبال کا نام بھی لیا ہے۔

ہم آگے بڑھتے ہیں۔ یہ سطور لکھتے وقت چند خبریں دماغ کو اتھل پتھل کررہی ہیں اس لئے اگر کالم کہیں کہیں بے ربط ہو تو پیشگی معذرت۔ جی ٹی روڈ پر واقعہ وسطی پنجاب کے شہر پتوکی کے ایک شادی ہال میں پاپڑ فروخت کرنے والے محنت کش اشرف کا باراتیوں سے پاپڑ کی قیمت پر جھگڑا ہوا۔ تند مزاج باراتی محنت کش کو مارتے ہوئے شادی ہال کے اندر لے گئے۔

بے رحمانہ تشدد کے نتیجے میں محنت کش جاں بحق ہوگیا۔ اس کی لاش شادی ہال میں پڑی رہی۔ باراتی طعام اڑاتے قہقہے لگاتے رہے۔ ویڈیو وائرل ہوگئی۔ آئی جی پنجاب کے نوٹس لینے پر مقدمہ درج ہوا۔

غالباً پندرہ باراتی اور شادی ہال کا منیجر پچھلی شب گرفتار کر لئے گئے ہیں، گرفتار شدگان نے تشدد کا جواز یہ بتایا ہے کہ پاپڑ بیچنے والا جیب کترا تھا۔ دستیاب معلومات کے مطابق باراتیوں کا یہ موقف اس لئے غلط ہے کہ محنت کش اشرف طویل عرصہ سے اس علاقے اور شادی ہال میں تقریبات کے وقت پاپڑ فروخت کرتا تھا اس کی کبھی کسی نے کوئی شکایت نہیں کی۔

تین دن ادھر جھگڑا پاپڑ کی قیمت پر ہوا۔ پاپڑ خریدنے والے بچوں کی بدتمیزی پر تلخ کلامی ہوئی ان بچوں کے بڑے میدان میں کودے اور “بہادری” کا مظاہرہ کرتے ہوئے محنت کش کی جان لے لی۔ ایک لاش باراتیوں کی میز کرسیوں کے پاس پڑی ہے اور وہ طعام اڑارہے ہیں اس سے زیادہ بے حسی، درندگی اور کیا ہوگی۔ باراتیوں نے گرفتاری کے بعد مقتول پر جو الزام لگایا کہ صرف رنگ بازی ہے اور یہ باہمی مشورے سے لگایا گیا الزام ہے۔ بالفرض اسے درست بھی مان لیں تو تشدد کرکے قتل کردینے کا جواز کیا تھا؟

دوسری خبر سکھر سندھ میں ہندو برادری کی 16سالہ بچی پوجا کماری کے سفاکانہ قتل کی ہے جو زبردستی اغوا کئے جانے پر اپنے ہی گھر میں اغوا کار کے ہاتھوں قتل ہوئی۔ بجا کہ پولیس نے مرکزی ملزم کو گرفتار کرلیا ہے۔ مرکزی ملزم نے پولیس کو دیئے گئے ابتدائی بیان میں بتایا ہے کہ وہ ہندو لڑکی پوجا کماری سے محبت کرتا تھا اسے مسلمان کرکے اس سے شادی کا خواہش مند تھا۔

ساتھیوں کے ہمراہ اسے لینے گیا تو اس نے مزاحمت کی جس پر مجھے غصہ آگیا۔ فائرنگ میں نے اسے اور اس کے گھر والوں کو ڈرانے کے لئے کی تھی مگر گولیاں پوجا کماری کو لگیں اور وہ جاں بحق ہوگئی۔

پنجاب اور سندھ کا یہ ایک ایک حالیہ واقعہ ہمیں یہ سمجھانے کے لئے کافی ہے کہ ہم سماجی تہذیب و رویوں کے حوالے سے کس پستی میں دھنسے ہوئے ہیں۔ دونوں واقعات میں قاتلوں کی تند مزاجی اور سفاکیت مشترکہ ہے، انسانی جان کی ان کے نزدیک کوئی حیثیت ہی نہیں۔

پوجا کماری کے قتل نے سندھ کی ہندو برادری میں ایک بار پھر عدم تحفظ کی تشویش بھری لہر دوڑادی ہے۔ ماضی میں اس طرح کے متعدد واقعات (قتل کے) ہوچکے ہیں اور درجنوں واقعات میں بارہ سے پندرہ سال کی ہندو بچیوں نے اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوکر تیس سے چالیس برس کے مسلمان سے شادی بھی کی۔

ان شادیوں کے لئے جن دینی مدارس سے قبول اسلام اور نکاح شرعی کے سرٹیفکیٹ جاری ہوئے ان مدارس کے منتظمین کی طرف سے مقامی پولیس اور انتظامیہ آنکھ اٹھاکر بھی دیکھنے کی جرات نہیں کرسکتے، کیوں؟

وجہ یہ ہے کہ کسی بھی قانونی کارروائی کی صورت میں صورتحال خراب ہوسکتی ہے۔ ایک شہری کی حیثیت سے میرے لئے یہ بات بہت تشویشناک ہے کہ چند ہفتے قبل بھارتی کرناٹک میں مسلمان طالبہ مسکان خان کے حجاب میں نعرہ تکبیر پر واری صدقے ہوتے پاکستانی مسلمانوں نے سندھ کی پوجا کماری کے سفاکانہ قتل کی مذمت سے گریز کیا۔ وجہ مسکان کا مسلمان ہونا، حجاب سے روکنے والوں کا ہندو ہونا، یہاں پوجا کماری کا ہندو ہونا اور قاتل کا مسلمان، یہ معیار ہے ہماری انصاف پسندی اور انسانیت پروری کا۔

فرض کیجئے سکھر کی بجائے یہ افسوسناک واقعہ بھارت کے کسی شہر میں پیش آیا ہوتا۔ قاتل ہندو ہوتا اور مقتولہ مسلمان، پھر کیا ہوتا؟ ہمارے یہاں طوفان برپا ہوتا، بھارتی ہندوئوں کے بخیئے ادھیڑے جاتے۔ ہمیں اعدادوشمار کے ساتھ بتایا جارہاہوتا کہ پچھلے 75برسوں کے دوران کتنی مسلمان لڑکیوں کی زبردست ہندوئوں کے ساتھ شادی کی گئی اور کتنی قتل ہوئیں۔ یہ درست ہے کہ بلاول بھٹو نے پوجا کماری کے قاتل کو بروقت گرفتار کرنے پر سکھر پولیس ملازمین کی تحسن کی ہے۔

مگر یہ عرض کرنا بہت ضروری ہے کہ حضور والا!یہ تحسین کافی نہیں پیپلزپارٹی گزشتہ ساڑھے تیرہ برسوں سے مسلسل سندھ میں برسراقتدار ہے۔ ان برسوں میں ہندو برادری کی جان و مال اور مذہبی حقوق کے تحفظ کے لئے حکومت نے کیا کیا؟

سندھ حکومت ہمیشہ یہ کہہ کر بہلاتی رہتی ہے کہ ہم جبری مذہب تبدیلی او کم عمری کی شادیوں کے خلاف قانون لائے تھے۔ مذہبی اور نیم مذہبی سیاسی جماعتوں نے ہنگامہ اٹھادیا تھا۔ بالکل درست ہے ایسا ہی ہوا تھا اور یہ غالباً 2011ء کی بات ہے۔

جان کی امان رہے تو پیپلزپارٹی سے ایک سوال پوچھا جاسکتا ہے؟ جبری مذہب تبدیل کرنے اور کم عمر کی شادیوں کے خلاف بنائے جانے والے قانون پر سندھ میں سب سے زیادہ ہنگامے اٹھانے والی جمعیت علمائے اسلام (ف) 2011ء میں بھی پیپلزپارٹی کی سیاسی اتحادی تھی آج بھی یہی مذہبی جماعت متحدہ اپوزیشن میں پیپلزپارٹی کے ساتھ کھڑی ہے۔

مجھے معلوم ہے کہ پیپلزپارٹی اس سوال کا جواب نہیں دے گی۔ وجہ یہ ہے کہ ابھی چند دن قبل سموں نامی ایک مولوی نے جے یو آئی سندھ کے ایک جلسہ میں شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے لئے غلیظ زبان استعمال کی۔

مولانا فضل الرحمن کا دستِ راست راشد سومرو سٹیج پر موجود سر دھنتا اور داد دیتا رہا۔ بعد میں سندھی سماج کے شدید ردعمل پر راشد سومرو نے ایک ڈھیلی ڈھالی معذرت بھری ویڈیو جاری کردی۔ مولوی سموں کہتا ہے کہ میں نے جو کہا اس پر معذرت کیوں کروں۔ سندھ حکومت نے غلاظت سے بھری اس تقریر کا کیا نوٹس لیا؟

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے جو حکومت محترمہ شہید بینظیر بھٹو کے خلاف غلاظت بھری تقریر کرنے والے ایک مولوی سے خوفزدہ ہو وہ ہندو برادری کو قانونی و سماجی تحفظ فراہم کرنے کے لئے کیا کرسکتی ہے؟ کچھ بھی نہیں۔

پتو کی کا مقتول پاپڑ فروخت کرنے والا مسلمان محنت کش اشرف ہو یا سکھر کی ہندو برادری سے تعلق رکھنے والی پوجا کماری، لکھ کر رکھ لیجئے ان دونوں مقتولین کے خون کا کچھ نہیں ہونا۔ پتوکی کے سانحہ میں بالآخر قاتل باراتیوں کی جیت ہوگی اور سکھر میں پوجا کماری کے قاتل کو جذبہ ایمانی کی رعایت ملے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کڑوا سچ یہ ہے کہ یہ سارا معاشرہ چلیں سوفیصد نہ سہی 98فیصد لوگ جنونیت کا شکار ہیں۔ ہمارے ایک دوست کے بقول “ہم بائیس تئیس کروڑ لوگ اصل میں بے حس باراتی ہی ہیں ” طاقت کی بدمستی کے مظاہرہ کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ دعویٰ یہ ہے کہ ہم پسندیدہ امت ہیں اور ہم سے ہی بالآخر کرہ ارض نے ہدایت کا راستہ پانا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply